اک ساز سنائی دیتا ہے، اک چیخ سنائی دیتی ہے؛ شاعر: مشتاق علی شان
کبھی ایک اِرم کے گوشے میں
گاہ اک برباد خرابے میں
کبھی شہد مُلبب کاسے میں
گاہ زہر بھرے تلخابے میں
اک ساز سنائی دیتا ہے
اک چیخ سنائی دیتی ہے
اس کیف عذاب کے عالم میں
ان آس نراس کے لمحوں میں
جانے وہ کون سا لمحہ تھا
جب شوپنہار نے جھانکا تھا
اورگھنگروچھن چھن ناچے تھے
تب سے کچھ آوارہ روحیں
کچھ دیر،کبھی کچھ دن کے لیے
مجھ پر چابک برساتی ہیں
اس دوزخ میں لے جاتی ہیں
احساس کی برزخ ختم جہاں
جاں ساز نہیں ، جاں چیخ نہیں
ہر ایک عمل جاں لایعنی
ہر کام عبث بیکار جہاں
ہیں چھن چھن گھنگروناچ رہے
بس شوپنہار کے اشکوں پر
« يکجہتی ڈرامہ، پاکستانی سينٹ کا اجلاس پاک و ہند کی مفاہمت کا ثبوت، جموں کشمير کی تقسيم و انضمام پہ دونوں ممالک ميں اتفاقِ راۓ ہے، حبيب الرحمن (Previous News)
(Next News) غير مُلکی مجلسِ شاہی وطن ميں؛ شاعر: پنشمیر جمار »
Related News
کاش تم ملنے اؑ جاتی۔ سمیع بلوچ۔
Spread the loveکبھی کبھی یہ دل میں سوچتا ہوں میں یہ زندگی تیری مخملی چادرRead More
*جام خالی، سفره خالی، ساغر و پیمانہ خالی*
Spread the loveشہر خالی، جاده خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی**جام خالی، سفره خالی، ساغر وRead More