Main Menu

کامریڈ آفتاب زندہ ہے؟؟ تحرير: طيب رياض

Spread the love

انسان کے ہاتھ جب ازاد ہوئے تو اسنے سراٹھا کراسمان کی طرف دیکھا بھوک نےستایا تو اپنی نظریں جنگل کی طرف موڑ دیں اورجانوروں کو تلاش کرنے لگا . لیکن جانور بہت خونخوار تھے اور اسانی سے انسان کے بس انے والے نہ تھے اسلئیے اس نے پتھر کو تراش کر کہ اوزار بنانا شراع کئیے تاکہ وہ اپنی بھوک کاسامان کر سکے وقت گزرتا گیا انسان طبقات میں بٹ گیا طبقاتی معرکوں سے اس نے ارتقاء کیا اور وہ اہستہ اہستہ بقول ہیگل کے غلامی کے ذریعے آزادی حاصل کرنے لگا اور پھر انسان اتنا بڑا ہو گیا کہ اس کاقد چاند تک پہنچ گیا اسکا سفر نہ تھما اج بھی اسکی نظریں چاند تاروں سے پرے کثیر الابعادی کائناتوں کو کھوجنے میں مصروف ہیں انسان خود کو کائنات کی علت نہ بھی سمجھے تو بھی کائنات میں اپنے مقام اور کردار کے اعتبار سے اسکا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کیونکہ تاروں پر کمند ڈالنے والے شاعرانہ تخیلات اور مجرد امکانات جدید سائنس کی بدولت اج صادق امکانات اور معروضی صداقت کا روپ دھار چکے ہیں اس عہد میں کہ جہاں انسان اپنی عظمت کے نقوش کثیر الحبثہ مظاہر سے لیکر مادے کے زیریں اور لطیف ذرات پر ثبت کرتا جا رہا ہے کچھ لوگوں کو انسانیت کی فکر کھائے جا رہی ہے ان لوگوں کو اگرچہ کائنات کی بے پایاں وسعتوں پر انسانیت کے فتح مند قدموں کی بھرپور خوشی ہے مگر انسانیت کے دامن کو رفو کرنے کی ارزو بھی ان کے سینوں میں ٹھاٹھیں مار رہی ہے کامریڈ افتاب بھی انسانوں کی ایسی ہی قبیل سے تعلق رکھتا تھا۔ ۔
دیکھنے میں سیدھا سادھا انسان بلکل ہماری طرح ہنس مکھ ‘ پیار کرنے والا بزم یاراں کا متلاشی روڈ کنارے بیٹھ کر ہوٹلوں سے چائے پینے والا اپنے پیاروں کی کہانیاں سنانے والا دوستوں کی طرف سے دیے گئے زخموں کو اپنی ہتھیلی سے ڈھانپ کر چھپانے والا ‘دوستوں کے بیرون ملک چلے جانے پر رونے والا بول بول کر خاموش نہ ہونے والا اور خامشی میں بہت کچھ بول جانے والا ‘ صابر اتنا کہ پہاڑ ٹوٹ جائیں مگر اف تک نہ کر پائے اور طبقاتی انتقام سے اتنا لبریز کہ جن کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا انکےسر کچلنے سے بھی نہ گھبرائے ‘ ظرف ایسا کے مقابل انگشت شہادت دانتوں میں دبائے اور ذوق انقلاب سے اتنا معمور کہ سب محبتیں اور رشتے ناطے طبقاتی رشتوں پر قربان کرنے سے بھی نہ جی چرائے۔ ۔
کامریڈافتاب اس دھرتی کاوہ بیٹا تھا جسنے اوائل عمری میں حریت کاسبق پڑھ لیا تھا لیکن وہ حریت و آزادی کے کسی ایسے تصورسے واقف نہ تھا جس میں طبقاتی آزادی نہ ہو اورطبقاتی ازادی اخری تجزیے میں طبقاتی جدوجہد سے وابستہ ہے طبقاتی جد وجہد کا عملی اظہار سوشلزم ہے جس کے لیئے طبقاتی جنگ اور پرولتاری امریت ناگزیر ہے کہ صنعتی اعتبار سے پچھڑے ہوئے سماجوں میں پرولتاری قیادت کی حامل انقلابی پارٹی قومی جمہوری تحریک کو سوشلزم کے مرحلے تک لےجاتی ہے افتاب احمد کی پوری زندگی ایک ایسی ہی لینینسٹ پارٹی کی تعمیر میں صرف ہوئی اور اس راستے میں کامریڈافتاب کو جن مصائب سے پالا پڑا اسنے انتہائی عزیمت سے ان مصائب کامقابلہ کیا خاندانی و سماجی دباءو کا تو خیر کامریڈ افتاب جیسے جری سالار کے سامنے اوقات ہی کیا تھی اس مڈل کلاس اپروچ کی حامل سوسائٹی میں رہتے ہوئے بھی اس نے اپنی زندگی کی جمع پونجی لٹا کر نہ صرف دوستوں تک لٹریچر پہنچایا بلکہ وہ یہ حقیقت بھی جانتا تھا کہ کم از کم اتنی معیشت کا ہونا ناگزیر ہے جس سے گھر کا باورچی خانہ متاثر نہ ہو تا کہ لوگ انحصار کی بجائے خود انحصاری کی بنیاد پر اگے بڑھتے ہوئے سیاسی کام کو ترقی دے سکیں اس لئیے اس نے اپنی جمع پونجی لگاکر دوستوں اور کامریڈز کے انگن میں چولہا جلانے کی کوشش کی چنانچہ اس نے “سب سے بڑا روپیہ” کی غیر انسانی اپروچ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے انسانی عظمت ‘احترام ادمیت اور انقلابی رفا قت کو سب سے عظیم رشتہ قرار دیتے ہوئے “روپیے ” کو اس پر قربان کر دیا افتاب احمد کے رویوں اور اخلاقیات کی سوتیں اسکے سوشلسٹ شعور سے پھوٹتی تھیں وہ طبقاتی اخلاقیات کو سمجھتا تھااس لیئے اس کی زندگی میں اس کے پاس جوکچھ تھا وہ طبقے کے لئیے تھا لیکن ہمارے جیسے پسماندہ ناہموار مشترک ترقی کاشکار جاگیردارنہ باقیات کے حامل اور صارف منڈی کے ساتھ جڑے سماجوں میں ہماری سیاسی سماجی تنظیمی اور زاتی زندگی بد عہدی ‘غداری دھوکہ دہی فریب شناخت اور برتری جیسی جاگیری و راسمالی خصلتوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے لفاظی کے سہارے عوامی اعتماد کی تحصیل اور عمل میں میکانیات پسندی نے اس خطے میں سماجی سائنس ہی کو نہیں بلکہ طبقاتی سیاست سے وابستہ نوجوانوں کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اگر ہم موضوعیت پسندی کا شکار ہوئے بغیر تجزیہ کریں تو عامیانہ مادیت پرستی نے اس خطے میں لبرل ازم کا دم چھلہ بن کر ایک سماج کو دھریانے سے زیادہ اپنے لئیے کوئی تاریخی حدود متعین نہیں کیں۔ ۔ افتاب احمد جس کی شاگردگی پرمجھے فخر ہے کی ذات مارکسی اخلاقیات اوصاف کی تجسیم تھی دوستوں کی کسمپرسی دیکھ کر وہ کسی ایسے ولی اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا تھا جو اپنی جیب میں پڑے پیسوں کو عیال اللہ کا حق سمجھتا تھا اور اسکے بعد اس اعانت کوایسے بھول جاتا تھا کہ کوئی کتنا ہی کیوں نہ کریدے کسی دوسرےکے سامنے اسکا ذکرتک نہ کرتا یقینایہی وہ اوصاف ہیں جوایک انقلابی کیڈر کو شعوری بنیادوں پر اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیے۔ ۔۔
کامریڈافتاب اپنی تنظیمی زندگی میں سخت ترین ڈسپلن کے قائل تھے ان کا ماننا تھا کہ انقلابی پارٹی کے بغیر کوئی انقلاب ممکن نہیں اور ڈسپلن کے بغیر کوئی انقلابی پارٹی ممکن نہیں ہے خواہ اسکے ساتھ پارٹی کےکتنے ہی سابقے لاحقے کیوں نہ جوڑ دیے جائیں لیکن تنظیمی معاملات میں انھوں نے ہمیشہ فوجی ڈسپلن کو رد کیا کیوں کہ اسکا تعلق جمہور سے نہیں ہوتا جد وجہد اور مسلسل جد وجہد میں تحصیل شدہ خود ضبطگی ہی ڈسپلن کا مارکسی مفہوم ہے نہ کہ چند لوگوں کی ذہنی کیفیات کو قواعد میں ڈھال کر لوگوں پر مسلط کرنا ۔۔چنانچہ تنظیمی زندگی میں کامریڈ ائین کے معاملے میں کبھی عجلت پسندی کا شکار نہ ہوتے بلکہ انکا ماننا تھا کہ موقع پرستی کو بے نقاب ہونے دو لوگوں کے دعووں کی بجائے ان کے عمل سے نظریاتی کمٹمنٹ کو پرکھو ۔سچائی کا معیار عمل ہے اور خود کو عمل کی بھٹی میں جلا کے کندن بناو کہ صرف اسی سے ہم ایک انقلابی ڈسپلن کی حامل پارٹی تعمیر کر سکتے ہیں ۔کامریڈافتاب پوری زندگی پوری شد ومد کے ساتھ یکطرفہ پن کی تردید کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتے رہے کہ لیننی ڈسپلن کا یہ قاعدہ “ساری پارٹی سنٹرل کمیٹی کے تابع ہے ” کا مفہوم یکطرفہ نہیں بلکہ جدلیاتی ہے کہ سنٹرل کمیٹی تمام برانچز کے تابع ہے یکطرفہ پن کے شکار عامیانہ مادیت پسندوں اور انارکسٹوں کو مرکزیت پسند نہیں ہے اسلئیے تنقید کی ازادی اور اذعانیت کے نام پر اولا سی سی کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہیں اور ثانیا پارٹی کی امریت سے نفرت کرتے ہیں اور بورژوا نظریہ دانوں کو جمہوریت پسند نہیں اس لیئے ان کو مرکزی جمہوریت (سرمایہ دار طبقے کی امریت) سے شغف ہے۔۔اسی بنیاد پر کامریڈ افتاب پارٹی کے اندر تحکم پسندی اورسازش ‘ خود رائے پن اور یکطرفہ پن جیسے پیٹی بورثوا اور نراجی رجحانوں کے خلاف سیاسی اور نظریاتی محاذ پر جد وجہد کرتے رہے۔ ۔۔
ریاست جموں کشمیر کے وجود پر تقسیم کے گہرے گھاو موجود ہیں جن سے رستا لہو پوری عوام کو ایک اذیت ناک کرب سے دو چار کر رہا ہے اور اس پر مزید المیہ بیرونی قبضہ جس کا مقصد وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور مقبوضہ خطے کو اپنی منڈی میں تبدیل کرنا ہے کے نتیجے میں ریاست جموں کشمیر کی صارف منڈی سے خام مال کےساتھ انسانی وسائل بھی حاصل کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ریاست کثیر ابادی اج انتہائی سستے داموں اپنی طاقت محنت بیچنے پر مجبور ہے چونکہ ریاست کا زیریں ڈھانچہ پیداواری سٹرکچر کی تباہی اور خستہ حالی کے باعث صارفانہ ہے نتیجتا ریاست کابالائی ڈھانچہ بھی نو ابادیاتی ساخت رکھتا ہے اور یہی بالائی ڈھانچہ سامراجی پالیسیوں کے زیر اثر زیریں ڈھانچے کو مزید تباہ کر رہا ہے یوں زیریں اور بالائی ڈھانچے کے اس جدلیاتی تعلق کا اظہار سماج کی عمومی نفسیات پر بھی ہوتا ہے جہاں عمومی شعور تخلیقی کی بجائے صارفانہ ہوتا ہے ہمیشہ باہر کی دنیا پر نظریں گاڑے ایسے نو ابادیاتی سماج میں بیگانگی کااظہار بھی بہت بڑی سطح پر ہوتا ہے عوام کے باہمی تعلقات دوستی محبت رشتے وغیرہ کا اگر گہرائی میں تجزیہ کیاجائے تو سطح کے نیچے ہمیں منافقت چاپلوسی بد عہدی اور نوسر بازی جیسی قباحتیں ملیں گی جو اخری تجزیے میں نہ صرف اپنے جیسے دوسرے انسانوں بلکہ خود اپنی ہی ذات سے بیگانگی کا مظہر ہیں کیونکہ فرد کی تحصیل ذات و تکمیل ذات کا تعلق اجتماعیت سے ہے انفرادیت کی نمو بھی ایک صالح اجتماع کے اندر ہی ممکن ہےفرد بطور فرد کھبی بھی اپنی ذات کےجواہر سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا چونکہ اسکی ذات کےاندرونی جواہر بھی اپنی بنیادوں میں سماجی ماہیت رکھتے ہیں اس لئیے بیگانگی ء ذات سے اور تحصیل ذات کا حصول ایک بلند تر اجتماعی سیاسی جدو جہد اور اجتماعیت پر مبنی سماج کی تشکیل سے نامیاتی طور پر جڑا ہے
افتاب احمدنےاپنی پوری زندگی اسی سماج میں ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لئیےوقف کی تھی محض رسمی طور پر ہی نہیں بلکہ اپنی پوری صلاحیتوں کو بروۓ کار لاکر انھوں نے انھوں نے ایسی پارٹی کی تعمیر کاسہرا اٹھایا تھا جدوجہد کے اس سفر میں کامریڈ افتاب کے ساتھ میری رفاقت کم و بیش تین برسوں پر محیط ہے اس عہد رفاقت میں میں نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ وہ اپنی ذات پر تکالیف برداشت کر کہ دوستوں کی تالیف قلب کرتے نظریاتی لٹریچر کے پھیلاو کے لئیے انھوں نے ایک خطیر رقم خرچ کی ۔دوستوں کی ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند رہتے پیٹی بورژوا طرز تفکر سے کوسوں دور رہتے ایک درمیانے درجے کی بھرپور زندگی گزارنے کے وسائل ہونے کے باوجود کامریڈافتاب نے جد وجہدسے بھرپور زندگی کو اختیار کیا کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ تحصیل ذات و تکمیل ذات صرف اور صرف سماجی زندگی سے وابستہ ہے انھیں اس بات کا کامل یقین تھا کہ پرولتاریہ اپنے تاریخی فرائض کی تکمیل کرتے ہوئے جلدیابدیر طبقاتیت سے پاک ایک سوشلسٹ سماج کو منصہ ء شہود پر لائے گا یہی وجہ ہے کہ کامریڈ افتاب نے بے لوث رشتوں کی استواری کے ذریعے اسانحطاط پذیر سرمایہ داری کے دیے گئے بیگانگی کے مظہر کے خلاف انقلابی رفاقتیں استوار کرتے ہوئے بے مثال جد وجہد کی جو یقینا اج تمام ترقی پسندوں بالخصوص jkpnp کے دوستوں کے لئیے قابل تقلید ہیں کہ انقلابی پارٹی کی مضبوطی دشمنوں کے خلاف انتہائی جد وجہد اور باہمی رفاقتوں کی مضبوطی و ترقی سے مشروط ہے فکری و نظریاتی وحدت ہی ان رفاقتوں کی بنیاد ہے۔ ۔۔ ہمارا سماج اپنی ماقبل صنعتیت کی وجہ سے ایک وحدت کے اندر نہ پرویاجاسکا پیداواری نظام کی تباہی کے باعث ہمارے ہاں قبائلی علاقائی ومسلکی تقسیمات کے باعث عمومی طورپرسماج تقسیم در تقسیم کا منظر پیش کر رہا ہے جس کا اظہار قوم پرست سیاست کے اندر بھی ہوتا ہے کہ ہماری قوم پرست سیاست بھی شخصیت پرستی و قبیلہ پرستی کے اثرات سے محفوظ نہیں کامریڈ افتاب پارٹی کی اس پالیسی کے موسیسین میں سے ہیں کہ جس کے مطابق jkpnp نے قبائلی نام کا استعمال اپنے تمام کارکنوں کے لئیے ممنوع قرار دیا تھا چنانچہ ان کی اس بابت ہمیشہ تنقید رہتی کہ ہم پاپولرازم کا شکار ہوتے ہوئے جب پسماندہ قبائلیت کےساتھ جڑ کر قبائلی ناموں کا استعمال کرتے ہیں تو یہ روش ہماری جد وجہد ہی نہیں بلکہ عملا ہمارے ترقی پسند نظریات کے انکار پر منتج ہوتی ہے اس لئیے قبائلیت کے علم کے نیچے قومی آزادی کی جد وجہد کرنا دراصل سرقبیلی (قبائلی سرداریت) جاگیردارنہ رجحان ہے جس کاوضح مطلب یہ ہے کہ ہماری قوم پرست سیاست رٹی رٹائی خالی خولی تجریدی لفاظی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ ہم وہ دیوانے ہیں جو قدیم سماجی ساخت کو باقی رکھتے ہوئے جدید سماجی و پیداوری رشتوں کی تعمیر کی خواہش رکھتے اسی لئیے ہماری قوم پرستی ابھی بھی جاگیردارارنہ قوم پرستی کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکی اس پر مزید المیہ یہ کہ اس جاگیردارنہ قوم پرستی کو فکری بنیاد دینے کے لئیے ریاست جموں کشمیر کے جاگیردارنہ عہد سے قومی ہیروز کی مصنوعی تشکیل کی جا رہی ہے اور دوسری طرف تحریک مزاحمت جو اگرچہ الحاق کی حامی ہو مگر اس کی بنیاد بھی مذہب ہے جو جاگیردارنہ شعور کی عکاسی کرتی ہے ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ کامریڈافتاب اس انتشار عدم تنظیم اطاعت پسندی اور تجربیت پسندی پر مبنی سیاست میں نظریاتی وحدت اور جمہوری مرکزیت کی آواز تھی کہ ہمارے سماج میں نظری تعلیم و تربیت اور میدان عمل میں نظریات کی بنیاد پر قلیل المعیاد اور طویل المعیاد سیاسی مقاصد کے حصول کے لئیے مسلسل جد وجہد سے حاصل شدہ خود ضبطگی ہی کے ذریعے سے ہم اس فرقہ پرور قبیلہ پرست گروبندی پر مبنی سیاست کی جدلیاتی نفی کر کہ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کو ممکن بناسکیں گے اس لئیے کسی قسم کی عجلت پسندی جیسے پیٹی بورژوا رجحان کاشکار ہوئے بغیر ہمیں فکر و عمل کی وحدت پراستوار ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر کا فریضہ پوری تندہی کے ساتھ سرانجام دینا چاہئیے اس مقصد کے حصول کے لئیے انقلابی سائنسی نظریہ اور پرولتاری ضبط بنیادی شرط ہے
افتاب احمد ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے بہترین سیاسی ورکر ‘نظریہ دان اور منتظم جواپنی زندگی کا تھوڑا ہی عرصہ جی سکے اور اس جہاں سے کوچ کر گئیے جو زندگی افتاب احمد نے جی وہ جد و جہد سے بھرپور تھی اور یقینا ایسی ہی زندگی ایک انقلابی کی خواہش ہوتی ہے مگر بدقسمتی کہئیے یا وقت کی ستم ظریفی کہ کامریڈ نےجس طرح اس جہاں کو الودع کہا ویسا ہونا نہیں چاہئیے تھا کہ اپنوں سے دور دیار غیر میں وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئیے پوری زندگی کامریڈز کے جم گٹھ میں رہنے والا کامریڈ افتاب زندگی کی اخری ساعتوں میں انتہائی گھٹیا اور حقارت سےبھرپور پروپیگنڈے کی زد میں کیوں اس تنہائی کا شکار ہوا جس سے اسے ہمیشہ کوفت ہوتی تھی؟ ؟
کامریڈ افتاب جو ایک محب وطن انسان تھا نہ وہ غاصبوں کےخوف سے بھاگنے والوں میں سے تھا اور نہ ہی اسے غاصب سورماوں کے ہاتھوں اپنی جان کے جانے کا کوئی خطرہ تھا بلکہ اس کی زندگی تو وطن کی امانت تھی اس مٹی اور اس پر بسنے والے اپنے طبقے کے لئیے جان کی قربانی اس کے سامنے ہیچ تھی اس کے نزدیک زندگی کی معنویت تو اسے محنت کش طبقے کے لئیے قربان کرنے میں تھی کامریڈ افتاب کسی بھی مرحلے پر غاصب طبقات کے اگے نہ جھکے تھے چاہے وہ امن مارچ ہو مزدور تحریک ہو یا پھر دیگر عوامی مسائل پر جد وجہد وہ ہجیرہ بازار میں پیشہ ور قاتلوں کی سنگینوں کے سائے میں بھی ازادی کا نغمہ گانے سے نہیں گھبرایا تو اپنے گھر میں بیٹھے اپنی موت کے وسوسوں سے دو چار کیسے ہو سکتا تھا ۔۔؟؟اپنی زندگی کے اخری عرصے میں کامریڈ کو قدرت کی طرف سے ایک ننھی کلی عطاء ہوئی تھی جس کا نام انھوں نے منیشاء رکھا تھا ہرباپ کیطرح انکی بھی حسرت تھی کہ وہ اپنی گڑیاکو بڑھا ہوتے دیکھتے اسے سینے سے لگاتے اس کی اٹکلیوں سے محظوظ ہوتے لیکن وقت کی بے رحم لہروں نے انھیں اس کا موقع نہ دیا اور وہ بہت سارے دوستوں کو اگاہ کیئے بغیر وطن چھوڑ کر چلے گئے جب کامریڈ بنکاک میں تھے تو راقم کی ان سے بات ہوئی کامریڈ افتاب کہنے لگے کہ میرے پاس اس کے سواہ کوئی چارہ نہ تھا (جو دوست کامریڈ کے اخری وقت کو جانتے ہیں وہ ان کی مجبوریوں سے واقف ہیں) کہ کامریڈ پر کتنی مالی مشکلات اور سماجی دباو تھا جن کی بنیاد پر کامریڈ کو یہ انتہائی فیصلہ کرنا پڑا بہرکیف افتاب احمد کے بقول انکا یہ فیصلہ خواہ کتنی ہی مجبوری میں کیوں نہ ہوا ہو موقع پرستی کے اثرات سے پاک نہی ہے لہذا پارٹی کی سنٹرل کمیٹی انکے متعلق جو فیصلہ کرے گی وہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے ۔۔ کامریڈ افتاب کے ساتھ اپنی رفاقت کے اس عرصے میں میں نے بار ہا کامریڈ کو سیاسی پناہ کے رجحان پر تنقید کرتے ہوئے پایا کہ ہمارے ہاں سیاسی پناہ کہ پیچھے اتنے سیاسی مفادات نہیں ہوتے جتنے مالی مفادات ہوتے ہیں جو کیڈر اپنی دھرتی پر جد وجہد کی بجائے فرار کے راستے اختیار کرتا ہے وہ کبھی بھی انقلاب کے ہراول کا کردار اداکر سکنے کے قابل نہیں ہوتا سیاسی پناہ بعض حالات میں واحد راستہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ ایک باقاعدہ کاروبار کا روپ دھار چکا ہے کہ اچھا خاصا پوٹینشل اور مالی حالت کے باوجود لوگ جدو جہد کے بجائے انفرادی زندگی کو سہل بنانے کے لئیے اور مزید دولت مند بننے کے لئیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں جو یقینا لمحہ ء فکریہ ہے۔ ۔
کامریڈ افتاب سیاست کے پرپیج اور خم دار شاہراہ کو سمجھتے تھے جس کااظہار ان کے رویوں میں ہوتا تھا ہم جیسے پراگندہ ذہنوں کی تربیت میں انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی سیاسی رویوں کی نا بالغ پن پر جہاں وہ تنقید کرتے جسے ہم ڈانٹ کہتے تو اس بڑھ کر خود پر تنقید برداشت کرتے کہ ان کا خیال تھا کہ تنقید اور خود تنقیدی کسی بھی انقلابی پارٹی کاوہ اصول ہے جسے نظر انداز کر کے کبھی بھی انقلابی پارٹی تعمیر نہیں کی جاسکتی سیاسی تنقید کو پرسنلائزکرنے اور سیاست میں زاتیات پر حملے کرنے کا رجحان بنیادی طور پر ایک جاگیردارنہ رجحان ہے جو لازمی طور پر ایک قبائلی مزاج کا شاخسانہ اور سیاسی رویوں میں عدم بلوغت کااظہار ہے اس لیئے ایسے رویوں کی تربیت کے ذریعے اصلاح انقلابی پارٹی کے لئیے ضروری ہے کامریڈ افتاب برداشت اور ضبط کی بے مثال طاقت کے مالک تھے سیاسی زندگی میں نہ ہی انھوں نے ذاتیات پر حملے کئیے اور نہ ہی سیاسی تنقید کو ذاتی انا بنایا۔۔۔ہماری بد قسمتی کے ایسا کامریڈ ہمارے بیچ زیادہ دیر نہ رہ پایا اسکی وفات نہ صرف پی این پی بلکہ قومی و بین الاقوامی مزدور تحریک کے لئیے بھی نقصان دہ ہے لیکن بین الاقوامی مزدور تحریک اور عالمی سوشلزم نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ فرد کی موت کوئی موت نہیں ہوتی جب وہ اپنی میراث نظریہ اور جد وجہد کی صورت چھوڑ گیا ہو کامریڈ افتاب بھی اپنے پیچھے ایک قافلہ ء جنوں چھوڑ گیا جس کو کامریڈ کی صحبت اور تربیت نصیب ہوئی ہے یہ انکا فریضہ ہے کہ وہ ببانگ دہل اعلان کریں کہ افتاب سا نظریاتی کارکن نہیں مر سکتا بلکہ وہ اپنے نظریے کیصورت میں ہمیشہ زندہ رہے گا جب تک ریاست جموں کشمیر کے اندر ایک بھی انسان بھوک بیماری کاشکار رہے گا افتاب اس کے حقوق کی لڑائی کی صورت میں زندہ رہے گا لیکن سماج اپنے شعور کی عمومی پسماندگی کے باعث افتاب کی اس معنوی زندگی کو نہیں سمجھ سکتا تا وقتیکہ انقلابی عمل سے اس سماج کی کایا پلٹ دی جائے ہر اس منیشاء کو جو خوراک کی کمی کاشکار ہے کو بھوک کے اژدھے سے نجات نہ دلادی جائے ‘ہر اس نوجوان کو جو موت کی راہوں پر چل نکل ۔ ہے کو حیات کی شاہراہ پر چلنا نہ سکھا دیا جائے ہر اس زباں کو جو بولنا چاہتی ہے لیکن اس پر غداری کے خوف کاقفل لگا دیا گیا ہے کو ازادی اظہار رائے کی ضرب سے توڑ نہ دیا جائے ‘جب تک سماج پر ظلم ‘جبر ‘ استحصال ‘ خوف اور اوہام سایہ فگن رہیں گے کامریڈ افتاب جد وجہد میں رہے گا اور جب زندگی کی رمق سے محروم ریاست جموں کشمیر کی عوام کے خیالات کامریڈ افتاب کے تفکر کے ایک کارگر وار سے حیات نو کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے سکوت سے منہ موڑیں گے اور پھر تاریخ کا رخ بدلے گا طبقاتی جنگ کانقارہ ان کی سما عتوں کے دبیز پردوں سے ٹکرا کر انھیں مرتعش کرے گا اورسماج پرمسلط اس جبر کے بندھن ٹوٹ گریں گے تب ہمارا دمکتاافتاب نئے چمکتے اورروشن سماج کی تعمیر کے لئیے پھر سے جنم لے گا اوراس سماج میں افتاب سے کوئی اسکی مٹی اسکی زندگی اور منیشاء سے اسکا باپ نہ چھین سکےگا ۔۔ کامریڈ ! ہم اپکے نئے جنم کے لئیے اس دھرتی کو مساوات ‘اخوت بھائی چارہ رواداری کے پھولوں سے مزین کرنے کے لئیے کمر بستہ ہوئے ہیں وقت دور نہیں جبہم اپکو ایک غیر طبقاتی سماج میں خوش امدید کہیں گے اج ہم جد وجہد انقلاب میں بچھڑے ہیں تو کل ہم انقلاب کی تعمیر میں نئی شناخت سے پھر شامل ہوں گے وہ شناخت جو سائنسی سوشلزم کی بین الاقوامی تحریک نے ہمیں دی ہے جسکی تجدید ہرایک طبقاتی مبارزت کرتی ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *