Main Menu

یومِ سیاہ، سانحہ بابڑہ (چارسدہ)؛ ترتیب و کاوش : عابد وقار

Spread the love


بارہ اگست کا دن اتنا کربناک دن ہے کہ اسے “پختونوں کی کربلا” کا دن کہا جاتا ہے ـ۔
12 اگست 1948 کے اسی دن پختون کمیونٹی کے خدائی خدمتگاران کہ جن میں بوڑھے بچے جوان اور خواتین شامل تھیں چارسدہ کے بابڑہ میدان میں احتجاج کرنے کےلیے اکٹھے ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ
صوبے میں گورنر نے ایک آرڈیننس ” دی نارتھ ویسٹ فرنٹیر پراونس پبلک سیفٹی آرڈیننس” نافذ کر رکھا تھا جس کی رو سے حکومتِ وقت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے کسی بھی فرد کو گرفتار کر کے غیر معینہ مدت کےلیے حراست میں رکھ سکتی ہے، حراستی شخص کو یہ اختیار بھی حاصل نہ تھا کہ وہ اپنی گرفتاری کسی عدالت میں چیلنج کرے اور اس کے ساتھ جائیداد کی ضبطگی جیسی سزا بھی شامل تھی ـ

صوبے کی بڑی عوامی نمائندہ شخصیات کہ جن میں خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان (باچا خان) ان کے بھائی ڈاکٹر خان، ارباب عبدالغفور اور قاضی عطااللہ وغیرہ شامل ہیں، حکومتی حراست میں تھیں ـ

خان عبدالغفار خان کو 15 جون کو گرفتار کیا گیا تھا اور اگلے ہی روز انہیں بغیر کسی جرم کے “فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن” کے تحت جرگہ نے تین سال قید کی سزا سنا دی تھی،
اس واقعے کے بارے زاہد چودھری اپنی کتاب “پختون مسئلہء خودمختاری کا آغاز” میں لکھتے ہیں کہ
“یہ واقعہ پاکستان میں قرونِ وسطیٰ کی استبدادی نظام کی بدترین مثال تھا کہ ملزم کو صفائی کا موقع نہ دیا گیا، کسی گواہی اور شہادت کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور اس سزا کو کسی اعلیٰ عدالتی یا ایگزیکٹو اتھارٹی کے سامنے اپیل یا داد و فریاد کرنے کی اجازت دینے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا”

اپنے کمیونٹی اور رہنماؤں سے ہونیوالے اس طرح کے غیرانسانی سلوک کےلیے خدائی خدمتگار آج ہی کے دن 12 اگست کو چارسدہ کے میدان بابڑہ مین جمع ہوئے تھے ـ
احتجاج کرنیوالوں نے آپس میں یہ ضابطہ طے کر رکھا تھا کہ وہ احتجاج میں خالی ہاتھ آئیں گے، یہ بات قابلِ ذکر یے کہ سینکڑوں خواتین اور بچے اس احتجاج میں قرآن پاک ساتھ اٹھا کر لائے تھے جس کا مقصد ریاست کے حکامِ بالا کو کلامِ پاک واسطہ دیتے ہوئے تحریک کے بانی اور ساتھیوں کی آزادی کا مطالبہ کرنا تھا ـ

خان عبدالقیوم خان کہ جسے تاریخ میں دوسرا جنرل ڈائر کہا جاتا ہے نے عوام کے اس احتجاج پر پابندی لگاتے ہوئے چارسدہ میں دفعہ 144 نافذ کر رکھی تھی ـ

احتجاج میں شریک ہونے والوں کو مشکل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور شرکت کےلیے آنیوالے مظاہرین جو پولیس کے ہاتھ آ جاتے انہیں دریا میں پھینک دیا جاتا ـ
ایسے سخت حالات کے باوجود ہزاروں نہتے پختون جب بابڑہ گراؤنڈ میں جمع ہوگئے تو سردار عبدالقیوم خان نے پولیس کو ان نہتے پرامن مردوں، عورتوں اور بچوں پر فائر کرنے کا حکم دے دیا ـ

عینی شاہدین کے مطابق پینتالیس منٹ تک پولیس ان نہتے پختونوں پر گولیاں برساتی رہی اور اس دوران زخمی خواتین اور بچے سروں پر کلامِ پاک رکھ کر فائر بندی کی التجائیں کرتے رہے مگر ان سفاکوں نے کوئی رحم نہ کیا،
آخر کار جب ان کے پاس گولیاں ختم ہوئیں اور فائر رکا تو اس وقت تک 637 لوگ موقع پر شہید اور 1300 سے زیادہ زخمی ہوچکے تھے ـ

ظالموں کے کلیجے شاید اتنے ظلم کے باوجود ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے کہ حکومت نے اعلان کیا کہ ان زخمیوں کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں کیا جائے گا اور لواحقین کو لاشیں تب دی جائیں گی جب وہ گولیوں کی قیمت ادا کریں گے …!

اس دردناک واقعے کے بارے فضل رحیم ساقی لکھتے ہیں کہ یہ زخم آج بھی کلیجے پر تازہ ہے کہ جب اس قتلِ عام کے بعد حکومت نے تحصیل چارسدہ کے سارے دیہات کو گولہ بارود ضائع ہونے کی مد میں پچاس ہزار جرمانہ لگا دیا تھا اور خدائی خدمتگاروں میں اکثریت غرباء کی تھی وہ بیچارے اپنے گھروں کی اشیاء سڑکوں پر لا کر منتیں کر کے بیچتے اور اپنے پیاروں کی لاش وصول کرنے کی رقم جوڑتے پھر رہے تھے ـ

اس کے بعد قبیلے کے عمائدین کو سزا کے طور پر کپڑے اتار کر بازاروں میں پھرایا جانے لگا اور لوگ آنکھین بند کر کے دھاڑیں مار کر روتے رہتے، بازاروں میں برہنہ پھرائے جانے کی اس بے توقیری پر بہت سے بزرگوں نے خود سے جانیں دے دیں ـ

ایک طرف اس سانحے کے بعد حسین شہید سہروردی جو ملک پانچویں وزیراعظم تھے نے یہ کہا کہ
‘چارسدہ میں سرخ پوشوں کے وحشیانہ قتلِ عام نے 1919 میں جلیانوالہ باغ میں برطانوی قتل عام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے”
جبکہ مسلم لیگی قیوم خان نے اس پر شرمندگی کے اظہار یا معافی مانگنے کی بجائے پختون عوام کے زخموں پر نمک پاشی ان الفاظ میں کی کہ
” وہ لوگ خوش قمست تھے کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا تھا ورنہ ایک بندہ بھی زندہ نہ بچتا !

اسی ظالمانہ رویے کے پیشں نظر خان عبدالغفار خان اپنی آپ بیتی کا اختتام ان پرشکوہ اور پرددر الفاظ میں کرتے ہیں کہ”
جو سلوک انگریز حکومت ہمارے ساتھ روا رکھتی تھی اس کے مقابلے میں اس اسلامی حکومت نے ہمارے ساتھ دس گنا زیادہ برا سلوک روا رکھا، انگریزوں کے دور میں، میں نے پندرہ برس جیل میں کاٹے اور اسلامی ریاست میں بھی پندرہ برس قید میں گزارے مگر اسلامی حکومت میں مجھے ایسی کوٹھڑی دی گئی جو رات کی طرح گل تھی، قیدِ تنہائی تھی اور مجھے جان بوجھ کر غلط دوائیں دی جاتی تھیں، مجھے دکھ ہے کہ انگریز حکومت اگر ظلم کرتی تھی تو وہ ہماری دشمن تھی ہمارا ان کے ساتھ جھگڑا بھی تھا لیکن اسلامی ریاست میں بغیر کی جرم کی پاداش میں مجھے اور میرے ہزاروں خدائی خدمتگاروں کو قید و بند میں رکھا اور قتل کیا گیا !






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *