Main Menu

مشتاق احمد کشفی کسان تحریک سے ترقی پسند مصنفین تک

Spread the love

(تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ)

بات پاکستان پر مسلط جاگیرداری و سرداری نظام کے جبر ہاتھوں پستے ہوئے کسانوں، ہاریوں اور مزارعوں کی ہو، یا سرمایہ داروں، صنعت کاروں، اشرافیہ اور ٹھیکیداری نظام کے تسلط میں پستے مزدوروں کی، تکمیلِ آزادی اور بنیادی ضرورتوں سے آراستہ خوشحال زندگی کے سپنے بنتے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے عوام کی ہو، یا پھر سماجی جبر کے سائے تلے سچ کو ادب کے سانچے میں ڈھالتے اور حقوق کی جدوجہد سے جڑتے ترقی پسند شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی، جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے بینر تلے مزاحمت اور آزادی کے ترانے گاتے ایسا ادب تخلیق کرنے میں مشغول ہیں، جو عوام کا شعور اجاگر کرنے، ان میں ایک نئے سویرے کی امید جگائے اور انہیں انقلابی جدوجہد کے راستے پر ڈال دے۔

ایسے سب لوگ آپس میں ایک خاندان کی طرح جڑے ہوتے ہیں، کیونکہ ایک وسیع تر ترقی پسند انقلابی تحریک پیدا کئے بغیر نہ ہی ملک کے کسان، مزدور اور پسے ہوئے عوام آزادی سے سانس لے سکتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں صحت، تعلیم، روز گار اور چھت جیسی بنیادی ضرورتیں میسر آ سکتی ہیں۔ ہماری دھرتی نے ایسے بے شمار ہیرے پیدا کئے، جو مختلف وقتوں میں اپنے وطن کو اپنی عوام کے لیے ماں کی آغوش جیسا محفوظ بنانے کے سپنے بنتے اور ایک نئے سویرے کی امید جگاتے اپنی ساری زندگی ملک کے پسے ہوئے عوام کو جگانے میں لگے رہے۔ ایسے ہی ایک ہونہار اور جفاکش انقلابی کارکن مشتاق احمد کشفی تھے، جو ساری زندگی استحصالی نظام سے لڑتے، معاشی بدحالی سے الجھتے اور اپنے ساتھیوں کا ساتھ نبھاتے بدھ 20 دسمبر 2023ء کو ہم سب سے جُدا ہو گئے۔ قیامِ پاکستان سے دو برس قبل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر 328 ج ب کے ایک محنت کش گھرانے میں جنم لینے والے مشتاق احمد کشفی نے پاکستان کسان کمیٹی کے پلیٹ فارم سے بائیں بازو کی سیاست کا آغاز کیا، پھر پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان سوشلسٹ پارٹی اور عوامی ورکرز پارٹی میں اپنا سرگرم کردار ادا کرتے کرتے انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی قائدین میں شمار ہونے لگے۔

مشتاق احمد کشفی سے میرا رشتہ نظریاتی بھی تھا، جدوجہد کا بھی اور ہم دونوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دور دراز پسماندہ دیہاتوں کے کھیت کھلیانوں میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی تھی۔ ہم دونوں کا نظریاتی و سیاسی جنم نبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسان تحریک سے ہی ہوا تھا۔ مشتاق کشفی بہت ہی نفیس، جفاکش، ڈسپلن کے پابند سرگرم انقلابی کارکن تھے۔ مشتاق کے والد اپنے گاؤں میں سیپی پر لوہار کا کام کرتے تھے، اس لیے لوگ اُنہیں مستری محمد بوٹا بولتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو بہتر تعلیم دلوانا چاہتے تھے، تا کہ مشتاق بڑا ہو کر اپنے گاؤں میں کم درجے کے انسان کے طور پر نہ جیئے، مگر حالات کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ گھر کے حالات اور معاشرتی ناہمواری سے تنگ آ کر انہوں نے اپنی تعلیم کو پرائمری سطح پر ہی چھوڑ دیا اور اپنے گاؤں کے بڑے زمیندار کے بیٹے کی زیادتی پر اسے ایسا سبق سکھایا کہ انہیں بھاگ کر ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر میں پناہ لینا پڑی۔ اُن کے بہنوئی کا تالاب بازار ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فرنیچر کا کاروبار تھا اور مشتاق نے بھی فرنیچر بنانے کا ہنر سیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر اچانک ایک دن گاؤں کے زمیندار کا وہی بیٹا مل گیا، جسے مشتاق کشفی نے سبق سکھایا تھا تو وہ بھاگ کر پناہ کی تلاش میں کچہری بازار میں ایک چبارے پر جا پہنچے۔ وہ پاکستان کسان کمیٹی کا دفتر تھا اور وہاں دو آدمی محوِ گفتگو تھے۔ ان میں سے ایک نے اُنہیں نہایت شفقت سے بٹھایا اور انکے جھگڑے کی وجہ پوچھی اور اُن کی داد رسی کروا دی۔ یہ نامور کسان رہنما چوہدری فتح محمد تھے اور اُن سے مشتاق کشفی کی پہلی ملاقات تھی۔

بعد ازاں وہ فرنیچر کی جِس دوکان پر کام کرتے تھے، اس کے ساتھ والی دوکانوں پر قبضہ ہو گیا، جو قیام پاکستان سے قبل ایک مقامی ہندو سے کرائے پر لی گئی تھیں۔ بٹوارے کے وقت ہندو تو ملک چھوڑ کر چلے گئے مگر وہ دوکاندار بغیر کرایہ کے ان دوکانوں پر بیٹھے تھے۔ یہ متروکہ جائیداد ایک شیخ نے رشوت دے کر الاٹ کروا لی اور پولیس کی ملی بھگت سے رات کے وقت تالے توڑ کر کرائے داروں کا سامان باہر پھینک کر ان پر قبضہ کر لیا۔ پولیس کے ڈر سے اُن کی مدد کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔ تب چوہدری فتح محمد اور میجر خوشی محمد نے دن کے وقت آ کر تالے تڑوائے اور کرایہ داروں کا سامان دوبارہ ان دوکانوں میں رکھوا دیا۔ چوہدری فتح محمد کی اس جرات کو سارے شہر نے سراہا اور اس واقع نے مشتاق کو ایک نئی توانائی دی۔ مشتاق تو بچپن سے ہی باغیانہ طبعیت کا مالک تھا، اور جب اسے سمجھ آئی کہ کسان کمیٹی والے استحصال کی تمام شکلیں مٹا کر ملک میں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو مشتاق کشفی بھی ان کے ساتھ جُڑ گیا اور اس راہ کا ایسا مسافر ہوا کہ کبھی بھی اپنی منزل نہ بدلی۔ مشتاق کشفی کہا کرتے تھے کہ اب چوہدری فتح محمد تو نہ رہے لیکن شعور کی جو روشنی انہوں نے پھیلائی تھی، قدم بقدم ان کی رہنمائی کر رہی ہے۔


مشتاق کشفی رسمی طور پر بہت کم تعلیم کے باوجود تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ اور عوامی انداز کے بہترین شاعر تھے اور ان کی پنجابی شاعری کی کتاب ”آساں دا سورج” بھی شائع ہو چکی ہے۔ مشتاق نے فلسفے کی بڑی بڑی کتابیں نہ پڑھی ہوں گی مگر اُنہوں نے اپنے علم اور عمل میں یکسانیت پیدا کرتے ہوئے ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کرتے گزاری۔ انہوں نے نظریاتی اور سیاسی میدان میں جِس ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ مشتاق کشفی نے 1968ء میں خانیوال اور 1970ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والی تاریخی کسان کانفرنسوں میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ٹوبہ کسان کانفرنس کے وقت ان کی عمر 25 برس تھی۔ انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے علم و شعور کا عمل جاری رکھا اور پنجابی شاعری کا آغاز کر دیا۔ وہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ منسلک تھے اور چوہدری فتح محمد، سی آر اسلم، میاں محمود احمد اور مزدور رہنما کنیز فاطمہ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان دنوں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر تھی اور وہ کام کی غرض سے اکثر لاہور ہی رہتے تھے۔ پارٹی اجلاسوں اور تقریبات کے علاوہ مشتاق کشفی نے پیپلز پارٹی کے جلسوں جلوسوں میں بھی اپنی انقلابی شاعری کا سکہ جمانا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے دن رات محنت کر کے 70 کی دہائی میں اتنی رقم اکٹھی کر لی تھی کہ 1980ء میں گوجرانوالہ میں بننے والی ایک نئی آبادی میں پلاٹ لے کر اُس پر اپنا گھر بنا لیا اور ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
اُس وقت ملک پر ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے سیاہ دور کے سائے منڈلا رہے تھے اور افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کو سبوتار کرنے کے امریکی سامراجی منصوبوں کو جہاد کا لبادہ پہنا کر نظریاتی کمک پہنچانے کے لیے اسلامائزیشن نے ملک میں دھشت پھیلا رکھی تھی۔ علم و شعور کے مواقع محدود اور سیاسی سرگرمیاں معطل ہو چکی تھیں۔ گوجرانوالہ کے جِس علاقہ میں مشتاق نے گھر بنایا اُسے کہنیا لال پیپلز کالونی کہتے تھے۔ یہ نئی کالونی تھی، جِس میں رہائشی سہولتوں کا فقدان تھا۔ مشتاق نے وہاں منتقل ہوتے ہی ایک رفاہی تنظیم کی بنیاد رکھی اور مقامی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر سیوریج، گیس، پانی اور بجلی کی ترسیل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ مشتاق کشفی کی نظم ‘نگار پھاٹک’ بھی اُسی دور میں لکھی گئی تھی جو اُنہوں نے وہاں کے حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھی تھی۔ پھر انہوں نے گوجرانوالہ میں چوہدری سردار محمد، ڈاکٹر شفیع بیگ، ظفر سلیم ایڈووکیٹ، ماسٹر عبدالغفور چوہان، میاں محمد اکرم ایڈووکیٹ، مرزا عبداللہ، مرتضی رضا شاہ، مشتاق گھمن، آغا اسلم اسد، صدیق گھمن ایڈووکیٹ، رانا طفیل کے علاوہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی و دیگر ترقی پسند جماعتوں کے کارکنوں سے رابطے بڑھائے اور جلد ہی گوجرانوالہ کی ترقی پسند سیاسی حلقوں میں اپنا نام بنا لیا۔ وہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں اپنا سکہ منوانے لگے اور جلد ہی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن گوجرانوالہ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہو گئے۔ یہ ان کا کسان تحریک اور کسان کانفرنسوں سے مزدوروں میں کام کرنے اور سی بی اے یونینوں سے تعلقات استوار کرنے کا بہترین تجربہ تھا، جسے اُنہوں نے احسن طریقے سے نبھایا۔ اُس زمانے میں گوجرانوالہ میں 50 رجسٹرڈ یونینز تھیں ، جِن میں 37 سی بی اے تھیں اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ساتھ منسلک تھیں۔ اس وقت تک اُن کے معاشی حالات بہتر ہو چکے تھے اور وہ نئے پلاٹوں پر گھر بنانے کے ٹھیکوں کا کام کرنے لگے تھے۔ اب اُن کا گوجرانوالہ کی مقامی سیاست اور جلسے جلوسوں میں سرگرم کردار ابھر کر سامنے آ چکا تھا اور وہ شہر کے ہر سیاسی جلسے جلوس میں کردار ادا کرنے لگے تھے، خواہ وہ جلسہ ان کی پارٹی کا ہو یا پھر تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کا اور وہ اجمل خٹک، سی آر اسلم، عابد حسن منٹو، چوہدری فتح محمد، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر شاہ محمد مری، محترمہ کنیز فاطمہ یا پھر کسی اور ترقی پسند رہنما کے اعزاز میں رکھا گیا ہو۔
ضیاء ڈکٹیٹر کے خلاف 1981ء میں تحریک بحالی جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی تو ملک بھر میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں ہو گئیں۔ ترقی پسند سیاسی رہنماؤں نے جیل میں ہی بائیں بازو کی جماعتوں کو یکجا کر کے متحدہ اور موثر انقلابی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چھ ماہ کی نظر بندیوں کے بعد رہائی ملی تو سی آر اسلم، چوہدری فتح محمد، عابد حسن منٹو، انیس ہاشمی، اسحاق مانگریو، محمد علی بھارا، حسن عسکری، رانا محمد اعظم اور دیگر نے مل کر ملک بھر میں کسان کانفرنسوں کا پروگرام ترتیب دیا تو مشتاق احمد کشفی بھی اُس میں پیش پیس رہے۔ اُنہوں نے 80 کی دہائی میں کبیر والہ، ملتان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، شیخوپورہ، نارووال اور سانگھڑ کی کسان کانفرنسوں میں اپنا متحرک کردار ادا کیا اور متعدد کانفرنسوں کے سٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی ادا کئے۔ جب راقم 1996ء میں برطانیہ منتقل ہو گیا تو مشتاق کشفی سے رابطہ کم ہو گیا۔ بعد ازاں جب 23 مارچ 2005ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو راقم اپنا آبائی شہر ہونے کے ناطے دو ہفتے کی چھٹی لے کر ٹوبہ پہنچ گیا۔ اُن دنوں چوہدری فتح محمد پاکستان کسان کمیٹی کے صدر اور سانگھڑ سے اسحاق مانگریو جنرل سیکریٹری تھے۔ جب میں وہاں پہچا تو مشتاق کشفی پہلے ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچ کر کسان کانفرنس کے آفس سیکریٹری کی ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ ہم نے دو ہفتے اکٹھے گزارے اور مل کر رانا محمد اعظم آرگنائزر کسان کانفرنس کی بھرپُور مدد کی۔ اسی کانفرنس کے اختتام پر ملک بھر سے آنے والے بائیں بازو کے رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں عابد حسن منٹو، رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، افضل خان خاموش، یوسف مستی خان، فاروق طارق، اختر حسین، اور چوہدری فتح محمد شامل تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وہی اجلاس بعد ازاں بائیں بازو کے اتحاد “عوامی جمہوری تحریک” کیے قیام کا موجب بنا۔ بعد ازاں 4 فروری 2007 کو مینارِ پاکستان لاہور کے مقام پر کسان کانفرنس منعقد کی گئی تو اس میں بھی مشتاق کشفی کا کردار نمایاں رہا۔ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات 13-12 مارچ 2022ء کو لاہور میں ہوئی، جب میں برطانیہ سے عوامی ورکرز پارٹی کی تیسری کانگریس میں شرکت کے لیے پاکستان گیا تھا، اور مشتاق کشفی بھی اس کانگریس میں ڈیلی گیٹ کے طور پر شامل تھے۔ دوپہر کو کھانے کے وقفے میں تھوڑی گفتگو ہوئی تو میں نے محترم راحت سعید کی صحت کے بارے دریافت کیا تو انہوں نے فوری اُن کا نمبر ڈائل کر کے اُن سے بات کروا دی۔ راحت سعید سے میرا محبت اور احترام کا پرانا رشتہ تھا اور ان میں بلا شعبہ موٹیویشنل صلاحیت بہت تھی۔ 2010ء میں جب وہ برطانیہ تشریف لائے تو ہم نے اکٹھے مل کر 2011ء کو فیض صاحب کی سو سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی ابتدائی تیاری کے طور پر ہم نے 2010ء میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کی 75 سالہ تقریبات مناتے ہوئے برطانیہ کے پانچ شہروں میں پروگریسو رائٹرز کانفرنسز منعقد کیں۔ اس سلسلے کی پہلی ترقی پسند مصنفین کانفرنس ساوتھ ہیمپٹن میں منعقد کی، جِس میں انجمن ترقی پسند مصنفین انڈیا کے جنرل سیکریٹری اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی کے سربراہ پروفیسر علی احمد فاطمی اور غالب اکیڈمی دہلی کے صدر شاہد محالی مہمان تھے۔ دوسری کانفرنس ہم نے برمنگھم میں منعقد کی جِس میں محترم راحت سعید مہمان تھے، تیسری کانفرنس سلاؤ میں، چوتھی کانفرنس انڈین ورکرز ایسوسی ایشن کی مدد سے لیسٹر میں اور پانچویں کانفرنس اکتوبر 2011ء میں بریڈفورڈ میں منعقد کی گئی۔ بریڈفورڈ کانفرنس کے مہمانِ خصوصی برطانیہ کے نامور ترقی پسند ادیب اور سیاسی رہنما ٹونی بین تھے۔ اسی دوران ہم نے برطانیہ بھر سے 126 ممبران پر مشتمل فیض سینٹینری نیشنل آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی تھی، جِس کے صدر گُرنام سنگھ ڈھلوں (صدر انجمن ترقی پسند مصنفین برطانیہ)، نائب صدر سرون سنگھ ظفر (جنرل سیکریٹری انجمن ترقی پسند مصنفین برطانیہ)، جنرل سیکریٹری پرویز فتح (راقم)، اور انفارمیشن سیکریٹری نامور ترقی پسند ادیب، دانشور اور برطانوی ایجوکیشن سسٹم میں ایگزیکٹو پروفیسر محسن ذوالفقار تھے۔ جب انجمن ترقی پسند مصنفین میں گروہ بندی کی خبر ملی تو راقم نے متحارب گروپ کے رہنما عابد حسین عابد، ڈاکٹر سعادت سعید اور دیگر ساتھیوں سے رابطے کیے، محترم عابد حسن منٹو جی سے ان دونوں کی نشست بھی ہوئی، لیکن تلخیاں اس قدر گہری تھیں کہ ہمیں انجمن کی گروہ بندی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑا۔
اس وقت تک مشتاق احمد کشفی گوجرانوالہ کے تمام ترقی پسند کارکنوں کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کا ضلعی ڈھانچہ کھڑا کر چکے تھے۔ اب انجمن ترقی پسند مصنفین گوجرانوالہ کے باقاعدہ اجلاس منعقد ہونے لگے اور اُن میں مضامین اور نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ مشتاق احمد کشفی، جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان تحریک سے کیا تھا، اُن کی شناخت ایک منجھے ہوئے ترقی پسند ادیب کے طور پر ہونے لگی تھی۔ وہ مقامی طور پر انجمن ترقی پسند مصنفین کی قیادت کا تو تجربہ کر ہی چکے تھے، اب وہ ملک بھر میں انجمن کی تقریبات میں شرکت اور اپنا کردار ادا کرنے لگے تھے۔ یکم فروری 2016ء کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا مرکزی کنونشن گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے 120 ڈیلیگیٹس نے شرکت کی تو اس میں انجمن کی تنظیمِ نو بھی کی گئی۔ ان انتخابات میں نامور ترقی پسند ادیب اصغر ندیم سید کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا مرکزی صدر اور مشتاق کشفی کو نائب صدر منتخب کیا گیا۔ بلا شعبہ یہ مشتاق کشفی کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا، کیونکہ مجموعی طور پر ادیب پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ایسی تنظیم کے جانب سے ایک محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ادیب کو مرکزی قیادت کے مقام تک لے جانا انسانی شعور کی اعلی مثال تھی۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا بھی نہ ہو سکا، کیونکہ اس عرصے میں انجمن ترقی پسند مصنفین بھی گروہ بندی کا شکار ہو چکی تھی۔ جاگیردارانہ عنا پرستی، خود پسندی اور عہدوں کی خواہش نے پڑھے لکھے شاعروں اور ادیبوں کی اس انجمن کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیا تھا۔ اب ترقی پسند شاعروں، ادیبوں اور مصنفین کی اس تاریخ ساز انجمن میں اختلافات ابھر کو سامنے آ چکے تھے اور یہ انجمن بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی۔ ان حالات میں گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والا یہ کنونشن اور تنظیم نو بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کو گروہ بندی سے نہ بچا سکے۔ ان حالات میں اصغر ندیم سید نے بطور صدر خدمات سر انجام دینے سے معذرت کر لی اور بدلتے ہوئے حالات میں منتخب نائب صدر مشتاق احمد کشفی کو بطور قائم مقام صدر خدمات سر انجام دینے کی ذمہ داری نبھانی پڑی۔ پھر یہی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے وہ 20 دسمبر 2023ء کو ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ آج مشتاق احمد کشفی ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی پُرعزم انقلابی جدوجہد ہمارا اثاثہ رہے گی اور سماجی تبدیلی کی اس جدوجہد میں ان کا نام زندہ رہے گا۔






Related News

جاگیرداری اور جمہوری حقوق تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the loveبات قومی حقوق کی جدوجہد سے شروع ہوئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ،Read More

مشتاق احمد کشفی کسان تحریک سے ترقی پسند مصنفین تک

Spread the love(تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ) بات پاکستان پر مسلط جاگیرداری و سرداریRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *