جشنِ آزادی پاک و ہند کے نام؛ شاعر : امتیازفہیم
چند لوگوں کی ھیں یہ مسرتیں
چند لوگوں کی ھیں یہ عشرتیں
چند لوگوں کی ھیں یہ مراعاتیں
لاکھ کروڑوں پہ ھیں یہ غربتیں
افلاس کو آذادی کیسے کہئیں
دہشت کو شہذادی کیسے کہئیں
پہلے علم و ھنر کو آذاد تو کرو
سب پہ حقِ روزگار کو آذاد تو کرو
مفت علاج کی بہار آذاد تو کرو
وحشت کا یہ کار وبار برباد تو کرو
مزدور کسان کا سینہ مت چاک کرو
پھر کسی جشنِ آذادی کا پرچار کرو
مظلوم قوم کا حقِ آذادی دباتے ھو
سامراج سے اپنی یاری چھپاتے ھو
کشت و خوں کی بربادی لاتے ھو
غریبوں پہ جبرِ قہرِ غلامی ڈھاتے ھو
اب تم ھی کہو کیسی ھے یہ آذادی
جو مخلوقِ خدا کی ھے یہ بربادی
غریبوں کی رات پہ ھنستے ھیں تارے
مظلوم کے دنوں پہ ھنستے ھیں اجالے
شبِ غلامی پہ ھنستے ھیں منارے
محنتوں کے پھل پہ لگتے ھیں تالے
ڈھونگِ آذادی پہ ھنستے ھیں سارے
اس غلامی سے لرزتے ھیں ستارے
Related News
کاش تم ملنے اؑ جاتی۔ سمیع بلوچ۔
Spread the loveکبھی کبھی یہ دل میں سوچتا ہوں میں یہ زندگی تیری مخملی چادرRead More
*جام خالی، سفره خالی، ساغر و پیمانہ خالی*
Spread the loveشہر خالی، جاده خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی**جام خالی، سفره خالی، ساغر وRead More