Main Menu

قومی آزادی کے تقاضے تحریر: پروفیسر نذیر الحق نازش (ترجمہ: شفقت راجہ)

Spread the love

بیسویں صدی کے دوسرے دورانیے میں قومی آزادی کے تین درجاتی نمونے بین الاقوامی سطح پر تشکیل پائے جن میں پہلا مکمل و مقتدر خودمختاری، دوسرا اشتراک اقتدار و اختیار اور تیسرا اندرونی خودمختاری یا خود انتظامی شامل ہیں۔ یہ تینوں نمونے ان متحدہ قومی آزادی کی تحریکوں کا نتیجہ ہیں جنہیں اس قوم کی اکثریت اور عالمی سطح پر جمہوری قوتوں کی حمائت حاصل تھی۔ ریاست جموں کشمیر کے قوم پرست اور بائیں بازو کے ترقی پسند حلقوں کیلئے یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ وہ قومی آزادی کے ان تسلیم شدہ تین نمونوں میں سے کونسے درجے کی اہلیت اور خواہش رکھتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ جموں وکشمیر کی قومی تحریک کا بیانیہ عوام پر واضح ہو جانا چاہئے اور اس موضوع پر بحث اب اشد ضروری ہو چکی ہے۔
قومی آزادی کے پہلے درجہ (مکمل خودمختاری) میں الجیریا، ویتنام، چین، انگولا ، موزمبیق وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں جنہوں نے نوآبادیاتی طاقتوں سے مکمل خودمختاری حاصل کی تھی۔ دوسرے درجہ (اشتراک اقتدار) میں شمالی آئرلینڈ کے علاوہ گزشتہ صدی کی آئس لینڈ یا گرین لینڈ جیسی تاریخی ریاستیں شامل ہیں اور تیسرے درجہ (اندرونی خودمختاری) میں اس وقت سکاٹ لینڈ اور ویلز کی مثال دی جا سکتی ہے اور اسی طرح ایک عرصے تک بھارتی زیر انتظام ریاست جموں کشمیر نے بھی آرٹیکل370کے تحت اندرونی خودمختاری قائم رکھی تھی۔ اسی لئے متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے قوم پرست اور ترقی پسند گروہوں کیلئے یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ وہ قومی آزادی کے ان تسلیم شدہ نمونوں کیلئے ان دی گئی مثالوں میں سے کس درجے یا حیثیت کے اہل و متمنی ہیں۔
قومی تحریکوں کے بنیادی اجزا ء ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ ایک متفقہ و متحدہ قومی تحریک کثیر علاقائی، لسانی، ثقافتی، قومیتی اور مذہبی گروہوں کو یکجا کر کے ایک منظم قوم کے سانچے میں ڈھال دے یعنی قوم ازخود کوئی بنی بنائی اکائی نہیں بلکہ قومی تحریک ہی ایک منظم قوم کی تشکیل کرتی ہے۔ اقتدار اعلیٰ کے حصول میں بیرونی تسلط اور نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف ایک قوم کو قومی تحریک ہی متحرک کرتی ہے۔ جس کیلئے یہ فہم و ادراک ہونا ضروری ہے کہ اس قوم کی کبھی ایک مخصوص جغرافیائی ریاست اور اسکے اندرونی و بیرونی امور کیلئے ایک حکومت موجود تھی جو بعد ازاں بیرونی تسلط یا تقسیم کا شکار ہو چکی تھی۔ موجودہ دور میں قومی آزادی کی جدید شکل کو سمجھنے کیلئے جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور جیسی کچھ حالیہ مثالیں بھی ہیں جہاں اقلیتی قومیتوں نے حق خودارادیت کے ذریعے ایک قومی ریاست کے بطن سے جنم لیا اور مکمل خودمختاری حاصل کر لی ہے۔ حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر میں قوموں اور قومیتوں کا وہ آزادانہ حق رائے دہی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس حق خودارادیت پر بھی مغالطے پائے جاتے ہیں۔ حق خودارادیت دراصل ایک منزل یعنی قومی خودمختاری پر پہنچنے کا راستہ تو ہے مگرخود منزل ہرگز نہیں ہے۔ قومی آزادی کی دوسری درجاتی صورتحال (اشتراک اقتدار) میں ریاستی اقتدار اعلیٰ(اختیار) میں کسی دوسری ریاست کیساتھ شراکت کی جاتی ہے جبکہ تیسری صورت (اندرونی خودمختاری) میں ایک مرکزی قومی ریاست میں شامل رہتے ہوئے اندرونی خودمختاری (Autonomy) کو بحال رکھا جاتا ہے۔ ان دونوں درجات میں مشابہت اور شراکت اختیار کی نوعیت میں تبدیلی کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کے معاملے میں مختلف قوم پرست اور ترقی پسند گروہوں کے متفرق نظریات و نعروں کی موجودگی میں اوپر بیان کردہ درجات کے تناظر میں مشاہدہ کیلئے چند زمینی حقائق غورطلب ہیں۔
مختلف علاقوں اور قومیتوں پر مشتمل ریاست جموں کشمیر و لداخ کی جغرافیائی اکائی انگریز سامراجی طاقت نے مارچ 1846(معاہدہ امرتسر) میں تشکیل دی تھی جسے بعدازاں ریاستی حکمرانوں نے گلگت بلتستان اور ہنزہ ، نگر تک وسعت دی ۔ اس ریاست پر ایک مقامی جنگجو جاگیردار (ڈوگرہ گلاب سنگھ) کو پہلا حکمران بنایا گیا جس کو ریاست کے اندرونی امور میں مختار کل جبکہ دفاع و خارجہ امور اور بیرونی تجارت اسی سامراجی طاقت کے اختیار میں تھے۔ اس شراکت اقتدار میں ضرورت کے مطابق تغیر و تبدل بھی ہوتا رہا ہے۔ اس ریاستی مقامی حکمران نے موروثی شاہی نظام حکومت قائم کیا جس میں ریاستی عوام کیساتھ رعایا جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ ریاست کے مختلف علاقوں کی مختلف قومیتوں کی اکثریتی عوام اس مطلق العنان نظام حکومت کے خلاف تھی۔ بیسویں صدی کے آغاذ تک قوم نامی کوئی اکائی یہاں موجود ہی نہیں تھی کہ جب عوام کے ایک حصے نے سیاسی شعور کے تحت خود کو سیاسی طور پر منظم کرنا شروع کیا۔ ریاست میں قوم کی اس ابتدائی تشکیل کا عمل دراصل بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہو ا جو اس صدی کے وسط تک غیر مذہبی (سیکولر) قومی تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس تحریک کا مطالبہ یہی تھا کہ مطلق العنان موروثی حکومت کی جگہ ایک ذمہ دار جمہوری حکومت تشکیل دی جائے اور تمام اختیار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کر دئے جائیں، اسی کو دراصل عوامی اقتدار اعلیٰ کہا جاتا ہے۔عوامی حمائت سے اس تحریک نے چند اصلاحات کے حصول میں کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن بعدازاں ہندوستان میں دو قومی نظریہ کے اثرات ریاستوں پر بھی مرتب ہوئے اور قوم کی تشکیل کا عمل آپسی تقسیم کی وجہ سے بکھر کر رہ گیا اور یوں آخرکار وہ مقتدر ریاست جموں و کشمیر اور اسکی عوام نوزائیدہ مملکت پاکستان اور بھارت کے ہاتھوں جبری تقسیم کا شکار ہو گئی۔دونوں قابض ممالک نے ریاست پر اپنا اپنا دعویٰ جتاتے ہوئے اسے ایک علاقائی تنازعہ بنا دیااور اپنے طور پر اسے عوام کے حق خودارادیت کی حمائت کا ڈھونگ رچایا اور المیہ یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے زیر قبضہ حصوں کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔ ستر سالہ اس تنازعہ جموں و کشمیر نے ریاستی عوام کو مزید تقسیم کر دیا اور وہ اب قومی شناخت اور حتمی منزل (قومی خودمختاری) کے معاملے میں مکمل طور پر تذبذب کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہی تقسیم اور تذبذب ہمارے قوم پرست اور ترقی پسند گروہوں کا المیہ بھی ہے جو زمینی حقائق کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔
ان مشاہدات کی روشنی میں میری ذاتی رائے یہی ہے کہ جموں و کشمیر میں ایک قوم جیسی اکائی موجود ہی نہیں ہے ۔ محدود عوامی حمائت کے حامل قوم پرست و ترقی پسند گروہ ایسی قوم کی تشکیل اور ایک مشترکہ قومی پلیٹ فارم بنانے میں ناکام رہے ہیں جو پوری ریاست کے تمام حصوں اور ان میں بسنے والے عوام کی نمائندگی کر سکے۔ انہی ناکامیوں کی وجہ سے ان گروہوں کے کھوکھلے نعروں کو بین الاقوامی سطح پر کوئی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ تنازعہ کے فریقین پاک و ہند کی آپسی رسہ کشی نے ریاست کے اندر انسانی آزادی، جان و مال اورروزگار زندگی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ بھارتی افواج نے ہزاروں کی تعداد میں معصوم لوگوں کو شہید کیا ، پوری نوجوان نسل کو جسمانی معذور اور بینائی سے بھی محروم کیا اور وہاںیہ ظلم و ستم تاحال جاری ہے جبکہ آزادی کے علمبردار اپنی اناوں کو نعروں سے دلاسا دینے میں مصروف اور باقی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔
میری رائے کے مطابق انہی تلخ حقائق کی وجہ سے ہمارے قوم پرست اور ترقی پسند گروہ اوپر بیان کردہ قومی آزادی کے مسلمہ نمونوں میں سے کسی ایک کی بھی نمائندگی کرنے کی اہلیت کے حصول میں مجموعی طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں لہذا ان کیلئے لائحہ عمل میں تبدیلی اور اپنی سمتوں کے تعین پر نظرثانی ناگزیر ہو چکی ہے ۔ ان گروہوں کیلئے نئے سرے سے اپنے قلیل و طویل مدتی احداف کا وضع کرنا اورکسی ایک مقررہ حدف کے حصول کیلئے ایک متحدہ پلیٹ فارم کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے جس کے بغیرحتمی منزل کی طرف کامیابی کا ایک قدم بھی آگے بڑھانا محض خواب و خیال ہی رہے گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *