Main Menu

تنازعہ جموں کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادیں؛ تحرير: شفقت راجہ

Spread the love


تنازعہ جموں کشمیر اور اس پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے ان دو اہم ترین اور مقبول ترین موضوعات پر اٹھنے والے پہلے سوال یعنی یہ تنازعہ کیا ہے، اس کا جواب ہمیں لارڈ ماونٹ بیٹن کے مہاراجہ ہری سنگھ کو لکھے اس جوابی خط میں ملتا ہے جس میں اس طے شدہ پالیسی کا یوں اظہار کیا گیا کہ

” ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷
میرے پیارے مہاراجہ صاحب ،
آپ حضور والا کا مورخہ 26 اکتوبر کا خط مسٹر وی پی مینن کے ذریعے مجھے موصول ہو گیا ہے۔آپ حضور والا کے ذکر کردہ خصوصی حالات میں ، میری حکومت نے ریاست کشمیر کا ڈومنین انڈیا کیساتھ الحاق قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مستقل حکومتی پالیسی کے ساتھ کہ کسی بھی ریاست کے معاملہ میں جہاں الحاق کے مدعے پر تنازعہ بن جائے ، تو اس الحاق کے سوال کا فیصلہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہئے ۔ میری حکومت کی یہی خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان بحال ہو جائے اور اس سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے تو ریاست کے الحاق کا مسلہ لوگوں کے (رائے شماری کے) ذریعے ہی حل ہونا چاہئے” …..
یہاں یہ یاد رہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے لارڈ ماونٹ کو لکھے خط میں ریاستی خودمختاری کیلئے اپنے ارادے کا اظہار اور ریاست میں قبائلی حملے سے پیدا ہونے والے انتشار کے بعد فوجی امداد کے حصول کیلئے بھارت سےمشروط الحاق کو مجبوری قرار دیا تھا۔
دوسرے اہم موضوع اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سرا ہمیں اکتوبر 1947 میں ریاست جموں کشمیرمیں دوطرفہ مداخلت کے بعد دسمبر 1947 میں پاک بھارت مذاکرات اور چند اعتراضات سمیت بظاہرسمجھوتے تک لے جاتا ہے جس کا تذکرہ ایلن کیمپبل جونسن کی کتاب “مشن ود ماونٹ بیٹن “ (Mission with Mountbatten) میں اسطرح ملتا ہے کہ
متعدد دوطرفہ مذاکراتی اجلاس کی روشنی میں لارڈ ماونٹ بیٹن کے سرکاری عملہ کے سربراہ ہیسٹنگز اسمے کا تیارکردہ تجاویز پر تقریباً سمجھوتہ ہو گیا جس کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا گیا کہ پاکستان کو باغی آزاد فورسز کو لڑائی بند کرنے اور قبائلی و دیگر حملہ آوروں کو فی الفور کشمیر سے نکل جانے پر آمادہ کرنا چاہئے اور مزید دراندازی روکنا چاہئے۔ انڈیا کو بھی فوجی انخلا کرنا چاہئے اور صرف اس انتشاری صورتحال سے نمٹنے کیلئے اسکی کم سے کم فوج وہاں رہے۔ اقوام متحدہ سے کہا جائے کہ وہ ایک مشن بھیجے جو یہاں رائے شماری کا انعقاد کرے اور اس سے پہلے انڈیا، پاکستان اور جموں کشمیر(حکومت) ایسے اقدامات اٹھائیں کہ آزادانہ اور شفاف رائے شماری کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی قیدیوں کی اعلانیہ رہائی اور مہاجرین کی واپسی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

لارڈ ماونٹ بیٹن کے خط میں رائے شماری کی ضمانت پر عملدرآمد میں تعطل ہی دراصل تنازعہ ہے اور ان پاک بھارت مذاکرات میں اس رائے شماری کیلئے طے شدہ لائحہ عمل ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی شامل ہے اور اقوام متحدہ چارٹر کے چیپٹر چھ (آرٹیکل 35) کے مطابق اس کا اپنا فیصلہ ساز متعینہ کردار نہیں ہے بلکہ وہ تنازعہ کے فریقین کے درمیان صرف مصالحت کار ہے جو انہی فریقین کی متفقہ تجاویز کا گواہ اور انہی کے عملی کردار کا محتاج ہے۔ اسی لئے اقوام متحدہ اپنے تئیں کسی قسم کا کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہا ہے لہذا تنازعہ کے حل کیلئے فریقین کو ہی اپنا روائتی رویہ بدلنا ہو گا، تاہم اقوام متحدہ کے حل طلب عالمی مسائل کی فہرست میں تنازعہ جموں کشمیر کی موجودگی اس امر کی ضمانت ہے کہ اس تنازعہ کی ایک مسلمہ بین الاقوامی حیثیت بھی ہے اور تنازعہ کے تصفیہ تک جموں کشمیر کا جغرافیائی اور آئینی وجود بھی قائم ہے۔ اقوام متحدہ کے موجودہ مصالحت کارانہ کردار کو فیصلہ ساز منصف کے کردار میں بدلنے کیلئے تنازعہ کی سات دہائیوں سے موجود سرحدی اور تزویراتی حیثیت کو انسانی فلاح و بقا اور علاقائی و عالمی امن کی ضرورت میں تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *