Main Menu

کرونا کی سرگوشیاں——- تحریر : آصف مقصود

Spread the love


عالمی وبا کرونا واہرس کا شکار ہونے کے بعد جسم درد، گلا خراب اور تیز ترین بخار ہونے کیوجہ سے انتہائی تکلیف میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ خوف، خدشات اور اندیشے بھی سر منڈالنے لگے. امید اور غیر یقینی کی کیفیت کا کہچھ ملا جلا رجحان تھا. تنہائی کی ایک رات کو خیالات میں کھویا بیٹھا تھا تو کسی نے کندھے پر تھپکی دی. اور پوچھا. ڈر رہے ہو؟ خوف کے عالم میں آواز کا تعاقب کیا اور جانے کی کوشش کی تو آواز آئی. میں کرونا واہرس ہوں. لرزتی ہوئی آواز سے جواب دیا کہ “جی! ڈر رہا ہوں. آواز آئی. مجھ سے ڈر رہے ہو یا اپنے اپ سے؟ خوف اس قدر حاوی تھا کہ سوال صرف سماعتوں سے ٹکرایا پر سمجھ نا سکا. کاپنتے جسم اور اکھڑتی سانس کے ساتھ سوالیہ التجا کی کہ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ کروانا نے کہا ساری دنیا تمہیں چھوڑ گہی ہے. کیا میں بھی چھوڑ دوں؟ میں نے آہستہ سے عرض کیا. آپ کی وجہ سے ہی تو چھوڑا ہے. جواب آیا کہ میرا پھیلنے، اور میری وجہ سے مرنے کا تناسب دیکھتے ہوئے بھی، سب تمہیں چھوڑ گئے. شدید ضرورت پر کوئی پاس آنے کو راضی نہیں حالانکہ ایک مناسب فاصلے اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ممکن تھا. تماری تنہائی اور اپنوں کی کنارہ کشی دنیا کا اصلی روپ ہے.
میری حالت کو بھانپتے ہوئے اور خوف و ڈر ختم کرنے کے لیے کرونا نے نرم لہجے میں کہا. سنو! ڈرو نہیں. میں تمہیں مارنے نہیں آیا میں تم کو جھنجھوڑنے آیا ہوں. میں نے پوچھا یہ جو لوگ مر رہے ہیں؟ کرونا نے مسکرا کر جواب دیا. تھوڑا خوف بھی تو برقرار رکھنا پڑتا ہے.
اب میرا خوف کافی حد تک ختم ہو چکا تھا. کرونا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے مرنا ضرور ہے. اج میں وجہ نہیں بنتا لیکن کل کہچھ اور وجہ بن جائے گی. اپنے اس وقت کو غنیمت جانو. اپنے رب کے قریب ہو جاو. ہر انسان سے گناہ ہوتے ہیں. اپنے گناہوں کی معافی مانگو. توبہ استغفار کرو. ہدایت مانگو. انسانوں کی خدمت کرنے کی ٹھان لو. اللہ اور رسول کے احکامات کی پیروی کرو اور دنیا کی حقیقت کو سمجھو. اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاے. یہ دنیا ایک دھوکہ ہے. انسان پوری زندگی اسکے پیچھے بھاگتے ہوئے گزار دیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر یہ کسی کام نہیں آتی. یہ رتبے مرتبے، یہ ٹھاٹھ باٹھ، پیسوں کی ریل پیل اور شہرت یہ سب کامیابی کے معیار نہیں ہیں. سب ایک دھوکہ ہے.
کرونا نے غور سے دیکھا اور گویا ہوا. یہ جو تمہاری اکھڑی سانسیں ہیں یہ اگر رک جاہیں نا تو یہ جو تمہارے حلقہ احباب ہیں تمہیں الوداع بھی نہیں کہیں گے.
میں نے کہا. یار، تمارا نام تو حاجی کرونا ہونا چاہیے تھا.
کرونا نے کہا کہ دیکھو. میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے. میں تمارے ساتھ شاہد زیادہ وقت نا گزار سکوں. میں نے اپنے زمہ بہت بڑا زمہ اٹھایا ہوا ہے. میں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑنا ہے اور حقیقت آشکار کرنی ہے. اور اگر تم کو میری بات سمجھ آ جائے تو تم بھی ساتھ دے سکتے ہو.
میں نے کہا. تم تو بڑے دانشور لگ رہے ہو.تھوڑا اور وقت دے دو. تو کرونا بولا. دیکھو میاں. دنیا میں ہر انسان کا کچھ نا کچھ سرمایہ ہوتا ہے. اور وہ زندگی کا زیادہ حصہ سرمایہ بنانے کی تگ و دو میں گزارتا ہے. کسی کا سرمایہ دولت ہوتی ہے. کسی کا سرمایہ دوست احباب کسی کا سرمایہ اس کی اولاد. مختلف انسانوں کے مختلف سرمائے ہوتے ہیں.
اب تصور کرو کہ اگر ایک انسان کا سرمایہ اس کی دولت تھی. اس نے اسکے حصول کے لیے دوست، خوشیاں، آرام، نیک نامی غرض سب کہچھ قربان کیا. وقت پڑنے پر پانچ چھ نوٹ کے بدلے کہچھ خریدنا چاہ. تو اسے پتا چلا کہ چھ میں سے دو نوٹ تو چلتے ہی نہیں ہیں. دو نوٹ کی قدر جو وہ سوچ رہا تھا اس سے انتہائی کم ہے اور دو کی قدر برابر ہے. تو اس آدمی کے پاس دو آپشن رہ جاتے ہیں ایک حقیقت پسندی. کہ اپنے کل سرمایہ کو نکال کر سامنے رکھے اور قدر جان لے. جو جو نہیں چلتے ان کو نکال دے. جن کی قدر کم ہے ان کو ایک طرف کر دے اور جنکی قدر برابر ہے انکو ایک طرف کر دے تا کہ ضرورت پڑنے پر اسی طرع استعمال کر سکے. دوسرا اپشن خیالی دنیا. کہ نا چلنے والے اور کم قدر والے نوٹوں کے دکھ سے بچنے کے لیے ان کو پرکھا ہی نا جاے. اور سوچ لے کہ سب سعی ہیں اور کسی وقت ضرورت پڑنے پر میری سوچ سے زیادہ انکی قدر ہو گی. میں نے کہا. یار، تم. تو فلسفی بھی نکلے. تماری باتیں میری سمجھ میں نہیں آہیں. کہنے لگا. میرے بارے میں اپنے حلقہ احباب میں کتنوں کو بتایا. میں نے جواب دیا. چند ایک کو. کہنے لگا نوٹوں والا حساب ہے. دوسرا آپشن چن لو. تمارا کل سرمایہ تمارے حلقہ احباب ہیں. اس مصروف دنیا میں اگر وہ ان قدروں پر پورا نہیں اتر سکے تو بہت دکھ ہو گا. تم اپنا کل سرمایہ کھونے کا دکھ شاہد نا برداشت کر سکو. میں تو چلا جاؤں گا لیکن تمارے پاس جینے کا جواز نہیں رہے گا. مشکل وقت ہے لیکن وقت کی خاصیت ہے کہ ٹھہرتا نہیں ہے. یہ بھی گزر جاے گا. میں نے کہا. یار! تو تو استاد بھی نکلا.
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا. کرونا واقعی جلدی میں تھا. اج بھی اسکی کی گہی سرگوشیاں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں. اور خیال اتا ہے کہ شاہد کہچھ اور باتیں کرتا تو کہچھ اور سیکھا جاتا.
(اپنی آراء سے آگاہ کیجئے گا.
‏sardar.asif.maqsood@gmail.com
‏Whatsaap 00971-55-7095729)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *