Main Menu

راجہ انور کے کالمز کا مجموعہ بازگشت پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Spread the love

ترقی پسند ادیب و صحافی ہو، یا پھر انقلابی کارکن، معاشرے میں پائے جانے والے تشدد، دنگا فساد، آمرانہ سوچ، جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کو دیکھے گا، تو خاموش نہیں رہ پائے گا۔ اس کے خون میں حرارت بھی پیدا ہو گی اور جذبات بھی بھڑکیں گے، اگر لکھاری ہوا تو اس کے قلم میں جنبش بھی آئے گی۔ راجہ محمد انور بھی ہماری دھرتی کے ایک ایسے ہی منفرد سپوت ہیں، جو ایک ترقی پسند ادیب بھی ہیں، کالم نو

یس صحافی بھی، منجھے ہوئے سیاسی کارکن بھی، اور گزشتہ 75 برس سے ملک پر مسلط سول و ملٹری آمریت، سامراجی و نوآبادیاتی تسلط، اور سماجی جبر و استحصال کے خلاف برسر پیکار انقلابی کارکن بھی ہیں۔ وہ اپنے زمانۂ طالب علمی سے لے کر آج تک ان برائیوں کے خلاف سماجی شعور کو اجاگر کرنے، اجتماعی کامیابی کے جذبے کو ابھارنے اور انسانوں میں ان کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔
کلر سیداں، ضلع راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گاؤں درکلی شیر شاہی میں 1948 ء میں پیدا ہوتے والے راجہ انور نے ہوش سنبھالا تو دنیا تہلکہ خیر تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران روس کے عوام نے لینن کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا تھا، جس سے دنیا میں نوآبادیاتی نظام کی دیواریں لرز گئیں اور برصغیر سمیت دنیا بھر قومی آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ 85 ملین کے لگ بھگ انسانوں کو نگل چکی تھی، جس نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر مہر ثبت کر دی تھی۔ راجہ صاحب کی پیدائش سے ایک سال قبل برصغیر کا بٹوارہ ہو چکا تھا اور پاکستان ایک ریاست کے طور پر وجود میں آ چکا تھا۔ پیدائش کے ایک سال بعد چین کے عوام نے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے اپنے ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں راجہ انور گورڈن کالج راولپنڈی پہنچے تو دنیا بھر میں سامراجی جبر کے خلاف عوامی احتجاج عروج پر تھے۔ دنیا بھر کے محکوم ممالک اور مظلوم اقوام میں قومی آزادی اور انقلاب کا جذبات ابھر چکے تھے، ویت نام کی عوام امریکہ کے خلاف برسر پیکار تھی، کیوبا میں فیڈرل کاسترو اور چی گویرا انقلابی تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے انقلاب کی جانب بڑھ رہے تھے۔ دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں زرعی اصلاحات کے نفاذ اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کے نعرے لگ رہے تھے۔
یہ وہی زمانہ تھا جب راجہ انور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور گورڈن کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کی قیادت کرتے ہوئے ملکی سطح پر نوجوان انقلابی کے طور پر ابھرے۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ انہیں کالج میں پروفیسر خواجہ مسعود کی شفقت اور تربیت نصیب ہو گئی، جو میرے سیاسی استاد عابد حسن منٹو کے بھی استاد رہ چکے تھے اور 1949 ء میں جب منٹو صاحب کو کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بنایا گیا تو ان کے ضلعی سیکرٹری بھی خواجہ مسعود ہی تھے۔
باز گشت صفحہ 256 پر اپنے کالم ’رومن اکھاڑہ‘ میں راجہ انور لکھتے ہیں کہ پروفیسر خواجہ مسعود نے 1940 ء میں گورڈن کالج میں تدریس کا آغاز کیا۔ انہوں نے طلبہ کی سیاسی تربیت کے لیے ’ہاؤس آف کامنز‘ کی داغ بیل ڈالی جس کا اجلاس ہر جمعہ کو ہوتا تھا۔ جس نوجوان نے اس ہاؤس میں تقریر کرنے کا نکتہ اعتراض اٹھانے کا گر سیکھا وہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنی بات کہنے پر قادر رہا۔ خواجہ مسعود نے اپنے شاگردوں کو سماجی روشن فکری، ، ذہنی برداشت، جمہوری سوچ اور انقلابی شعور کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ ہم ایسے صد ہا لوگ انہی کی توجہ خاص کے زیر اثر اپنی نظریاتی سمت متعین کر پائے۔
راجہ انور گورڈن کالج میں اپنے تعلیمی کیرئیر کے ساتھ ساتھ ایک ہونہار انقلابی طالب علم راہنما کے طور پر ابھر کر سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے، اور کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہو گئے۔ گورن کالج میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو راجہ انور نے 7 نومبر 1968 کو راولپنڈی میں ایوب خان کے خلاف نوجوانوں کے پہلے جلوس کی قیادت کی، جو جلد ہی ملک گیر تحریک بن گئی۔ ایوب خان کو مارچ 1969 میں اقتدار چھوڑنا پڑا تو ایوب خان کے جانشین جنرل یحییٰ نے انہیں ایک سال کے لیے سرکاری مہمان بناتے ہوئے جیل میں ڈال دیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1972 ء میں فلسفے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ ان کا ریسرچ مقالہ ”مارکسی اخلاقیات“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ان کی مشہور کتاب ”جھوٹے روپ کے درشن“ پنجاب یونیورسٹی کے مہکتے دبستان میں محبت کی آنچ پر پگھلتے جذبات کی حقیقی داستان ہے۔
اس دوران انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں 77۔ 1974 ء تک طلباء اور محنت کے مشیر مقرر ہو کر اقتدار کے ایوانوں کے نظارے لینے میں بھی کامیاب رہے۔ ڈکٹیٹر ضیاء کی قیادت میں فوجی بغاوت کے ذریعے بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد راجہ انور افغانستان فرار ہو گئے۔ وہاں قیام کے دوران انہوں نے مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ مل کر الذوالفقار تشکیل دی، جو ضیاء آمریت کا تختہ الٹنے کے لیے پرعزم تھی اور اپنے آپ کو بائیں بازو کی تحریک تصور کرتی تھی۔
راجہ انور 1980 ء میں مرتضیٰ کے پر تشدد دہشتگردانہ حربوں پر اختلاف کرنے لگے اور انہوں نے پاکستان واپس آ کر جمہوری جدوجہد کے ذریعے ضیاء کے خلاف بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد میں مدد کرنا کی ٹھان لی۔ انہیں اپنی سیاسی وابستگی کی راہیں تبدیل کرنے کی بھرپور قیمت ادا کرنا پڑی اور انہیں کابل کی بدنام زمانہ پل چرخی جیل میں دال دیا گیا۔ بعد ازاں مرتضیٰ بھٹو نے اپنی کارروائیوں کا مرکز شام منتقل کر لیا تو راجہ انور کو 1985 ء میں رہا کر دیا گیا۔
پاکستان جیسے نوآبادیاتی تسلط میں پنپنے والے نیم جاگیردارانہ سماج میں ملٹی کلاس پارٹی کا ڈھونگ بھی دلچسپ ہے جو سسٹم کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔ راجہ انور بھی اپنی عملی سیاست میں اسی کی نظر ہو گئے تھے۔ ان جیسا انقلابی ایسی ملٹی کلاس پارٹی میں قابل قبول کم ہی ہوتا ہے اور اصولوں پر سمجھوتا نہیں کر پاتا۔ اپنے کالم ”ڈسپلن“ میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے اپنے مکالمے کا ذکر کرتے ہوئے راجہ انور لکھتے ہیں کہ پارٹی کے جملہ تنظیمی مسائل کا واحد حل ایک ایسی جمہوری تنظیم میں مضمر ہے جسے کارکن اپنے ووٹوں سے منتخب کریں۔
نامزدگیاں ایک ایسے خوشامدی کلچر کو جنم دیتی ہیں جو امر بیل کی مانند پارٹی کے وجود کو چاٹ جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک پارٹی میں نظریات موجود ہیں، نظریاتی کشمکش بھی موجود رہے گی، اور جب تک طبقات موجود ہیں، طبقاتی گروہ بندیاں بھی ہوں گی۔ پیپلز پارٹی کا اپنا ایک مزاج ہے اور اس پر فوجی قسم کا ڈسپلن لاگو کرنا ممکن نہیں ہو گا، ورنہ پارٹی ٹوٹ جائے گی۔
ایک انقلابی کارکن کی حیثیت سے راجہ انور بہت گیرائی تک سوچتے اور اس کا بے لاگ اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے کالم ”لمحہ فکریہ“ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی قیمت پر اپنے ایٹمی وجود کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا ہے لیکن ہمیں نپولین کا یہ مقولہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ”فوجیں اپنے پاؤں کے بجائے اپنے معدے کے بل پر مارچ کرتی ہیں“ ۔ اگر ہماری معاشی حالت یوں ہی دگرگوں رہی، سماجی اور معاشی بدامنی کا یہی عالم رہا، فرقہ واریت اور صوبائی منافرت کی یہی کیفیت رہی اور مسائل سے گریز کا بھی یہی رویہ رہا تو پھر یہ خطرہ بعید ازقیاس نہیں کہ ہم روس کے حشر سے دو چار ہو جائیں۔
وہ اپنے کالم ”وقت کم اور مقابلہ سخت“ میں لکھتے ہیں کہ بجلی سے لے کر انجن تک اور گولی سے لے کر میزائل تک ہر چیز اغیار و کفار نے بنائی ہے۔ ہم نے ہر نئی ایجاد کے خلاف پہلے کفر کا فتویٰ جاری کیا اور کچھ عرصہ بعد یہ کہہ کر انہیں استعمال کرنے لگے کہ کفار کا اس میں کوئی کمال نہیں کہ ان چیزوں کا حکم تو کئی سو سال پہلے ہی آ چکا ہے۔ اگر حکم پہلے آ چکا تھا تو کوئی کام پہلے کر دکھاتے؟ لیکن ہم کچھ کیسے کر پاتے کہ دنیا تو چاند اور ستاروں پر پہنچ چکی اور ادھر ہم پیران طریقت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں یا ملائیت کے چنگل میں گرفتار ہیں۔ اگر ہم واقعی جہاد لڑنا چاہتے ہیں تو پھر اٹھیے اور سب سے پہلے علم و ہنر کی وادیوں کو فتح کیجیے۔ اپنے جہاز، اپنی ریل، اپنی بسیں اور اپنے کمپیوٹر بنائیے۔ دنیا کی معیشت اور اکانومی، سائنس اور ٹیکنالوجی کو یہود و نصاریٰ سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لیجیے۔
وہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کو قائل ہیں اور اپنے کالم دہشت گردی کا خاتمہ۔ کہاں سے شروع کریں میں لکھتے ہیں کہ مذہب خدا اور بندے کے درمیان روحانی اور قلبی تعلق ہے۔ ہم نے اس ذاتی تعلق کو ریاست اور خدا کے درمیان رشتے میں بدلنے کی کوشش کی۔ جب ریاست کا مذہب اسلام ہو گا تو اگلا سوال یہ اٹھے گا کہ کون سا اسلام؟ کس فرقے کی شریعت اور کس کی فقہ؟ اسلام کو سیاست اور ریاست کے اکھاڑے میں اتارنے کا منتقی نتیجہ فرقہ وارانہ نفرتوں کی شکل میں نکلا۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم اسلام کے نام پر ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنا رخ نہ بدلا تو دوسرے کے بعد تیسرا باب شروع ہو جائے گا۔ اس صورت حال کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر سیاست کے گندے کھیل کو ممنوع قرار دیا جائے۔ ایسے مذہبی مکاتب اور مذہبی تنظیموں پر پابندی عائد کر دی جائے جو سماج میں نفرت پھیلانے اور مخالفین کا گلا کاٹنے کی تربیت دیتے ہوں۔
راجہ انور عورتوں کے حقوق اور سماجی برابری کی بھرپور وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے کالم ”لال مسجد تک“ میں لکھتے ہیں کہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، مگر ہم نے دین اور اللہ کے درمیان تھیوکریسی کی دیوار کھڑی کر دی، جس نے رسومات اور تفرقات کے خوانچے لگا لئے۔ دین کی تبلیغ ایک دھندا بن کر رہ گئی اور جہاد ایک تجارت۔ اسے ہم ملائیت کی سادگی کہیے یا پھر ہوشیاری جانیے کہ اس نے آج تک عورت کے حقوق کی حمایت میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔
کوئی غریب اور بے آسرا عورت اگر دارو دوا کے بغیر اور علاج کے بغیر مرتی ہے تو مرتی رہے۔ اگر کسی کو سر پر چھت میسر نہیں تو نہ ہو۔ اگر کوئی مطلقہ عورت سڑکوں پر دوپٹہ پھیلائے مانگے تو شرع کی کوئی توہین نہیں ہوتی۔ کسی پر جبر و تشدد ہوتا ہے تو یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے، ہاں البتہ اگر اس نے نیل پالش لگا لی تو فوراً فتویٰ آ گیا کہ نہ اس کا وضو جائز ہے اور نہ نماز۔ اگر اس نے گاڑی چلا لی تو قابل تعزیر ٹھہری۔
اس بات سے تو کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا کہ جاگیردار طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ قیام پاکستان سے ہی ملک پر قابض چلے آ رہے ہیں، اور انہوں نے عوام کی آزادی اور جمہوری حقوق سلب کر رکھے ہیں اور ملکی آزادی کے تصور کو چکنا چور کر دیا ہے۔ راجہ انور اپنے کالم ”ماضی کا حمام“ میں لکھتے ہیں کہ انگریز سے وفاداری کے عوض جاگیریں حاصل کرنے کا آغاز 1857 ء میں ہوا۔ انگریز پر یہ سال بہت بھاری گزرا اور بہت مشکل بھی!
ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کی پہلی چنگاری، میرٹھ کی چھاؤنی میں بھڑکی تھی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیشتر چھاؤنیاں آتش فشاں ہو گئیں۔ مرکزی قیادت کے فقدان اور تمام تر بد نظمی کے باوجود باغی سپاہ نے انگریزی سرکار کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ ابتلاء کے اس زمانے میں انگریز کے قدم چومنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس شرمناک صورت حال کا ہلکا سا اندازہ یوں کر لیجیے کہ کم و بیش سارے مسلمان قبائلی سرداروں، خوانین اور جاگیرداروں نے دامے درمے سخنے اس جنگ کے دوران انگریز کا ساتھ دیا۔ خیرپور، قلات، حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مناور اور بھوپال کے مسلمان حکمرانوں نے بھی اپنی جبین نیاز انگریز کے قدموں پر خم کیے رکھی۔
باز گشت کے صفحہ 400 پر لکھے ہوئے اپنے کالم ”بے حسی کا عالم“ میں لکھتے ہیں کہ ہر محاذ پر غیروں کی کامیابی اور اپنی پسپائی، ان کی آسودگی اور اپنی نا آسودگی کے ذکر سے طبعیت بے رنگ اور بے مزہ سی ہو جاتی ہے۔ دل و دماغ سے ہوک سی اٹھتی ہے کہ آخر ہمی اتنے گئے گزرے، بے سمت اور بے منزل کیوں نکلے؟ ہم نے کیوں اپنے اردگرد جھوٹ پر مبنی ایک ایسی مصنوعی فضاء تخلیق کر رکھی ہے، جس کا نہ حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے حال یا مستقبل سے کوئی واسطہ؟
ہم جھوٹ لکھنے، جھوٹ بولنے، جھوٹ سننے۔ اور پھر اس کی تشہیر پر سر دھننے میں مشغول ہیں۔ ہم ایسے قوال ہیں، جو اپنے ہی سر تال پر، خود ہی وجد اور حال میں آ جاتے ہیں۔ نہ تو ہمیں سچائی میں حسن نظر آتا ہے اور نہ حسن میں سچائی! پورا سماج اسی روش کا اسیر ہے۔ جہاں کسی نے اختلاف نظر کے لیے لب کھولے، ہم اسے سنگسار کرنے کو دوڑے! ہم اتنی سے بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھے، جانے، سمجھے اور بوجھے بغیر، نہ تو ہم آج کی دنیا میں کوئی مقام حاصل کر سکتے ہیں اور نہ کسی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔
باز گشت صفحہ 388 پر لکھے اپنے مضمون ”امن کا خواب“ میں لکھتے ہیں کہ اگر قومیں مذہب کے نام پر وجود میں آتی ہیں تو پھر ہم اپنی آدھی قوم تقسیم کے ساتھ ہی واہگہ کے اس پار ہندوستان میں پھینک آئے تھے۔ وسط ہند کے جن مسلمانوں نے اپنی ہڈیوں پر پاکستان کی بنیاد رکھی تھی، ہم نے انہیں عملاً دو قومی نظریے کی تعبیر و تشریح سے ہی خارج کر ڈالا۔ 1971 ء میں بنگال کا اخراج ہوا۔ اور اب بلوچوں، سندھیوں اور مہاجروں پر بھی حسب ضرورت دو قومی نظریے سے انحراف کے فتوے جاری ہوتے رہتے ہیں۔
حالانکہ آج کے پاکستان میں نہ تو کوئی دوسری قوم آباد ہے اور نہ کوئی ایسا مذہب موجود ہے، جس سے ملک کو کوئی خطرہ درپیش ہوا۔ لہٰذا اگر پاکستان بنانے کے لیے ’دو قومی نظریے‘ کا جواز لازم تھا تو آج اسے قائم رکھنے کے لیے ’ایک قومی نظریے‘ کی ضرورت ہے، تا کہ عوام کو ایک قومی وحدت میں ڈھالا جا سکے۔ ہمیں مذہبی سطح پر برداشت کی ضرورت ہے۔ تاکہ مختلف فقہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ امن اور اتفاق سے رہ سکیں۔
ایک ایسا معاشرہ تخلیق کریں، جہاں مختلف زبانوں، علاقوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ برابری اور آتشی کی فضا میں سانس لے سکیں۔ ایک ایسا سماج وجود میں آئے، جو چھوٹی اقلیتوں کے ساتھ مہر و محبت کا سلوک کر سکے۔ ایک ایسی قوم ہو جو اسلام کو نزاع اور فساد کا وسیلہ بنانے کی بجائے اسے اتفاق اور اتحاد کا مرکز بنا سکے۔ ایک ایسا ملک، جس سے نہ چین شکوہ کناں ہو اور نہ ایران! نہ افغانستان کو شکایت کا موقع دے اور نہ ہی ہندوستان کو جنگ کا بہانہ! وہ سب ہمسایوں کے لیے سرمایہ کاری، معیشت اور تجارت کا گڑھ بنے۔
جمہوری کلچر اور اختلاف رائے کا احترام ان کے نزدیک بڑی فوقیت رکھتا ہے۔ ’کیا ہم آسیب زدہ سماج ہیں‘ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ خوفناک روایات چلی ہے کہ جونہی کسی شخص کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہوا، ہم اس کے ذاتی مخالف بن گئے۔ اس کی دلیل کو دلیل سے کاٹنے کی بجائے ہم نے اس کے چہرے پر الزامات کا کیچڑ تھوپنا شروع کر دیا۔ جہاں لاجواب ہوئے، وہاں بات کرنے والے کی پگڑی اچھال دی۔ ہمارے نزدیک ہر قسم کی فکری اور نظری اختلاف کا آخری منظر اپنے مخالفین کی بے رحمانہ کردار کشی میں پوشیدہ ہے۔ مخالف کو بزدل کہہ دو، زر پرست کہہ دو! امریکی ایجنٹ کہہ دو، حکومت کا پٹھو کہہ دو، غدار و کافر لکھ دو، الغرض اسے دنیا کا بد ترین فرد قرار دے دو۔ یہ منفی رویہ آج سماج کے ہر پہلو، ہر حصے اور ہر پرت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
راجہ انور ”سامراج سے آزادی کا واحد راستہ“ میں لکھتے ہیں کہ جب 1970 ء میں پاکستان میں پہلے انتخابات کا انعقاد ہوا تو عوامی لیگ بڑی اکثریت سے انتخاب جیت گئی، لیکن اس دور کی کوتاہ فکر فوجی، سیاسی اور مذہبی قیادت نے فاتح جماعت کو اقتدار دینے کی بجائے الٹا پورے بنگال کو غدار ڈکلیئر کر دیا۔ ہندوستان کے لیے یہ آئیڈیل موقع تھا، چنانچہ وہ ہماری باہمی بداعتمادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے درمیان نفرتوں کو مزید ہوا دینے لگا۔
ادھر سنگینی حالات سے بے خبر ہم ایسے کم فہم اور پر جوش سیاسی کارکن ’دما دم مست قلندر‘ کے سر تال پر تھرکتے پھرے۔ رہی جماعت اسلامی تو اس نے مشرقی پاکستان پر لشکر کشی کو اپنی دعاؤں کا اعجاز گردانتے ہوئے فوراً اپنے گلے میں ’جہاد‘ کا بورڈ لٹکایا اور البدر و الشمس ایسی مسلح تنظیمیں بنانے میں جت گئی۔ اس نے عوامی نفسیات کی پیٹھ پر ہیجان انگیزی کا چابک برساتے ہوئے ملک کے درودیوار، ’الجہاد و الجہاد‘ کے نعروں سے سیاہ کر دیا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف سترہ روز کی جنگ کے بعد پاکستان دو لخت ہو گیا۔
راجہ انور نے بازگشت کا انتساب بالخصوص برصغیر اور بالعموم دنیا بھر کے ان عظیم محنت کش شہداء کے نام کیا ہے، جو نیک نیتی اور محنت کشوں کے نظریہ سے لگن و جنون کی بنیاد پر سیاسی، معاشی اور سماجی انقلابات کی لگن و جنون میں مبتلا، استحصال سے پاک اور انصاف و مساوات پر مبنی انسانی سماج کا سنگ بنیاد رکھنے کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تاریک راہوں ہیں مارے گئے! یقیناً وہ تاریخ میں درخشندہ ستاروں کی مانند آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔
تاریخ کبھی بھی انہیں فراموش کرنے کی فحش غلطی جیسا عمل کرنے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ راجہ انور کے اس انتساب کا اگر ان کی عملی سیاست کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ اس سے یقیناً مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ اپنی عملی سیاست کی ابتدا میں ہی رولنگ الیٹ کی سیاست کے اسیر ہو گئے تھے۔ ہاں ان کی تحریریں ہمیشہ ان کے نظریات کی عکاسی کرتی رہیں اور انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھا اور ملٹی کلاس سیاسی جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی نفاست، شفافیت اور بھرپور محنت کا لوہا منوایا۔
بازگشت 478 صفحات پر محیط راجہ انور کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے 163 مضامین کا مجموعہ ہے جو ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات اور سیاست پر ایک جامع تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ بازگشت کا دیباچہ میرے محترم ساتھی اور آزاد کشمیر سے نامور ترقی پسند راہنما راجہ ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ نے لکھا ہے، جنہوں نے تحریر بولتی ہے کے عنوان سے 14 صفات پر مشتمل باز گشت میں شامل مضامین پر اپنے تاثرات اور راجہ انور کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کی داستان کو بڑی محبت کے ساتھ رقم کیا ہے۔
ان مضامین کو کتاب شکل میں مرتب کرنا راجہ انور کا نئی نسل کے لیے قابل قدر تحفہ ہے، اور ہم سب ان کے بے حد ممنون ہیں۔ چونکہ یہ کتاب ایک خاص مقصد اور موضوع کو مد نظر رکھ کر نہیں لکھی گئی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں توسیع کی گنجائش موجود ہے۔ میری تجویز ہے کہ راجہ صاحب اس کتاب کا اگلا ایڈیشن مرتب کرتے وقت اس میں چند نئے مضامین کا اضافہ کرنے پر غور کریں جو میرے خیال میں آج کے حالات میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں، اور اس کتاب کو ایک مکمل دستاویز بنا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، پاکستان پر سامراجی و نوآبادیاتی تسلط، کیا کیا جائے ؛ ورلڈ بینک و آئی ایم ایف قرضے اور ملکی معیشت پر عالمی کنٹرول؛ جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے جاگیرداری کے خاتمے کی اہمیت؛ کنزیومر اکانومی سے خود انحصاری کا سفر؛ بے لگام دفاعی بجٹ اور ملکی معیشت و خارجہ پالیسی پر اثرات؛ ملٹی کلاس پارٹی اور میرے تجربات؛ بنیادی سماجی تبدیلی اور بالادست طبقات کا کردار؛ وسیع تر ترقی پسند جمہوری تحریک کیسے پیدا کی جائے!
نوٹ: راقم کا یہ مضمون 6 اگست کو برطانیہ کے شہر برمنگھم میں بازگشت کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا۔







Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *