“مسئلہ کشمیر” (ناکام سفارت کاری کی ان کہی داستان) کی تقریب رونمائی میں پڑھا جانے والا مقالا توقیر احمد
محترم حاضرین
آج کی ہماری اجتماعی ملاقات آزاد جموں کشمیر کے معروف دانشور اور قلمکار محترم بیرسٹر حمید بھاشانی صاحب کی مایہ ناز تصنیف
“مسئلہ کشمیر”
(ناکام سفارت کاری کی ان کہی داستان) کی تقریب رونمائی کے عنوان سے ممکن ہو پائی ہے
میں تقریب کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
مجھے خوشی ہے کہ ہماری دھرتی ماں کے ممتاز دانشور بیرسٹر حمید بھاشانی صاحب اپنے تاریخی و تجرباتی آرٹیکلز، ٹی وی ٹاک شوز کے علاوہ اپنی تصنیفی خدمات کے ساتھ نسل نو کی شعوری آبیاری کا فریضہ کماحقہ ادا کر رہے ہیں۔
مصنف اپنی جوانی میں اپنی دھرتی ماں کی قومی آزادی کی تحریک میں میدان عمل میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے لیکن وہاں کے بدترین معاشی حالات کے باعث جب کینیڈا تشریف لائے تو وہ قلم و قرطاس کے ذریعے وہاں کے باسیوں سے
جڑے رہے جو ہم سب کے لیئے حوصلہ افزاء اور قابل فخر کارنامہ ہے۔
مسئلہ کشمیر ناکام سفارتکاری کی ان کہی داستان ریاست جموں کشمیر پر پاکستان و ہندوستان کے پالیسی سازوں اور عالمی فیصلہ سازوں کے کردار کا وہ عملی اور مربوط مطالعہ ہے جو کئی کتابوں میں بکھرے و منتشر مواد کو یکجا کرتا ہے
بارہ (12) ابواب پر مشتمل یہ مختصر اور جامع تصنیف گزشتہ 75 سال کے حالات و واقعات کو سمجھنے کے لیئے ایک
سند کا درجہ رکھتی ہے۔
ہم جیسے سیاسی کارکن جو اپنے مخصوص نظریاتی مطالعے اور پس منظر کے باعث تقسیم برصغیر کی کوکھ سے تقسیم ریاست جموں کشمیر جیسے جنم لینے والے قبضے کو اس وقت کی عالمی استعماری طاقتوں کی پالیسیوں کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اس کے لیئے تاریخی مواد اس کتاب میں بخوبی موجود ہے۔
مصنف نے اس کتاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت قلمبند کی ہے کہ برطانوی استعمار کی جانشین عالمی قوت امریکہ نے کیسے ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کو مغرب کے لیئے ایک سود مند ملک سمجھا اور سیٹو سنیٹو او بغداد پیکٹ جیسے عالمی معائدوں میں پاکستانی ریاست کو جکڑ کر اپنے عالمی حریف سوویت یونین کے خلاف اسے استعمال کیا، جواہر لال نہرو اور جنرل ایوب کے دورہ امریکہ کا احوال قلمبند کیا گیا اور پاکستانی معاشرے میں کمیونزم کے خلاف پائے جانے والے عوامی جذبات کو جنرل ایوب کی زبان سے کیسے اگلوایا گیا۔
بظاہر پاک بھارت دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر کو بنا کر ساوتھ ایشیا کو کنٹرول کیا گیا لیکن فوجی سازوساما ن کے استعمال کے لیئے بھارت کے بجائے سوویت یونین کو ٹارگٹ کیا گیا.
ایک طرف بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو فوجی امداد سے نوازہ جاتا رہا اور دوسری طرف چینی انقلاب کے بعد خطے
میں بھارت کوبھی اہمیت دے کر انگیج کیا جاتا رہا۔
یعنی یہ کتاب عالمی طاقتوں کی شطرنج کا کھیل سمجھنے کے لیئے واقعات کی روشنی میں ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ عالمی سیاست میں نہ تو کوئی مستقل دوستی ہوتی ہے اور نہ ہی مستقل دشمنی۔
مسئلہ کشمیر پاک بھارت دشمنی سے امریکی سامراج نے دوہرا فائدہ اٹھایا کہ ایک طرف پاکستان کو استعمال کرکے سوویت یونین کے خلاف سرد وگرم جنگ جاری رکھی گئی اور دوسری طرف چین کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد چین کے مقابلے میں بھارت کی مدد کی جاتی رہی۔
تاہم اس کھیل میں ریاست جموں کشمیر کے پاکستانی مقبوضہ علاقوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو جب امریکہ سوویت یونین کے خلاف فوجی اڈوں کے قیام پر منصوبہ بندی کر رہا تھا تو اس وقت سٹالن کی غیر جانبدارانہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے جس پر محترم مصنف نے بالتفصیل روشنی ڈالی ہے جب کے عالمی فوجی معائدات ہوجانے کے بعد سوویت یونین نے خروشیف کے دور میں جو پالیسی تبدیل کی اس سے بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ آسکی مسئلہ کشمیر پر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین اور چین نے جس طرح اپنے مفادات کا کھیل کھیلا مصنف نے اسکی بہترین
نقشہ کشی کی ہے۔
کتاب کے آخر میں اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے جس میں اول تو اقوام متحدہ نے کبھی بھی اس مسئلہ کو ایک تاریخی جغرافیائی خطے کی مظلوم قوم کے طور پر اس میں دلچسپی نہیں لی اور دوسرا اسے محض ہندوستان پاکستان کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا رہا کیوں کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ کبھی اس کے فریق ہی نہ تھے اور ان قراردادوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 6 کے تحت محض اخلاقی حیثیت سے زائد کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ اس کتاب کے مطالعہ سے چند حقائق جو بہت ابھر کر سامنے آتے ہیں وہ یہ کہ
– گلوبلائزیشن کے اس عہد میں دنیا کی قومیں اپنے مفادات کے لیئے سرگرداں ہیں ناکہ کسی محکوم و مظلوم قوم کی مظلومیت کے حق میں۔
– عالمی بالادست قوتیں نظریات، سیاست، معیشت اور تزویراتی امور میں چھوٹی اقوام کو بری طرح استعمال کرتی ہیں۔
– تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں پورا ساوتھ ایشین ریجن عالمی طاقتوں کی سازشوں کی آماجگاہ اور ان کے لیئے لقمہ تر بن گیا، پاکستان کا بظاہر سرکاری موقف کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا حامی و مددگار ہے صرف دکھاوے کے طور پر ہے جس کے عملی اقدامات کلیتا” اس کے خلاف ہیں۔
– ہندوستان نے ریاست جموں کشمیر کے سربراہ سے عارضی الحاق کرکےاس الحاق کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ریاست پر مستقل قبضہ کر لیا۔
– ہندوستان اور پاکستان دونوں اپنے توسیع پسندانہ عزائم و اقدامات کے نتیجہ میں عالمی طاقتوں کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہوئے۔
– ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک عوامی جمہوری سیاسی بنیادوں پر استوار کر کے نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔
الغرض مسئلہ کشمیر، ناکام سفارتکاری کی ان کہی داستان ان حقائق کو منظر عام پر لایا گیا ہے جو ابھی تک لوگوں سے پوشیدہ تھے مصنف کا اسلوب تحریر انتہائی سہل اور شائستہ ہے جس میں علاقائی اور عالمی واقعات کو بہت عمدگی سے قلمبند کیا گیا ہے۔
یہ کتاب ان نظریاتی دوستوں کے لیئے واقعات کی روشنی میں ایسا سیاسی مواد مہیا کرتی ہے جو دلائل کی دنیا میں غوطہ زنی کرکے جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہاں نظریاتی ڈسکشن اپنے اندر بہت عمومیت اور جنرلائزیشن لیئے ہوتی ہے جسے عملی اور واقعاتی دلائل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
مصنف نے بڑی عرق ریزی سے نظریاتی لوگوں کے لیئے واقعاتی دلائل جمع کیئے ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کی تاریخی، جغرافیائی اور قومی شناخت کے لیئےجدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کو اس کتاب کا مطالعہ بہت سے دلائل مہیا کرنے کا سبب بنے گی-
عاصم خان
ممبر جنرل کونسل سروراجیہ انقلابی پارٹی ریاست جموں وکشمیر
Related News
پالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن سردار انور
Spread the loveپالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن جو آپس میں کسی باتRead More
اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز
Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More