25 مئی تاج بلوچ کا جنم دن.. ادب کے تاج، تاج بلوچ کا جنم دن! تحریر : سجاد ظہیر سولنگی
سماجی سائنِس کا مطالعہ کیا جائے، تو ادب اور سماج کا رشتہ ایک اٹوٹ تعلق بن چکا ہے۔ جسے دوسرے الفاظ میں ترقی پسند ادب کہا جاتا ہے۔ ایسا ادب جو سماج میں محنت کشوں، دہکانوں اور مظلوموں کے حقوق کی ترجمانی کرے۔دھرتی کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کو بے نقاب کرے،سماج میں ایسے ادب کی بنیادیں اوّلین ہیں۔ اس کی عملی شروعات انسانی تاریخ کے شروع ہونے کے بعدسے ہی انسانی عوامی جدوجہد سے نظر آتی ہیں۔ اس کے لیے تحریکی طور پر دیکھا جائے تو20 ویں صدی میں روس کی سرزمین پرآنے والے بالشویک انقلاب کے بعد ترقی پسند ادب کے لیے عملی طور پر قلمی کردار ادا کیا گیا۔ شعور کی طرف جائیں گے تو معلوم ہوجاتا ہے، زندگی اول دن سے ترقی اور تبدیلی کی طرف سفر کرتی رہی ہے، یہ زندگی کا ایک مسلمَ سچ ہے، کوئی بھی تبدیلی بغیر کسی سماجی عمل کے ممکن نہیں ہے۔ اس کے پیچھے تاریخ کی ایک بہت بڑی لڑائی شامل ہوتی ہے۔ایسے ادب کا بہت بڑا نام تاج بلوچ بھی ہے۔ جو آج سے سال 2020ء 4 جون کی شب ہم سے بچھڑ گئے۔ ایک ایسے وقت میں تاج صاحب کا بچھڑنا، جب تمام عالم ایک خطرناک وبا میں جکڑا ہوا تھا، اور آج بھی وہی صورت حال ہے.
تاج صاحب کے جنم دن اور بچھڑنے کے دن میں صرف 9 دن کا فرق ہے، بس وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے. دو سال پہلے 2020ء میں ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمیں کل کی بات محسوس ہوتی ہے، کہ جب 25 مئی 2020ء کو ہمارے دوست اور ہماری طرح تاج بلوچ صاحب کے مداح مختیار ابڑو نے ان کے جنم دن پر ایک مختصر سی تقریب منعقد کی تھی ۔ ہم سب نے ملکر ان کے جنم دن کو منایا تھا۔ ان کے بقول دل میں تکلیف نے پریشان کردیاتھا۔ آپ سے اس ملاقات نے خوش کردیاہے۔ ہم نے انہیں بہت پیار سے حوصلہ دیا۔ ان کی آنکھیں نمدیدہ تھیں، باتوں سے وہ جگر دریدہ محسوس ہو رہے تھے۔ اس دکھی چہرے نے ہم سب کوغم دیدہ کردیاتھا۔اس وقت تاج صاحب کی محفل میں مجھ سمیت چند چاہنے والے کہ جن میں ڈاکٹر عابد مظہر، ضیاابڑو، ڈاکٹر قدیر کاندھڑ، جبار ابڑو اور میزبان ہمار ے دوست مختیار ابڑو شامل تھے۔
ادب کے تاج، تاج صاحب کو ہم چار پانچ دن نہ دیکھتے تھے، تو آبدیدہ ہوجاتے۔ ہمارے قدم ہر آئے دن اان کے گھر کی دہلیز کی طرف اُٹھ جاتے۔ ان سے ہنسی، مذاق، ڈانٹ اور پرانی باتیں سنتے تھے اور وہ اپنے یارانِ میکدے کے قصے سناکر ہمیں لطف اندوز کیا کرتے تھے۔ اس وبانے ہمیں جہاں گھروں تک محدود کردیا تھا۔ وہاں نہ چاہتے ہوئے بھی،ہم اپنے محسن تاج بلوچ، جنہیں قریبی چاہنے والے بابا کہتے تھے، اس مرض میں ہم جناب تاج بلو چ صاحب سے دور تھے۔لیکن ان کے جنم دن نے ہمیں مجبور کردیا، ہم ان کے سامنے پیش ہوگئے۔یہ ان کی زندگی کی آخری ملاقات تھی۔جو یادوں کے جھروکوں میں یاد بن کرساتھ رہے گی۔
ادب کے میدان میں نصف صدی سے بھی زیادہ رشتہ نبھانے والے تاج بلوچ کاجنم25 مئی 1942 ء کی شب پنو عاقل کے قریب ایک گاؤں کوٹ بُلا کے زمین دار گھرانے میں ہوا۔آپ چھوٹی عمر میں ہی کراچی آگئے، کیوں کہ آپ کا آدھا خاندان کراچی میں مقیم تھا۔انہوں نے تمام تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ کچھ ادیبوں کے یارانے انہیں ادبی تنظیم ”سندھی ادبی سنگت“ میں کھینچ کر لے آئے۔ جہاں سے آپ کا تعلق ادب اور اس دور میں چلنے والی علمی ادبی، اور سیاسی تحریکوں سے جڑا۔ تاج بلوچ صاحب کراچی میں جوش ملیح آبادی، سبط حسن، فیض احمدفیض،حسن عابدی، انور احسن صدیقی اور دیگران ترقی پسند ادیبوں کی محفلوں میں شامل رہے۔،انہیں شیخ ایاز، رشید بھٹی، حسام الدین راشدی، ایاز قادری اور دیگران ادیبوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ترقی پسندنظریات کی طرف آپ اردو، اور سندھی دانشوروں کی تحریروں، کتابوں اورتقریات کے ذریعہ آئے۔ وہ ایک وقت میں شاعر، مضمون نگار، نثرنگار اور براڈکاسٹر کی خوبیوں کے مالک تھے۔ ریڈیواور پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف پروگراموں سے منسلک رہے۔سندھی زبان میں روشن خیال جریدے ”سوجھرو“ کی 40 سال تک ادارت کرتے رہے۔ان کے مضامین اور تنقیدی تحریروں پر مبنی کتابیں شائع ہوئیں۔ان کی تحریروں میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سائنسی اور عالمی تنقیدی اصولوں پر مبنی رائے شامل ہوتی تھی۔
تاج صاحب جو کہ اس وقت سندھی زبان میں تخلیق ہونے والے ادب کے حوالے سے واحد شخصیت تھے، جس کی رائے ادب و زبان کے لکھنے والا ہر لکھاری بڑے احترام سے قبول کرتا تھا۔ شعر تخلیق کرنے والے نوجوان اپنی تخلیق پر تاج بلوچ کی رائے کو سند مانتے تھے۔ ان کی شخصیت کے کئی ایک پہلو تھے۔زندگی کی آخری گھڑیوں تک اپنے ترقی پسند اور روشن خیال نظریات پر قائم رہے۔ تاج بلوچ نے ہمیشہ جبر اور استعداد کے خلاف قلم اٹھایا، ترقی پسند ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف تحاریک اور دہائیوں میں تخلیق ہونے والے ادب اور مزاحمت کو نا صرف دیکھا بلکہ اس میں اپنے حصے کا انقلابی کردار بھی ادا کیا ہے۔۔آپ کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ “سوجھرو”(جس کا مطلب ہے روشنی) آدھی صدی کے ادب کا دستاویز کہا جائے تو یہ بجا طور پر درست ہی ہوگا۔ تاج بلوچ کہ جنہیں جہاں محبتیں بھی میسر رہیں، وہیں انہیں مزاحمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مشکل ترین حالات سے بھی گزرے لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ وہی لکھا جو دیکھا اور محسوس کیا۔تاج بلوچ صاحب نے کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصمفین اوراور سندھی ادبی سنگت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاج بلوچ نے بہت باوقار اور بھرپور ادبی زندگی گزاری، لیکن اپنی خودداری پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔ تاج بلوچ صاحب کامریڈ سوبھو گیان چندانی، کامریڈ جمال ادین بخاری، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، پوہو مل، گوبند مالھی،حبیب جالب کی روایات کے ادیب تھے، جنہوں نے اپنے قلم کو ہمیشہ انسان دوستی کے حقوق کے لیے ایک تحریک کے طور پر استعمال کیا۔ وہ آج ہم میں موجود نہیں رہے، ان کے رخصت ہوتے ہی ان کے کچھ مخالفین بھی سامنے آئے ہیں، ان کی ہر ایک رائے کا احترام ہے۔ لیکن تاج بلوچ صاحب جوکہ سمجھتے تھے کہ خواتین، کسان، مزدور اور ادیب ملکر ہی اس سماج کو بدل سکتے ہیں۔ ان کا ہمیشہ گفتگو میں یہ موقف رہا۔ ہمارے معاشرے میں ایسی کسی تحریک کو پروان چڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں جس میں عام انسانوں کے دکھوں کا مداوا نہیں۔وہ چاہے خواتین کی تحریک ہو یا سماج کے کسی بھی سوچنے والے گروہ کی ہو۔
تاج بلوچ صاحب ایسے ادب کی بات کرتے تھے کہ جس میں عوامی مسائل اور عالم ِ انسانی کے حقوق کی بات پنہاں ہو۔وہ ایک ایسے خوش گوشاعرتھے۔جوکہ ہمیشہ ترقی پسند نظریات سے وابستہ رہے۔زندگی کی آخری گھڑیوں تک اسی افکار پر فخر کرتے رہے،آپ نے ہردورمیں نوجوانوں کی راہنمائی کی۔ آپ کا قلم دکھوں میں لپٹے ہوئے مظلوم طبقات کی پکاربنا رہا۔ تمام زندگی قلم کے جہد میں گزاری ہے۔ ان کی شاعری امن کے فروغ کے لیے فکری اساس اور ظلم کے خلاف لڑتی ہوئی مشال ہے۔جہاں انہوں نے اپنے قلم سے محبت کے گیت لکھے، وہاں انہوں نے پشکن، گوگول اور ترگنیف کے انقلابی افکار کواس دھرتی کے دکھوں کا مسکن بنایا۔
ان کے شعری مجموعے ادب کے طلبہ کے لیے آج اور آنے والے کل میں بھی تعمیری وتخلیقی کام سرانجام دیتے رہیں گے۔آج جب تاج بلوچ صاحب ہمیں چھوڑ چکے ہیں، تو ہم تنہا ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے اب ہماری تحریر کے لیے کوئی درسگاہ نہیں رہی۔ لیکن ان کی لازوال علمی، ادبی، تخلیقی اور فکری تحریریں ہمارے لیے ایک درسگاہ بنی رہیں گی۔ آپ ہمارے لیے اپنے تنقیدی افکار میں اسی طرح مشعل راہ رہیں گے۔ انہیں اپنی زندگی کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے باوجود اپنی فکری، علمی اور عملی جدوجہد پر فخر رہا، وہ فیض احمد فیض کے اس شعر کی طرح ہمیشہ رہے اور رہیں گے۔
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
Related News
اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز
Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور آئی ایس آئی کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
Spread the loveپاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور آئی ایس آئی کے ہاتھوںRead More