دُکھ کو تسليم کيا ہے؛ شاعر امتياز فہيم
دکھ کو تسلیم کیا ہے اور لڑے بھی ہيں
سُکھ کی خاطر ستم کے آگے کھڑے بھی ہیں
تجھ سے ہم کلام ہونا خوشی کی بات سہی
غم اپنے تیرے تبسمِ گفتارِ سے پرے بھی ہيں
وہ جن کا دعویٰ تھا ویرانے میں گل کھلانے کا
دیکھا ہے وہی راہِ وفا میں لڑکھڑائے بھی ہيں
قطرہِ شبنم سے کھٹن ہے مشکیں بھرنا لیکن
کیا کریں کہ پیاس سے گل مرجھائے بھی ہيں
اہلِ ستم سے شکوہ کیسا ، غم تو اہلِ وفا پہ ہے
جن کی الگ الگ ٹولیوں سے ڈرے بھی ہيں
« موسیقی کے اثرات؛ تحریر برکت حسین شاد (Previous News)
(Next News) ٣١ جولائی یوم مہم جوئی، تحرير: رحيم خان »
Related News
کاش تم ملنے اؑ جاتی۔ سمیع بلوچ۔
Spread the loveکبھی کبھی یہ دل میں سوچتا ہوں میں یہ زندگی تیری مخملی چادرRead More
*جام خالی، سفره خالی، ساغر و پیمانہ خالی*
Spread the loveشہر خالی، جاده خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی**جام خالی، سفره خالی، ساغر وRead More