Main Menu

تہواروں کا ماتم کریں ؛ شاعر: رحيم خان

Spread the love

جانوروں کی قربانی پر جشن کے تہوار
انسان کے گزرے دنوں کی کوئی کہانی تو نہیں
اکثر یہ خیال مجھے جکڑ لیتا ہے
یہ تو کل کی بات ہے جب انسان غلام بناے جاتے تھے
وحشی دور میں دشمن قبیلے کے لوگ
جنگ میں شکست دینے کے بعد لائے جاتے تھے
کھبی غلام بنا کر ہانکے جاتے تھے
کھبی جیت پر قربان کر دیئے جاتے تھے
ان کی فریاد ان کی بے بسی اور آنسو
جان کی بخشش کی التجا اور فریاد
سنی ان سنی کر دی جاتی تھی

قتل گاہ پر فاتح قبیلہ
جشن مناتا تھا
قربانی کے تہواروں کی طرح
جب وہ بھی قطار در قطار
قربان گاہ لاے جاتے تھے
اور
جشن منایا جاتا تھا
ان کی جان بخشی کے لئے چیخیں
کھبی پہاڑوں کھبی قتل گاہ کی دیواروں سے ٹکرا کر
واپس قربان گاہ پلٹ آتی تھی
سیٹیوں, آوازوں اور تالیوں کا شور اٹھتا تھا
اور جشن منایا جاتا تھا
انسانوں کی چیخیں
دوسرے انسانوں کے جشن کے ترانے ہوتے تھے
وہ زبان رکھتے تھے
لیکن
انسان دوسرے انسان کی
بے بسی کی پکار نہیں سنتا تھا
وحشت اب بھی اس کے اندر تھی
دوسرے کی موت کو اپنی زندگی سمجھتا تھا

وقت پلٹا ہے لیکن سفر باقی ہے
آج کے انسان نے
دوسرے انسان کی جان کی حرمت کو
افضل اور عظیم جانا ہے
اس شعور اس احساس میں
اس کی زبان اس کے منہ سے نکلے لفظوں اور آوازوں نے
بڑا کام کیا ہے
اس کو جگایا ہے

اگر یہ زبان
بے زبان جانوروں کو بھی مل جاۓ
تو یہ بے زبان بھی قربان گاہ میں اس جشن پر
ماتم کریں
تو یہ عیدیں یہ تہوار سارے
غمزدہ و اداس ہو جایئں
ان کی فریاد اور آنسو
چیخوں میں ان تہواروں کا ماتم کریں
ماتم کریں






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *