Main Menu

جاگیرداری اور جمہوری حقوق تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love


بات قومی حقوق کی جدوجہد سے شروع ہوئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور قومی آزادی، مساوات، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور دھشت گردی کے پیچھے کار فرما ہاتھ سے ہوتی ہوئی سامراجی غلامی تک جا پہنچی۔ یہ برطانیہ کے شہر بارنسلے میں منعد ہونے والی جی ایم سید کی 121 ویں برسی کی تقریب تھے، جِس کا اہتمام ورلڈ سندھی کانگریس برطانیہ نے کیا تھا، اور راقم کو بھی اپنے پارٹی کی نمائیندگی کرتے ہوئے اظہار خیال کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ تقریب کی صدارت میزبان تنظیم برطانیہ کی صدر اور نامور ترقی پسند دانشور ڈاکٹر روبینہ شیخ نے کی، جب کہ اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر ہدایت بھٹو، راقم (پرویز فتح)، گُل سنائی میمن، عبدالرؤف لغاری، کامران لاشاری، منظور بہلکانی، شاہد چنا، علی نواز چنہ شامل تھے۔ تقریب میں ہونہار بچوں کی متعدد گروپس نے جی ایم سید کی زندگی اور سیاسی، سماجی اور ادبی خدمات پریزنٹیشنز پیش کیں۔

راقم نے اپنی پارٹی (عوامی ورکرز پارٹی) کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم اپنے پیاروں کی یاد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کی زندگی کو تو سیلیبریٹ کرتے ہی ہیں، پر ہم ان کی جدوجہد اور اُس میں آنے والے اتار چڑھاؤ، آج کی حالات میں اس کی ریلیوینس اور بدلتے ہوئے حالات میں تجدیدِ عمل کے راستے بھی نکالتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں اور مستقبل کی جدوجہد کو نئے سرے سے استوار کرنے کی راہیں نکالتے ہیں۔

برِصغیر کے بٹوارے کو، جِسے ہم آزادی بولتے ہیں، 77 برس بیت چکے ہیں۔ جب برطانوی سامراج نے برِصغیر، متحدہ ہندوستان پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے یہاں کی تہذیب و ثقافت، اور مقامی زبانوں پر حملہ کیا تا کہ ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا سکیں اور پُشتوں تک ہمارے وسائل کو لوٹ سکے۔ اس کے بعد انہوں نے ہماری انڈیجینیس، یا خودکار صنعت و حرفت اور دستکاری کی صنعت کو تباہ کیا، تا کہ اپنی صنعتی پیداوار کے لیے منڈی کو وسعت دے سکے۔ اُردو زبان کی ترویک و ترقی بھی برطانوی سامراج ہی نے کی تھی، تا کہ برِصغیر کی مقامی زبانوں کو دوسرے درجے کی حیثیت دی جائے اور مقامی باشندوں سے ان کی زبان اور تہذیب و ثقافت چھین کر سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جائے۔ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے، یہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں، کیوںکہ جب برِصغیر پر مسلمان بادشاہوں کا راج تھا تو اس وقت یہاں سرکاری زبان کا درجہ اردو کو نہیں بلکہ پرشین (فارسی) کو تھا۔

پاکستان وجود میں آیا تو سائیں جی ایم سید نے بھی قیامِ پاکستان کی حمایت کی اور اس میں اپنا حصہ بھی ڈالا تھا۔ ہندوستان کی کیمونسٹ پارٹی نے بھی قوموں کے حقِ خود ارادیت کی بنیاد پر قیامِ پاکستان کی حمایت کی تھی۔ لیکن حالات نے یہ ثابت کیا ہے کہ برِصغیر کا بٹوارہ اور پاکستان کا قیام سامراجی ایجنڈے کے تحت ہی ہوا تھا۔ برصغیر پر انگریز سامراج کے تسلط کے دوران ایک طرف اس دھرتی، اور اس کی مٹی کے غداروں، مخبروں اور وطن دشمنوں کو نوازنے کے لیے وسیع تر جاگیریں الاٹ کی گئیں، تو دوسری طرف سامراجی استحصالی نظام کو دوام بخشنے، آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں کو سبق سکھانے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے بیروکریسی کا وسیع تو جال بچھایا گیا۔ انہی دو قوتوں نے قیام پاکستان کے بعد ملک پر قبضہ کر لیا، جو اب تک جاری ہے۔ ادھر ہندوستان میں ترقی پسند تحریکیں زیادہ مضبوط تھیں اور انہوں نے آزادی کی جنگ بھی لڑی تھی، اور قربانیاں دی تھیں، اس لیے آزادی کے بعد وہاں وسیع پیمانے پر لینڈ ریفارمز کر کے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس سے ان کا ملک صنعتی عمل کی جانب بڑھا، جمہوری ادارے مضبوط ہوئے، اور ملک ایک سیکولر جمہوری ریاست بن گیا۔

پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کر کے جاگیردار طبقے نے ایک طرف ملکی سطح پر سٹیٹسکو کو برقرار رکھا تو دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے ملک پر سامراجی بالادستی کو دوام بخشا۔ آزادی کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر معاشی ڈھانچے کی تشکیل نو سے روُگردانی کی گئی، اور پیداواری رشتوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ ہاں ایک منفی ترقی ضرور ہوئی کہ عالمی سطح پر برطانوی سامراج کی جگہ امریکی سامراج نے اور ملکی سطح پر سول بیروکریسی کی جگہ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے لے لی۔ انہوں نے مل کر مذہبی عناصر کو ساتھ ملایا اور ملاء، ملٹری، جاگیردار کی ایک مضبوط مثلث بنا کر عوام کا جینا دو بھر کر دیا۔ سیاست میں مذھب کا بے دریگ استعمال کیا گیا، اور معاشرے میں اور اونچ نیچ، آقا اور غلام، جاگیردار اور مزارعے، صنعت کار اور مزدور کے فرق کو اللہ کی تقسیم قرار دیتے ہوئے عوام صبر شکر کی تلقین کی گئی۔

ملک میں سامراجی لوٹ گھسوٹ کے دور کے پیداواری رشتوں کو یوں کا توں رکھا گیا۔ جمہوری روایات سے روُگردانی، عوام کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق سے انکار نے عوام کے آزادی کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے دور میں بھی باہر نکل کر دیکھتے ہیں تو وڈیرے کی دھشت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ ہاریوں اور انکی اولادوں کو دہلیز سے بہت دور اپنی چپلیں اتار کر کئی سرحدیں عبور کرکے وڈیرے کے سامنے ننگے سر اور ننگے پاؤں ہی کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ آج کے جدید انفارمیشن کے دور میں بھی وڈیروں اور ان کی اولادوں کی آنکھوں میں فرعونت اور چہروں پر تکبر ختم ہو سکا۔ ان حالات میں ملک میں جمہوریت کے احیاء اور جمہوری اداروں کے پنپنے کے خواب دیکھنا احمکوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے تا وقتِ کہ ہم مل کر ایسے سماج کو اس کے منتقی انجام تک پہنچا دیں۔ مذھب کے سیاسی استعمال اور ملا کے کردار سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ ہم آئے روز کاروکاری، جبری مذھب تبدیلی اور توھین مذہب کے نام پر غریب اور مجبور عوام کی کھلے عام قتل و غارت دیکھتے ہیں۔ ایسے جبر کے خلاف سرکار اور عدالتیں بھی عوام کو تحفظ دینے سے قاصر ہیں۔ حال ہی میں سندھ میں ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی شہادت اور پنجاب کے شہر راجن پور سے تعلق رکھنے والے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے استاد جنید حفیظ کے خلاف ماروائے عدالت کاروائیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایسے لوگ اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کی اگر مذھب کے نام پر کسی بے گناہ نے سزا بھگتی تو اصل توھین مذھب یہی ہو گی۔

جمہوری حقوق اور تحریر و تقریر کی آزادی جمہوری اداروں کے قیام اور جمہوریت کی بنیادیں استوار کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے آج کے دور میں حقوق کی کوئی جدوجہد معاشی و سماجی ڈھانچے کو توڑے بغیر ممکن نہیں ہے، جِس کے لیے سامراج سے آزادی اور جاگیرداری نظام کا خاتمے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ سب کو یقین ہونا چاہیے کہ لوگوں کو شعور دینا بغاوت نہیں ہوتا، نظریہ سمجھانا اُکسانا نہیں ہوتا، حقائق بتانا جرم نہیں ہوتا، حق کا راستہ دکھانا سازش نہیں ہوتا، اور خوف ختم کرنا غداری نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں اس عزم کے ساتھ نکلنا ہو گا کہ یہ ملک ان وطن فروش جاگیرداروں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے اور اسے ہم نے ہی سنوارنا اور آزادی کی منزل تک پہنچانا ہے۔

میں آخر میں سائیں جی- ایم سید جی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اُن کی مشہور کتاب ‏پیغامِ لطیف کے صفہ 143 سے چند کلمات پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا، جِس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ جی ایم سید کی سوچ اور تحریروں میں کس قدر گہرائی ہے اور ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر ان کی لکھی ہوئی 60 کتابیں کس قدر علم میں اضافہ کریں گیں۔

ملا اور مولوی: ‏ان میں سے بیشتر کا علم درس نظامی تک محدود تھا، اور کچھ بڑے پایہ کے مولوی تھے- ان کے مشغلے یہ تھے:
مسجدوں میں اذانیں دینا، نمازِ جنازہ پڑھانا، میتوں کو غسل دینا، نکاح پڑھانا، فی سبیل اللہ کی دعوتیں کھانا، فروعی باتوں پر بحث و مباحثہ کرنا، مخالفوں پر کفر کے فتوے عائد کرنا، مذہب کے اصل مقصد کو نظرانداز کرنا اور نمائشی معاملات کو فوقیت دینا، حکمرانوں اور امراء کی سہولیت کے مطابق مذہب کی تاویل کرنا، معنی و مطلب سمجھے بغیر تلاوت کرنا، روزہ رکھنے پر زور دینا لیکن حرام کو نظرانداز کر دینا- ظاہری پاکیزگی کو اخلاقی پاکیزگی پر ترجیح دینا، عوام میں محبت اور رواداری پیدا کرنے کے بجائے ان میں نفرت و نفاق پھیلانا، اسلام کو چند عقائد و عبادات میں محدود کرنا، رشوتیں لے کر غلط فیصلے اور فتوے صادر کرنا، چلم اور حقہ کو ممنوع اور ناس کو جائز ٹھہرانا، ڈھول بجانے یا نہ بجانے کو جائز یا ناجائز ٹھہرانا، راگ اور سرور کو گناہ ٹھہرانا، لمبی شلوار پہننے کو ناجائز قرار دینا- بال چھوٹے یا بڑے رکھنے کے حق اور مخالفت میں فیصلے دینا، داڑھی کے سائز اور وضع کو موضوع بحث بنانا، بالوں کے سیاہ یا سرخ رنگ دینے پر جائز ناجائز کے مسئلے پیدا کرنا، مونچھیں کترانے یا چھوڑنے پر اور شیعہ یا سنی ہوجانے پر زور دینا- عاشورہ کے دن ماتم کرنے یا نہ کرنے کو نزاعی مسئلہ بنانا، نماز میں ہاتھ باندھنے یا کھولنے اور ناف کے اوپر یا نیچے ہاتھ باندھنے پر شدید بحث کرنا، تیرہ سو سال پہلے سیاسی اختلافات جیسے کہ خلافت کے حقدار ہونے کے مسئلے پر اتنی تکرار کرنا کہ جھگڑا فساد کی نوبت تک آجائے- سیدوں کو ذات کہنا یا نور کی پیدائش قرار دینے پر مناظرے کرنا، سجدہ تعظیمی کی حمایت اور مخالفت میں طویل اختلافی فتوے جاری کرنا، مخالفوں کو خارجی، رافضی، وھابی، ملحد، مشرک اور کافر کے لقب سے خطاب کرنا؟ شیعہ، سنی، مالکی، شافعی، اہل حدیث، مقلد اور غیر مقلد کی تفریق میں انتہاپسندی اختیار کرکے ملت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا، پیر پرستی اور قبر پرستی کو شعار بنانا، چھاڑ پھونک اور دعا تعویذ وغیرہ پر اعتقاد رکھنا- ٹونے ٹوٹکے کے سیاہ مرغوں یا دنبوں کو چوراہوں پر چھوڑنا، میت کے سوئم، دسویں، بیسویں اور چہلم پر قرآن پڑھ کر بخشنا اور دعوتیں اڑانا- ایک سے زیادہ اور چار تک نکاح کو سنت نبوی کی پیروی قرار دے کر عیاشی کی زندگی گذارنا، غلاموں اور کنیزوں کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے حق میں جواز پیش کرنا، اور بادشاہوں، جاگیرداروں اور زمینداروں کو از روئے اسلام جائز ٹھہرانا اور ان کی حمایت کرنا، مجتہدین، ملا اور مولوی حضرات کی زندگی کے اہم مقاصد تھے۔۔۔۔۔

آؤ ہم سب مل کر ایک وسیع تر ترقی پسند جمہوری تحریک کی بنیادیں رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں، جو سامراجی معاشی غلامی اور فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے سماج کو توڑ کر وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بناد پر ملکی ڈھانچے کی تشکیل نو کر سکے، جِس میں ہر شہری کو بلا لحاظ مذھب، رنگ، نسل آگے بڑھنے کے برابر مواقع میسر ہوں۔آج ایک بار پھر ملک میں 1957ء میں ڈھاکہ میں قائم ہونے والی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی طرز پر ایک وسیع تر ترقی پسند جمہوری جماعت قائم کرنے کی ضرورت ہے، جِس کے لیے ہم سب کو اپنا بھرپُور کردار ادا کرنا ہو گا۔

انقلاب، زندہ باد






Related News

جاگیرداری اور جمہوری حقوق تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the loveبات قومی حقوق کی جدوجہد سے شروع ہوئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ،Read More

مشتاق احمد کشفی کسان تحریک سے ترقی پسند مصنفین تک

Spread the love(تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ) بات پاکستان پر مسلط جاگیرداری و سرداریRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *