Main Menu

بلوچستان: میں شبیر کی بیوی ہوں یا بیوہ ؟ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے چار سال مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہرہ

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

شبیربلوچ کی بازیابی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔یہ مظاہرہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے رہنماء شبیر بلوچ کی گمشدگی کو چار سال مکمل ہونے کے موقع پر کیا گیا تھا۔

زرمبش اردو کی ويب سائيٹ کے مطابق مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے ساجد گوندل کی گمشدگی کا عدالت نوٹس لیتی ہے لیکن زرینہ اور سیما گزشتہ چار سالوں سے انصاف کے لیے ہر دروازہ کھٹکٹا رہی ہیں ان کی بات کوئی نہیں سنتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے نمائندوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیوں خاموش ہیں ؟ ہمیں اپنے علاقوں کے نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں سے یہی گلہ ہے کہ وہ کیوں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ہم زمین پر موجود ہر شخص سے یہی پوچھتے ہیں کہ وہ گزشتہ چار سالوں میں شبیر کے لیے ایک مضبوط آواز کیوں نہ بن سکیں ؟

انہوں نے کہا کہ شبیر ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سے انہون نے ہزاروں مسائل کا سامنا کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی اور اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے ہمیں یقین دہانی کروائی تھی کہ لاپتا افراد کا مسئلہ سنجیدہ اور ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا لیکن ہم گزشتہ ایک ہفتے سے ان سے ملاقات کی کوشش کررہے ہیں وہ ہم سے ملنا ہی نہیں چاہتے۔

شبیر بلوچ کے لیے اس احتجاجی مظاہرے کی قیادت ان کی بیوی زرینہ کررہی تھیں جنہوں نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر جعلی حروف میں یہ چھبتا ہوا سوال لکھا تھا کہ مجھے بتایا جائے کہ میں خود کو شبیر کی بیوی سمجھوں یا بیوہ ؟

جبری گمشدگيوں کے خلاف مظاہرين احتجاج کر رہے ہيں۔

ياد رہے شبیر بلوچ کو کیچ کے علاقے گورکوپ سے 4 اکتوبر 2016 کو پاکستانی فورسز نے 20 اور لوگوں کے ساتھ حراست میں لے کر جبرا لاپتا کردیا۔ اس وقت ان کی بیوی زرینہ بھی ان کے ساتھ تھیں وہاں وہ اپنے رشتہ داروں ملنے گئے تھے۔شبیر بلوچ کے علاوہ ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے تمام 20 افراد کو بعد میں رہا کردیا گیا۔

اس مظاہرے میں شیر بلوچ کے اہل خانہ کے علاوہ دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے بھی شرکت کی جن میں جبری لاپتا احسان کمبرانی، حزب اللہ کمبرانی ، ڈاکٹر دین محمد ، راشد حسین ، فیروز اور دیگر کے قریبی رشتہ دار شامل تھے۔

بشکريہ زرمبش اردو






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *