یاسین ملک کیس اور آزاد کشمیر. تحریر: شفقت راجہ
بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے مزاحمت کار یاسین ملک سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کو کچھ مختلف اور کچھ مشترک مقدمات میں مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔ یاسین ملک چونکہ سابقہ دور میں عسکریت پسندی کا حصہ رہے، اسلئے ان پر اس دور میں بننے والے کیس بھی کھول دیے گئے، جن میں اغوا، دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور غداری وغیرہ جیسے الزامات شامل ہیں، اور ان کو دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں رکھا گیا ہے۔ یاسین ملک اپریل 2019 سے بھارتی قید میں ہیں جن پر مقدمات کی تحقیقات بھارت کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (NIA) کر رہی ہے۔ مارچ 2022 میں ایجنسی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی اور 10 مئی کو بھارتی میڈیا میں ایجنسی کی طرف سے یاسین ملک سے منسوب اعترافی بیان کے دعوے سامنے آئے ، 19 مئی کو فرد جرم عائد، اور 25 مئی کو دوہری عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یاسین ملک کی تنظیم لبریشن فرنٹ کا موقف ہے کہ یاسین ملک نے دراصل بھارتی عدالت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کی طرح ایک پرامن آزادی پسند ہونے کا اعتراف کیا جسے بھارتی میڈیا نے پروپیگنڈہ کیلئے غلط رنگ دیا ہے۔
ماضی کے مزاحمت کار رہنماؤں کی طرح یاسین ملک کی طرف سے متعدد بار بھارتی عدالتوں پر عدم اعتماد کوئی انوکھی بات ہرگز نہیں ہے اور اس کیس میں عدم اعتماد اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے تو کیس کا ہر فیصلہ ہمیشہ متنازعہ رہیگا۔ بھارتی جنتا پارٹی کے نریندرا مودی کے دور حکومت میں سیاسی مخالفین اور خاص کر ریاست جموں و کشمیر میں مزاحمتی تحریک سے وابستہ سیاسی افراد کے مقدمات میں بھارت سے شنوائی و انصاف کی توقع رکھنا ازخود ناانصافی ہے۔
مودی سرکار کا ہندتوا منصوبہ بزور طاقت بھارت پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ اگست 2019 میں متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے مزاحمتی یا علیحدگی پسند سیاسی رہنماؤں سمیت بھارت نواز قیادت کو بھی حراست میں رکھا گیا۔ خصوصی قوانین کے ذریعے سیاسی قدغن، انسانی حقوق کی شدید پامالی ، دھونس دھاندلی اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے خوف و حراص کا ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ لوگوں کا سانس لینا دشوار ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہو چکا ہے کہ بھارتی ہتھکنڈوں کا سدباب کیسے ممکن ہے اور کیا ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ تنازعہ جموں و کشمیر کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ جس میں مداخلت کیلئے ریاستی شہریوں کا اندرون و بیرون ریاست صدائے احتجاج بلند کرنے کے علاوہ تاحال اپنا باقاعدہ کوئی موثر کردار اور رسائی نہیں ہے جو اقوام متحدہ یا ایسے عالمی اداروں پر دباو پیدا کر سکے کیونکہ اس تنازعہ کے حل کی ذمہ داری اقوام متحدہ کیطرف سے تنازعہ کے فریقین بھارت اور پاکستان پر یکساں عائد کی گئی ہے۔ اب جبکہ تنازعہ کا ایک فریق بھارت اپنے زیرقبضہ ریاستی خطے میں ایسے غیر انسانی اور غیرقانونی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے تو اسے چیلنج دوسرا فریق پاکستان ہی کر سکتا ہے۔
تنازعہ کے فریق کی حیثیت سے پاکستان متناعہ جموں وکشمیر میں بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور سازشوں کا سفارتی محاذ پر مقابلہ اور ایسے بھارتی اقدامات کو عالمی اداروں تک لے جا کر اس معاملے کی سنگینی پر عالمی برادری کی توجہ اور تعاون حاصل کرسکتا ہے، جیسے اگست 2019 کے بھارتی اقدامات پر چین کی مدد سے سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا تھا ویسے ہی تسلسل سے تنازعہ جموں کشمیر کو مختلف عالمی فورمز پر زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ میں اس تنازعہ پر موجودہ حالات کے مطابق مکمل حق خودارادیت سے مشروط نئی قرارداد لانے اور تنازعہ کی نوعیت بدلنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام متنازعہ ریاستی خطوں میں بااختیار جمہوری نظام اور منتخب نمائندوں کو بین الاقوامی اداروں تک رسائی دے سکتا ہے۔ بھارت کو باور کرایا جاسکتا ہے کہ دھونس اور ظلم و جبر سے کسی متنازعہ خطے پر جبری قبضے سے نہ تو اسکی حیثیت بدلتی ہے اور نہ ہی مالکان کی مرضی کے بغیر حق ملکیت ملتا ہے۔
اگر پاکستان بحثیت فریق اس معاملے کو سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھاتا تو بعض تجربہ کار پاکستانی سیاستدانوں اور معتبر صحافیوں کے یہ دعوے قابل غور ہو جاتے ہیں کہ تنازعہ جموں وکشمیر پر درپردہ کوئی سمجھوتہ ہو چکا ہے اور مرحلہ وار آگے بڑھتے ہوئے بھارتی مقبوضہ ریاستی خطوں کی طرح آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں بھی آئینی و انتظامی تبدیلیاں، سیز فائر لائن یا کنٹرول لائن کو بارڈر بنانے اور پھر متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی مستقل تقسیم پر اس تنازعہ کو منطقی انجام پر پہنچایا جا سکتا ہے۔اگر یہ دعوے درست ثابت ہوتے ہیں تو اس ایک تنازعہ کے کسی غیر جمہوری اور غیر منصفانہ حل سے مستقبل میں مزید تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ مستقبل قریب میں شائد پاکستانی زیر انتظام خطہ آزاد جموں و کشمیر اہمیت اختیار کرسکتا ہے اور یہاں کے لوگوں کا آئندہ کردار بھی بڑھ سکتاہے۔
آزادکشمیر کا خطہ سیاسی شعور، سرگرمیوں اور رواداری میں قدرے بہتر ہے۔ ریاستی وحدت کی بحالی اور قومی آزادی کی آواز بھی یہیں مضبوط ہے۔ جس طرح ریاست کی ابتدائی توڑ پھوڑ اور تقسیم میں اسی خطے کا کردار ہے ویسے ہی ریاستی وجود اور شناخت کو ہمیشہ کیلئے ختم ہونے سے بچانے کیلئے وقت و حالات ایک بار پھر اسی خطے کو امتحان میں ڈال سکتے ہیں کیونکہ جیسے ریاست کے دوسرے خطوں کی حییثت و شناخت کو ختم کیا گیا ویسے ہی شائد آزاد کشمیر اور پورے ریاستی وجود کے خاتمے کا بھی امکان ہے۔ اسلئے آزادکشمیر کے اقتدار پسند طبقے سمیت ہر سیاسی فکر کے حامل گروہوں اور باشندگان ریاست کیلئے اب آزادکشمیر کی حیثیت اور وجود کا تحفظ فرض ہو چکاہے۔
Related News
پالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن سردار انور
Spread the loveپالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن جو آپس میں کسی باتRead More
اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز
Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More