Main Menu

ماہ اگست: 70فوجی آپریشنز، 7بلوچ شہید ،113 افراد لاپتہ ،سینکڑوں گھر نذرآتش، بی این ایم

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے ماہ اگست 2020 کی تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ قومی تاریخ میں ماہ اگست اس سال بھی بلوچ قوم کے روح پر گہرے گھاؤ لگا کر رخصت ہوگیا ہے۔ ریڈیو زرمبش اردو کی ويب سائٹ پر جاری رپورٹ کے مطابق اگست میں بلوچستان کے طول و عرض میں بیس سالوں سے جاری فوجی بربریت میں اضافہ دیکھنے میں آيا۔ 70 سے زائد فوجی آپریشن اور چھاپوں میں 113 لوگ فوج کے ہاتھوں لاپتہ، 7 لوگ شہید، سینکڑوں گھر نذر آتش، گچگ میں 50 سے زائد خواتین اور بچوں کو پہاڑی سلسلوں سے حراست میں لے کر فوجی اذیت گاہوں میں منتقل کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں خواتین سمیت کچھ مردحضرات کو قابل رحم حالت میں رہا بھی کردیا گیا۔
ریڈیو زرمبش اردو ويب سائٹ کے مطابق دل مراد بلوچ نے کہا کہ اگست کے مہینے میں شہید لوگوں میں کیچ میں کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم حیات مرزا بلوچ کو کیچ میں آپسر کے مقام پر پاکستانی فوج نے والدین کے سامنے قتل کردیا۔ ایک نوجوان کو حراست میں لینے کے بعد زندان میں قتل کرکے اس کی لاش پھینک دی گئی۔ دو سرمچار فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوئے۔ ایک سرمچارمشن کے دوران سیلابی ریلے میں شہید، ایک شخص کو گودار میں پاکستانی فوج نے اپنی گاڑی سے کچل دیا جبکہ ایک بلوچ جہدکار کو مغربی بلوچستان میں آئی ایس آئی نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شہیدکروا دیا۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں اگست ہمیشہ لہولہاں رہا ہے۔ اسی مہینے پاکستان وجود میں لایا گیا جو نہ صرف بلوچ قوم بلکہ عالم انسانیت کے ایک ناسور بن چکا ہے۔ اس کی شیطانی فطرت اور توسیع پسندی سے بلوچستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ بلوچ کی عزت و آبرو، جان و مال اور گھر بار پرپاکستانی فوج حملہ آور نہ ہو۔
دل مراد بلوچ نے کہا اس مہینے پنجگور، آواران، واشک کے درمیانی علاقے گچک، مزن بند، جھاؤ کے مختلف علاقے اور مستونگ میں تباہ کن فوجی آپریشنوں کی زد میں رہے۔ گچگ کے پہاڑی سلسلوں میں آباد ہزاروں گھرانوں سے فوج نے پچاس سے زائد خواتین اور بچے حراست میں لے کر کیمپوں میں منتقل کیا۔ لوہڑی، کلانچ، تاک ڈن، ٹوبہ سمیت مختلف چھوٹے بڑے علاقوں میں سینکڑوں گھر نذرآتش کئے گئے۔ مال مویشی لوٹ لئے اورستم بالائے ستم پہاڑی سلسلوں میں صدیوں سے آباد لوگوں کو بندوق کے زور پر نہ صرف علاقے سے بیدخل کیا گیابلکہ پانی کے قدرتی چشموں اورجوہڑوں میں زہر ملادیا۔ اس سے سینکڑوں مال مویشی مرگئے۔ اب یہ خاندان کیمپوں کے قرب وجوارمیں فوجی سنگینوں کے نیچے درد و رنج کی عملی تصویر بن کر زندگی بسانے پر مجبور ہیں۔
دل مراد بلوچ نے کہا جھاؤ کے پہاڑی سلسلے سورگر کئی سالوں فوجی بربریت سے دوچار ہے۔ اسی مہینے میں سورگر کے مختلف علاقے شدید بمباری اور زمینی فوج کے تباہ کن کاروائیوں کے زد میں رہے۔ لوگوں کے گھر نذرآتش کیے گئے اور متعدد لوگ حراست میں لے کر لاپتہ کئے گئے جبکہ مستونگ کے مختلف علاقوں میں بھی فوجی بربریت اپنے عروج پر رہا۔
انہوں نے کہا گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان اجتماعی سزا کے جارحانہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس میں لوگوں کو تحریک سے وابستگی پرلوگوں کو اجتماعی طورپر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس مہینے میں بھی اس ضمن میں ہولناک مناظر دیکھنے میں آئے لیکن اس کے باوجود پاکستانی ریاست بلوچ قوم کے دلوں میں تحریک آزادی کے لئے جذبات کو ماند کرنے ناکام ہے۔ اس لئے مختلف حربے آزمائے جارہے ہیں۔ اسی سلسلے میں آواران، جھاؤ، مند کے بیشتر علاقوں میں فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پرچیاں گرائی ہیں جن میں لوگوں کو تنبیہ کیاگیا ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کریں اور بلوچ سرمچاروں کے ٹھکانوں اور انکی نقل و حرکت کی نشاندہی کریں۔
دل مراد بلوچ نے کہاجب تک ذمہ دار عالمی ادارے پاکستان کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائیں بلوچ قومی نسل کشی میں کمی کے امکان معدوم ہی رہیں گی۔ بلوچستان میں نسل کشی، اجتماعی سزا سے پیدا انسانی بحران تقاضا کرتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی ادارے آگے بڑھ کر اپنے فرائض انجام ديں تا کہ بلوچ قوم کی نسل کشی کا سدباب کيا جا سکے۔

(بشکريہ ریڈیو زرمبش اردو )






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *