Main Menu

موسیقی کے اثرات؛ تحریر برکت حسین شاد

Spread the love


پچھلے دنوں راقم کو ایک دوست نے نجی دعوت میں مدعو کیا۔ کچھ اور دوست بھی شریک محفل تھے ! کھانےکے بعد موسیقی کا پروگرام بھی تھا۔ گانے والی خاتون شوقیہ گاتی تھی، لیکن سْر میں اور نہایت عمدہ گاتی تھی کہ سماں باندھ دیا۔ انکے پانچ آئٹم تھے جن میں سے چار نئے اور پرانے انڈین فلمی گیت جبکہ ایک آئٹم استاد بڑے غلام علی کی گائی ہوئی ٹھمری تھا۔ موسیقی کو سب کے ساتھ میں نے بھی انجوائے کیا لیکن میرا دماغ افلاطون کی کتاب ریاست اور چانکیہ کی ارتھ شاستر کے چند ابواب میں گم ہو گیا جن میں ان دونوں عظیم دماغ انسانوں نے موسیقی کے حوالے سے اپنے اپنے انداز میں نہایت اہم باب باندھ رکھے ہیں جنہیں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

روح کی غذا موسیقی ہے ،دماغ کی غذا فلسفہ ہے اور جسم کی غذا ورزش ہے!
افلاطون تینوں چیزوں کو انسانی فطرت قرار دیتے ہوئے کہتا ہے ان میں سے کسی ایک کا تناسب بھی بگڑ جائے تو انسان کامل نہیں رہتا۔

موسیقی اگر عشق و محبت اور درد و فراق پر مشتمل ہوگی تو سننے والے کا دل نرمیلا ہوتا جائے گا۔ اس میں جرآت بہادری اور شجاعت کی جگہ نسائیت آ جائے گی۔ موسیقی اگر صرف جنگی ترانوں اور مذہبی پرانوں پر مشتمل ہوگی تو سننے والے کے دل میں وحشت اور خوف بھرتی جائے گی اور وہ آخر میں صرف مرنے مارنے کا کام ہی کرے گا۔ اس لئے موسیقی متناسب ہو۔ متناسب موسیقی قدیم یعنی کلاسیکل ٹرکش، عرابک اور گریک موسیقی ہے جسے وطن عزیز میں کوئی سنتا ہی نہیں نہ جانتا ہے! افلاطون انسانی فطرت کی تشریح کرتے ہوئے اسے دو چیزوں کا مرکب قرار دیتا ہے! یعنی اگر ہم فطرت کو ایک شئے تصور کرلیں تو وہ شئے دو چیزوں سے مل کر بنی ہوگی، ایک بہادری، شجاعت اور جرآت اور دوسری علم یعنی فلسفہ! اس چیز یعنی فطرت کو سنوارنے میں تین چیزیں معاون ثابت ہوتی ہیں، اعلیٰ درجے کی موسیقی، فلسفہ اور ورزش!
یہ تینوں الگ الگ چیزیں ہیں جنکی اپنی اپنی فطرت ہے!
لیکن ان کا کمبینشن انسانی فطرت کو سنوارنے میں نہایت شاندار نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ مسلمان صوفیاء قوالی ،حال اور وظائف کے زریعے سالک کی تربیت کرتے ہیں جس کے پیچھے شاید افلاطون کی یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے! حال ایک ردھمک ایکسرسائز ہے ،قوالی ردھم پیدا کرتی ہے اور وظائف مجاھدے میں مشاہدات کی دنیا بےنقاب کرتے ہیں! مشاہدات علم لدنی کے در وا کرتے ہیں جو شمس تبریز نے رومی پر کھول دیئے تھے! جو زرتشت کی روح نے نطشے پر وا کئے تھے، جس نے سدھارتھ جیسا لافانی کردار وضع کیا تھا۔

چانکیہ اپنی کتاب ارتھ شاستر میں لکھتا ہے موسیقی کے زریعے اپنے دشمن کو شکست دینے کا طریقہ یہ ہے کہ دلکش آواز کی حامل استریوں کو جمع کرو، انکی نوک پلک سنوارو، انہیں عشق و محبت اور درد و فراق پر مشتمل گانے اور رقص سیکھاؤ پھر جنگ سے بہت پہلے ان گائک استریوں کو دشمن کے ملک میں بھیج دو تاکہ وہ اپنے رقص و سرود و صدا کے لوچ و خم سے دشمن کی سینا کو تباہ کر دیں، ان کے دلوں کو نرم اور ان کے دماغوں کو عورت کی ضرورت و ذات پر فوکس کرکے کامی بنا دیں۔ اس طرح آپ لڑے بغیر آدھی جنگ جیت لیں گے!!

موسیقی کے حوالے سے قرآن مجید تو خاموش ہے لیکن روایات میں آیا ہے کہ موسیقی سننا اسلام میں منع ہے۔ امام ابوحنیفہ نے تو مطلق حرام قرار دی ہے۔ جبکہ امام جعفر صادق نے کچھ شرائط کے ساتھ موسیقی کو سننا جائز قرار دے رکھا ہے۔ عین ممکن ہے کہ دونوں اکابرین نے افلاطون کے فلسفہء موسیقی سے نتیجہ اخذ کیا ہو۔ امام جعفر صادق امام ابوحنیفہ کے استاد تھے۔ آپ نے مرقیوں سے آراستہ موسیقی سننے کی مناعی کری ہے۔ شاید امام ابوحنیفہ نے سوچا ہوگا کہ موسیقی کی ان باریکیوں کو کون سمجھے گا لہٰذا بہتر ہے اسے خارج ہی کر دیا جائے۔ کسی حد تک یہ دلیل دل کو لگتی بھی ہے!

ہمارے ملک کے نامور گائیک استاد مہدی حسن نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھے ایک راگ کا ریاض کر رہے تھے۔ کارنس پر کانچ کا ایک گلدان رکھا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں ریاض کرتے کرتے جب وہ سروں کے لوچ و خم میں کھو گئے تو اچانک ایک چھناکے دار آواز آئی،دیکھا تو گلدان گر کر ٹوٹ گیا تھا۔ بادی النظر میں گلدان گرنے کی کوئی فزیکل وجہ نظر نہیں آئی۔ کارنس کافی پرانے زمانے کی طرز پر بنی ہوئی تھی اور کافی بڑی تھی۔ گلدان پس دیوار اچھے سے رکھا ہوا تھا۔۔
میں گھبرا گیا فورآ اٹھا اور اپنے استاد کے پاس گیا ، انہیں سارا ماجرا سنایا۔
وہ سن کر تھوڑا مسکرائے اور کہنے لگے تم راگ میں اتنا کھو گئے تھے کہ اصل تک کو چھو لیا تھا اگر گلدان نہ ٹوٹتا تو تم خود ٹوٹ جاتے!

اردو گائیکی میں درد کو محسوس کرانے والے درد کو سروں میں بیان کرنے والے استاد امانت علی خان ، پنجابی گائیکی میں استاد طفیل نیازی پونچھ والے اور سرائیکی گائیکی میں شاہدہ پروین نے بھی کچھ ایسے ہی واقعات سنائے تھے!
اشفاق احمد نے اپنے پروگرام زاویہ میں استاد امانت علی کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ کہتے ہیں استاد ایک رات کراچی کی کسی نجی محفل میں گا کر آدھی رات کو گھر جانے کے لئے نکلے تو باہر ایک نہایت حسین و جمیل عورت گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی، اس نے استاد سے درخواست کی کہ وہ اسے گھر پہنچانے کی خدمت کا موقعہ دیں۔ استاد تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد عورت کے بےپناہ اصرار پر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ سردیوں کے دن تھے اوپر سے آدھی رات ، سڑکیں تقریباً سنسان پڑی ہوئی تھیں۔ تھوڑی دور جانے کے بعد عورت نے ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا سامنے میرا گھر ہے! آپ اگر چند منٹ میرے ساتھ چلیں گے تو میرے گھر والے آپ سے مل کر خوش ہوں گے، وہ سب آپکے فین ہیں! استاد وضع دار انسان تھے چنانچہ مان گئے! عورت کا گھرانہ کافی بڑا تھا۔ لوگ نہایت ملنسار اور مہذب تھے۔ استاد تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ گئے! کتنی دیر بیٹھے کچھ یاد نہ رہا لیکن جب اٹھے تو صبع دس بجے کا وقت ہوگیا تھا وہاں کوئی گھر تھا نہ لوگ بلکہ ایک خالی پلاٹ تھا۔ اور وہ وہاں ایک پتھر سے ٹیک لگائے ہوئےبیٹھے تھے! وہ حیران و پریشان رہ گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ گزشتہ رات کے واقعات یاد کرکے کچھ گھبرا سے گئے۔ ٹیکسی کرکے گھر پہنچے تو شاید سردی یا خوف کی وجہ سے بیمار پڑ گئے۔ لیکن استاد تمام عمر اس گھتی کو سلجھا نہ پائے کہ اس رات انکے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ایک سئیر نے انہیں بتایا کہ آپ کے ذہن کو راگوں کے گہرے اثر نے اپنے ٹرانس میں لے لیا تھا درحقیقت آپ کسی خیالی عورت اور اسکے گھر والوں سے ملے ، آپ نےجو دیکھا وہ حقیقت میں نہیں تھا ، جو آپ کے اندر بیت گیا وہ سب راگوں کی کرشمہ سازی تھی!

اسی طرح تان سین اور امیرخسرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ گاتے تھے تو انکے سینے کا کپڑا جل جایا کرتا تھا ۔ راگ ملھار چھیڑتے تو بارش برسنا شروع ہو جاتی۔ راگ کلیان گاتے تو محفل جھومنے لگتی۔ راگ پہاڑی گاتے تو لوگ رونے لگتے تھے!

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں پیٹ کو جانوروں کا قبرستان اور اناج کا گودام نہ بناؤ! دل کو حرص و ہوس کا گھر نہ بناؤ اور دماغ کو لایعنی موسیقی سے نہ تھکاؤ۔

اگر ہم اس ساری گفتگو کے نتائج دیکھنا چائیں تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ امریکہ میڈونا، کیٹی پیرے اور مائلی سائرس جیسی گائیکاؤں کی کیوں سر پرستی کرتا ہے؟ کیوں ان کے میوزک کو دنیا بھر میں پروموٹ کرتا ہے! انڈیا چند گائیکوں کو کیوں پدم شری بھوشن پرسکار سے نوازتا ہے؟ کیوں ہماری بہترین کرکٹ ٹیم بھی انڈیا سے ہار جاتی ہے؟ کیوں ہمارے فوج انڈیا سے چھ جنگیں ہار چکی ہے؟
اگر ہم اعتماد سے دنیا کے سامنے کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی دانشمندی سے سیکھنا پڑے گا۔ یہ ازبس لازم ہے۔ مندر اور گردوارے بنا کر دینے سے کچھ ملنے والا نہیں! ہمیں ان کی فلموں اور ڈراموں کی کاپی کرکے بھی کچھ حاصل وصول ہونے کا نہیں! ہمیں کار جہاں کے لئے ان کی دانشمندی سیکھنا ہوگی جو قدیم و جدید کا امتزاج ہے! وہ نادیدہ ہتھیار خریدنا ہوں گے جو دل و دماغ کو مفتوح کر لیتے ہیں! یہ تبھی ممکن ہے جب اہل علم میر کارواں ہوں گے اور محافظ اپنی خدمات کو ترجیح دیں گے جو انکی ذمہ داری ہے۔

افلاطون ریاست میں لکھتا ہے جب محافظ سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیں گے تو ریاست کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس طرح ریاست کی بقاء خطرہ سے دو چار ہو جائے گی!






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *