منافقت کا سمندر؛ شاعر : خالد کشميری
دکھوں کا مداوہ کرنے والے ہاتھ میں خنجر نکلا
دوستی کے دہرے نقاب کے پیچھے عدو کا ہمسر نکلا
کھڑے رہے مدت سے ہم ہر فرعون کے مقابل
بھائی کے عکس میں جسے دیکھا یزید کا کردار نکلا
روپ بدل بدل کر ستم حصار میں لیتے رہے
کلمہ حق کے لبادے میں منافقت کا سمندر نکلا
سربکف لڑے غیروں سے کچھ اپنے بھی مقابل نکلے
شاہ سے زیادہ غضب ناک شاہ کا وفادار نکلا
آخری گولی آخری فوجی کی گہرائی میں جب دیکھا
ہر زبان و کلام کے پیچھے چھپا ہوا شر نکلا
آزادی کی ترکیب نہ نکلی بہت لہو بہہ چکا
اپنی ہی صفوں میں خالد کوئی نا کوئی غدار نکلا
« کیا پارٹی طبقہ کی نمائندہ ہوتی ہے ؟ تحریر: رضوان کرامت (Previous News)
Related News
کاش تم ملنے اؑ جاتی۔ سمیع بلوچ۔
Spread the loveکبھی کبھی یہ دل میں سوچتا ہوں میں یہ زندگی تیری مخملی چادرRead More
*جام خالی، سفره خالی، ساغر و پیمانہ خالی*
Spread the loveشہر خالی، جاده خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی**جام خالی، سفره خالی، ساغر وRead More