Main Menu

آزاد نظم “ميں اور روزہ” شاعر: رضوان اشرف

Spread the love


ہيں بہت اونچی اونچی
درس گاہيں
مگر
ان ميں حصولِ علم کا
مجھ پہ روزہ ہے
ہيں بہت خوبصورت ہسپتال
ہر کہيں
مگر
علاج کا
مجھ پہ روزہ ہے
بازاروں ميں
زندگی کی ہر شے
ہے موجود
مگر
مجھ پہ روزہ ہے
جا بجا عدالتيں ہيں
دہليز پہ انصاف
سرکار کا وعدہ
عدالتوں سے
اداروں سے
سرپنچ سہوکاروں سے
ہر کہيں
انصاف ہی انصاف
مگر
مجھ پہ روزہ ہے
اے مرے خدا
ميں فکرِ معاش ميں
بدحواس
نکلتا ہوں
نہ کوئ جنرل وزير کا رقعہ
نہ منبروں کی سفارش
قدم قدم پہ
روزہ
ميرا مقدر ہے
سحر سے شام تلک نہيں
سالوں سے
صديوں سے
نسل در نسل
مجھ پہ روزہ ہے
بس
روزہ ہے!!!
زندگی سے باز آ چُکا
انسانی ضرورتوں سے
رُک گيا ہوں
مجھ پہ کہ صديوں سے
روزہ
طاری ہے
ميں کہ سر تا پاء
اس نظام ميں
ہر کہيں ہر جاء
مہد سے لحد تلک
روزہ ہوں ميں
مجھ پہ روزہ ہے
مگر
اب انتہا ہو چُکی
ميرے خُدا!
ميں بھی کہ
تيرا ناہب ہوں آخر
برسوں سے طاری روزہ
اب مجھے
افطار کرنا ہے
ان محرميوں
ان مظلوميوں کا
اب انظار کرنا ہے
سبھی کو ساتھ لے کر
ظالموں کی بستيوں کو
انگار کرنا ہے
کہ ہم نے مل کر
صديوں کا روزہ
اب افطار کرنا ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *