Main Menu

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love

پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہین مذہب کی بنیاد پر جس طرح سے انسانی تکریم کو نشانہ بنایا گیا اس کی نظیر شاید ہی دنیا کے دیگر خطوں میں ملتی ہو۔
گذشتہ دو دھائیوں میں محتاط اندازے کے مطابق 60 تا 65 افراد صرف اس الزام پر لقمہ ءِ اجل بن چکے کہ انہوں نے مقدس اوراق یا مقدس ہستیوں کی توہین کی ہے۔ ان میں سے اکثر ملزمان کی صحت جرم کا تعین بھی نہیں ہو پایا۔
اگر ہم توہین مذہب کے الزام کے تحت ہونے والے سانحات کا ایک سرسری تجزیہ کریں تو اس الزام کے نتیجے میں قتل ہونے والے زیادہ تر مقتولین دنیا سے جانے کے بعد یا تو سرے سے بے گناہ ثابت ہوئے ہیں یا ان کے جرم کی نوعیت ایسی نہیں تھی

کہ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جانا ہی مسئلے کا حل ٹھہرتا۔
توہین مذہب کے الزام اور اس کے پیچھے کی نیت کو دیکھا جائے تو یہ کہنا قطعا غیر مناسب نہ ہوگا اور ایسے واقعات اس کی دلیل ہیں کہ اگر کوئی افسر کسی ماتحت سے زیادہ کام لے رہا ہے یا کسی ادارے میں اعلٰی عہدے پر فائز شخص اگر اپنے ماتحتوں سے کام لینے میں کوئی حیل و حجت نہیں برتتا اور ان پر سختی کرتا ہے اور ماتحت کے ہاتھ محکمانہ یا ادارہ جاتی مجبوریوں کے تحت اس کے خلاف کوئی ایسا عمل نہیں کرسکتے کہ اعلٰی عہدیدار کسی محکمانہ چارہ جوئی کا شکار ہو تو ایسے میں اس اعلٰی عہدیدار کے خلاف سب سے موثر عمل اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اس پر حملہ کروا دینا ہی ہے یا تو وہ جان سے جائیگا اور اگر اس کی قسمت اچھی ہوئی تو اس خاص پوزیشن سے اسکا تبادلہ کرکے اسے کسی ایسی جگہ پر بھیج دیا جائیگا جہاں اس کو کم ازکم جان جانے کا خطرہ نہ ہو۔
ایسے ہی کوئی کامیاب تاجر یا صنعت کار ہے اور منڈی میں اس کا مقابلہ کرنے والا صنعت کار اس کی مصنوعات کا مقابلہ نہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو کاروباری مخاصمت کی بنیاد پر عین ممکن ہے کہ اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے راستے سے ہٹا دیا جائے۔
یہ سلسلہ محکمانہ مخاصمت یا منڈی میں مقابلے سے عاری صنعت کاروں یا تاجروں پر ہی نہیں رکتا بلکہ یہاں سے آگے بڑھ کر جامعات، کالجوں اور سکولوں تک پہنچتا ہے ، جہاں ایک متنوع خیالات و افکار والا استاد ، اپنے ہی ساتھ استادوں کی پیشہ وارانہ مخاصمت کی بدولت اپنے شاگردوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔
مذہب کی تقدیس کا سب سے بھیانک استعمال سیاست دانوں اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہو رہا ہے، جہاں ایک سیاسی فریق دوسرے سیاسی فریقین کی سیاسی سرگرمیوں اور مقبولیت سے خائف ہو کر مخالف سیاسی نظریہ رکھنے والے سیاسی رہنما کی کسی تقریر یا بیان کو بنیاد بنا کر اپنے ساتھ مذہبی اکابرین کو شامل کرتے ہوئے سیاسی مخالف کو زچ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور نتیجتاً سیاسی رہنما یا تو سیاسی رہنما یا تو سیاسی سرگرمیاں ترک کرتا ہے اور یا سرے سے سیاست کو ہی خیرآباد کہہ کر جان بخشی کرواتا ہے۔
حیران کن طور پر پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں مذہبی اقدار کو لے کر سیاست کرنے اور توہین و تقدیس کو موضوع بناتے ہوئے معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کے اکابرین منصف اعلٰی کو قتل کرنے تک کے اعلان پر نہیں چوکتے۔
بات مذہبی اقلیتوں پر الزام کی ہو یا ان کے ناکردہ گناہ کی سزا تک ہو تو شاید اس کی تاویل دی جاسکے مگر مذہبی اقلیتوں سے ہٹ کر اپنے ہی ہم مذہب یا ہم عقیدہ پر الزام لگا کر اس کو دھمکی دینا محض پیشہ وارانہ، سماجی یا سیاسی مخاصمت کے سوا کچھ نہیں لگتا۔
دلچسپ صورتحال یہ ہیکہ ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے، عام انسان کے حقوق کی بات کرنے والے ، متنوع افکار کا سیاسی نظریہ رکھ کر تمام انسانوں کو بلا تفریق مذہب، عقیدہ اور قومیت انسانی بنیادوں پر ان سے برتاؤ رکھنے والے سیاسی زعما پر توہین مذہب کی ننگی تلوار دیگر روایتی سیاسی نظریات کے برعکس سر پر لٹکی رہتی ہے۔ پھر جن کی تحریر ، تقریر اور سیاسی سرگرمیوں کا موضوع مذہب کی بنیاد پر استحصال، مذہب کی غلط تفہیم کے نتیجے میں انسانوں کو تہی دست رکھنے کی توجیح ، مذہبی اکابرین کا روائیتی سیاسی جماعتوں اور استحصال کرنے والے سیاسی رہنماوں کو مضبوط کرنے اور اس نظام زر کے استفادہ کنندگان پر تنقید اور بحث پر ہو اس کی سیاسی مخاصمت میں توہین مذہب کا الزام تو اس کے سیاسی مخالفین کے لئے امرت ہوگا، اس الزام کے بعد مذہبی رہنما اور پیشوا جن پر وہ انسان دوست سیاستدان مذہب کی غلط تشریح اور تفہیم کو انسانی استحصال کی وجہ، مذہب کو بنیاد بنا کر سیاست کرنے والے روائیتی سیاستدان یہ نادر موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیں گے کہ وہ شخص نشان عبرت نہ بنے۔
ستم یہ ہے کہ بظاہر سیکولر نظر آنے والے یا ترقی پسندی کا دعوٰی کرنے والے سیاسی مخالفین جو کم از کم اختلاف رائے پر اتفاق کرنے کے دعویدار ہوتے ہیں اور مذہب اور ریاستی معاملات کو الگ کرنے کی بات کرتے ہیں یا مذہب کو انسان کا نجی معاملہ یا تمام عقائد کی تکریم کے دعویدار ہوتے ہیں ، وہ بھی سیاسی مخاصمت میں توہین مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز نہیں رہتے اور بعض اوقات مذہبی زعماء اور روایتی سیاستدانوں سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر ایک چنگاری کو اتنی ہوا دیتے ہیں کہ اگر روایتی مذہبی رہنما کسی ملزم کے حق میں بیان دے دیں تو بھی ترقی پسند یا سیکولر سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
سب سے خطرناک عمل یہ ہیکہ واضع قانون اور آئین کے حصہ ہونے کے باوجود توہین مذہب کا الزام لگا کر انسانی قتل کے اکثر ذمہ داران شک کی بنیاد یا قانون شہادت کی کمزوری کی وجہ سے مروجہ قانون کی گرفت سے آسانی سے نکل جاتے ہیں۔ اگر ریاست محض الزام کی بنیاد پر توہین مذہب کا شکار انسانوں کو انصاف دینے یا کوئی قانون وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو سیاسی و سماجی مخاصمت کا سب سے مؤثر ہتھیار توہین مذہب کا الزام ہی رہیگا۔






Related News

پالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن سردار انور

Spread the loveپالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن جو آپس میں کسی باتRead More

اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز

Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *