سو سالہ شیخ مجیب اور آج کا پاکستان ؛ تجزیہ کار : وسعت اللہ خان
اگر سکول میں پڑھائی جانے والی مطالعہِ پاکستان کی کتاب پر یقین کر لیا جائے تو بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ کبھی کوئی مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا جسے انڈیا نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ یعنی آج کی سکول جانے والی نسل جتنا موہن جو دڑو کے بارے میں جانتی ہے، مشرقی بنگال کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتی۔ اس کے بعد آپ یہ توقع بھی کریں کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں تھوڑا بہت تو جانتی ہو گی تو یہ اس نسل کے ساتھ زیادتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ دیکھیے اگر مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی یا بنگلہ دیش بننے کے اسباب کے بارے میں درسی کتابوں میں تفصیلاً پڑھایا جائے گا تو پھر شیخ مجیب کے ساتھ ساتھ یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن کا بھی تذکرہ کرنا پڑے گا۔
تذکرہ ہوگا تو بچے سوالات بھی پوچھیں گے۔ چنانچہ اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ فرض کر لیا جائے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی مشرقی پاکستان بھی تھا اور پھر اس نے اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا، قصہ ختم۔
آج کل کے سکولی نصاب میں صرف چار بنگالیوں کا تذکرہ ملتا ہے: اے کے فضل الحق جنھوں نے 1940 کی قرار دادِ لاہور پیش کی تھی، خواجہ ناظم الدین چونکہ وہ گورنر جنرل رہے تھے اور حسین شہید سہروردی اور محمد علی بوگرہ چونکہ وہ کچھ عرصے پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے۔
سب سے زیادہ ذکر علامہ اقبال اور محمد علی جناح کا ہوتا ہے۔ جب میں نے شیخ مجیب کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو اچانک مجھے احساس ہوا کہ جناح اور مجیب کی سیاسی زندگی میں کئی مماثلتیں ہیں۔ جیسے جناح شروع میں کٹر کانگریسی تھے، وہ ہندوستانی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان ’ہندوستانیت‘ کی چھتری تلے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ مگر پھر رفتہ رفتہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں الگ قومیں ہیں۔
شیخ مجیب کٹر مسلم لیگی، پارٹی کی طلبا تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنگال کے پرجوش رہنما تھے۔ سہروردی کی سرپرستی میں تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ مگر پاکستان بننے کے ایک سال کے اندر ہی انہیں محسوس ہونے لگا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی بنگال کی سوچ، سیاسی رجحانات، ثقافت اور سماجی ڈھانچے میں خاصا فرق ہے۔
آبادی میں کم ہونے کے باوجود فوج اور بیورو کریسی اور پالیسی سازی میں مغربی پاکستان بالادست ہے لہٰذا نئے ملک کا وفاقی انتظام شاید بہت عرصے تک اس طرح سے نہ چل سکے یا تو یہ نظام تبدیل ہوگا یا پھر ٹوٹ جائے گا۔
پہلا دھچکہ بنگالی یا اردو کے قومی زبان بننے کے جھگڑے سے لگا۔ دوسرا دھکا ون یونٹ نے پہنچایا۔ بنگال نے چھپن فیصد اکثریت کے باوجود وفاق کی بقا کے لیے ون یونٹ کا فارمولا قبول کر لیا۔ انیس سو چھپن کا پارلیمانی آئین بھی متفقہ طور پر بن گیا۔ حتیٰ کہ باقی ملک کی طرح مشرقی بنگال نے بھی پہلے مارشل لا کو قبول کر لیا۔ مارشل لا کے تحت نئے آئین کو بھی قبول کر لیا۔ بنیادی جمہوریت کے نظام کو بھی قبول کر لیا۔ اور اس کے تحت جنوری انیس سو پینسٹھ میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
حزبِ اختلاف کی جس کمیٹی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے پر بہت کوشش کر کے آمادہ کیا، یہ کمیٹی حسین شہید سہروردی کی کراچی کی رہائش گاہ لکھم ہاؤس میں تشکیل پائی تھی۔ اس کمیٹی میں شیخ مجیب الرحمان بھی شامل تھے۔ جن دو افراد نے فاطمہ جناح کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ان میں سے ایک صاحب کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا۔ وہی مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے منتظم بھی تھے۔ اگر آپ اس زمانے کی تصاویر دیکھیں تو ہر جلسے میں شیخ مجیب محترمہ کے آگے پیچھے نظر آئیں گے۔
بنگالیوں نے فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور یہ بات ایوب خان سے ہضم نہ ہو سکی اور ایوب خان کی جیت بنگال سے ہضم نہ ہو سکی۔
مگر اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ستمبر انیس سو پینسٹھ کی جنگ تھی جو اس نظریے سے لڑی گئی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے محاز پر کیا جائے گا۔ اس نظریے نے بطور ایک وفاقی یونٹ بنگال کے احساسِ تنہائی کو مکمل کر دیا اور پھر اس کے ردِ عمل میں اگلے برس چھ نکات کا جنم ہوا۔ مغربی پاکستان کی حکمران قیادت نے ان نکات کو سنجیدگی سے لینے یا ان پر بات کرنے یا کوئی مصالحتی راہ نکالنے یا ٹھوس یقین دہانیاں کروانے کے بجائے اجنبیت کا راستہ اختیار کیا جس کے سبب خلیج بنگال بڑھتی چلی گئی۔
اس کا اندازہ آپ کو صدر ایوب خان کی ذاتی ڈائری پڑھ کے بخوبی ہو سکتا ہے۔ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں:
چوبیس مئی انیس سو سڑسٹھ۔ مارننگ نیوز کے بنگالی صحافی محسن علی نے مجھ سے ملاقات کی اور جاننا چاہا کہ میں مشرقی پاکستان کے حالات کو کس طرح دیکھتا ہوں؟ میں نے کہا کہ میں تو تمام ترقیاتی وسائل فراہم کر رہا ہوں مگر دوسری جانب سے صوبائیت اور علیحدگی پسندی کو ہوا دے کر مغربی و مشرقی بازو کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے اور مرکز کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔وہاں جان بوجھ کر زبان اور ثقافت کو ہندو رنگ دیا جا رہا ہے۔ٹیگور ان کا خدا بن چکا ہے۔ہر شے پر بنگالی رنگ ہے حتیٰ کہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بھی بنگلہ میں ہیں۔ایک مغربی پاکستانی خود کو ڈھاکہ میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔وہ شعوری یا لاشعوری طور پر علیحدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے تشخص کو ہندو مت میں جذب کرنے کے خطرے کو نہیں بھانپ رہے۔
اٹھائیس جون انیس سو سڑسٹھ۔ مشرقی پاکستان کی جانب سے مغربی پاکستان کو بلیک میلنگ کے ذریعے دباؤ میں رکھنے کے رجحان سے کیسے نمٹا جائے۔اس معاملے پر غور کرنے کے لیے آج گورنر مغربی پاکستان جنرل موسیٰ اور وزرا سے ملاقات ہوئی۔اس پر اتفاق کیا گیا کہ مرکز اور مغربی پاکستان کو انتظامی سختی کرنا پڑے گی اور اسمبلیوں اور میڈیا میں مشرقی پاکستان کی عدم وفاداری کو بے نقاب کرنا ہوگا۔عین ممکن ہے کہ جب ان سے کہا جائے گا کہ وہ چاہیں تو پاکستان سے نکل سکتے ہیں، تو یہ سن کر ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
بارہ اگست انیس سو سڑسٹھ۔مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی دوری اور ہندو زبان و ثقافت اپنانے کی کوشش کا سبب یہ ہے کہ ان کی نہ اپنی کوئی زبان ہے نہ ثقافت۔اردو سے ان کا منہ موڑنا ظاہر کرتا کہ وہ برصغیر کی اجتماعی مسلمان ثقافت اپنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ان کی جانب سے دو سرکاری زبانوں کا مسلط کیا جانا پاکستان کے لیے ایک المیہ ہے۔چونکہ ان کے ہاں اسلامی فلسفے پر لٹریچر کی کمی ہے لہٰذا اقبال کی منتخب تحریروں کو بنگلہ میں ترجمہ کر کے بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جائے۔مگر جب تک خود بنگالی اسے فروغ نہیں دیں گے تب تک اس منصوبے کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
اکیس اگست انیس سو سڑسٹھ۔ مشرقی پاکستان پر ملٹری انٹیلی جینس کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں کی پچانوے فیصد آبادی سچی مسلمان اور پاکستانی ہے۔شہری علاقوں میں طلبا، اساتذہ اور دانشوروں کی اکثریت نیپ، عوامی لیگ یا کیمونسٹوں کی حامی ہے لہٰذا انہیں پاکستان سے کوئی لگاؤ نہیں۔عوامی لیگ ایک بنگالی قوم پرست علیحدگی پسند جماعت ہے۔
سات ستمبر انیس سو سڑسٹھ۔ خواجہ شہاب الدین (مرکزی وزیر) نے مشرقی پاکستان کے تفصیلی دورے کے بعد حالات سے آگاہ کیا۔وہ آبادیدہ تھے۔میں نے کہا کہ جو لوگ خود نہیں بچنا چاہتے انہیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔میں نے خواجہ سے پوچھا کہ تم کیا مستقبل دیکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ڈھاکہ کی جائیداد فروخت کر کے مغربی پاکستان منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔میں نے خواجہ صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر حالات بہت برے ہو گئے تو ہم مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کے خلاف لڑنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ضرورت پڑی تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ہم کروڑوں مسلمانوں کو ہندو کی غلامی سے بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
تو یہ تھی ایوب خان کی سوچ ۔ہم سب جانتے ہیں کہ ایوب خان کا بنیادی پس منظر سیاسی نہیں عسکری تھا۔
کیا محمد علی جناح ہندوستان توڑنا چاہتے تھے؟ اگر ایسا تھا تو انہوں نے کیبنٹ مشن پلان کیوں قبول کیا اور پھر مئی انیس سو سینتالیس میں پارٹیشن سے تین مہینے پہلے تک کیوں کوشش کرتے رہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی راہ نکل آئے کہ جس پر چل کر مسلمان اپنے سیاسی حقوق کی ٹھوس آئینی ضمانتوں کے سہارے متحدہ ہندوستان میں رہ سکیں۔ مگر نہرو اور پٹیل نے پاکستان بنوا دیا اور علیحدگی پسند و غدار جناح کو قرار دیا۔
تو کیا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے؟ کیا وہ غدار اور بھارتی ایجنٹ تھے؟ عام پاکستانیوں کو پچیس مارچ انیس سو اکہتر کے بعد سے یہی گھٹی پلائی گئی۔ اس عرصے میں دونوں حصوں کے مابین اطلاعات کی ترسیل کا نظام یحیٰ حکومت کے کنٹرول میں تھا اور سیکریٹری اطلاعات روئداد خان تھے۔
شیخ مجیب کا نام انیس سو اڑسٹھ میں اگرتلہ سازش کیس میں ڈال کر یہ تاثر دیا گیا کہ چھ نکات دراصل انڈیا کے ساتھ مل کر ملک توڑنے کی سازش ہے۔ اس کیس کی سماعت کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بھی تشکیل دیا گیا۔ مگر جب نومبر انیس سو اڑسٹھ میں ایوب خان کے خلاف طلبا تحریک چلی اور اقتدار پر ایوب خان کی گرفت اتنی ڈھیلی ہو گئی کہ انہیں اعلان کرنا پڑا کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے، انہیں قومی سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس طلب کرنا پڑی۔ اور مشرقی پاکستان کی قیادت کو اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی قیمت پر اگرتلہ کیس واپس لے کر ٹریبونل ختم کرنا پڑا۔ اس کے بعد شیخ مجیب کا سیاسی گراف مشرقی پاکستان میں چھت سے لگ گیا۔
ایوب خان کی معزولی سے پہلے تمام سیاستدانوں کا مطالبہ تھا کہ انیس سو چھپن کا آئین بحال کیا جائے۔ مگر یحییٰ حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے باسٹھ کا آئین بھی ختم کر دیا اور لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت بالغ رائے دہی کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کروانے کا اعلان کر کے نیا پینڈورا باکس کھول دیا۔
لیگل فریم ورک آرڈر کی ابتدائی شق یہ تھی کہ صرف وہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہیں جو نظریہِ پاکستان اور پاکستان کی سالمیت پر کامل یقین رکھتی ہوں۔ عوامی لیگ کو اگر چھ نکات سمیت ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملی اور نتائج آنے کے بعد جب یحییٰ خان نے شاہ ایران سے شیخ مجیب کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے مستقبل کے وزیرِ اعظم ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی بار محبِ وطن قیادت نے کسی ملک دشمن، غدار، غیر ملکی ایجنٹ کو وزیرِ اعظم بنانے کا فیصلہ کیا؟
شیخ مجیب کی سات مارچ انیس سو اکہتر تک جتنی بھی تقاریر ہیں، ان میں سے ہر تقریر میں یہ کہا جاتا تھا کہ ہم اپنی قسمت کے مالک خود بننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی تقریر میں انتہائی دباؤ کے باوجود یہ جملہ نہیں ملتا کہ میں آج سے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ اعلان تو آپریشن شروع ہونے کے بعد میجر ضیا الرحمان نے چٹاگانگ ریڈیو سٹیشن پر قبضے کے بعد کیا۔
شیخ مجیب الرحمان کو پچیس مارچ انیس سو اکہتر کو آپریشن سرچ لائٹ شروع ہونے کے اگلے دن ڈاکٹر کمال حسین کے ہمراہ مغربی پاکستان منتقل کیا گیا۔ آپریشن سے ایک دن پہلے ذوالفقار علی بھٹو کراچی ایئرپورٹ پر اترے اور کہا ’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘
بھٹو اور فوجی قیادت اور جماعتِ اسلامی وغیرہ تو چلیے ایک پیج پر تھے مگر مغربی پاکستان کے باقی رہنما اور جماعتیں کیا کر رہے تھے؟
آپریشن سے پہلے اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر جماعتیں مجیب کو اقتدار منتقل کرنے کی حامی تھیں۔ لیکن فوجی آپریشن کے بعد تحریک ِ استقلال کو چھوڑ کے لگ بھگ سب ہی قومی جماعتوں نے زبانی تشویش تو ظاہر کی مگر پھر معنی خیز کنارہ کشی اختیار کر لی۔ چین نواز کیمونسٹ بھی خاموش رہے۔
البتہ جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے آپریشن کے خلاف کراچی میں ایک چھوٹا سا جلوس نکالا اور دو چار گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ انفرادی سطح پر ملک غلام جیلانی (عاصمہ جہانگیر کے والد) لاہور کے مال روڈ پر فوجی آپریشن کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے تنہا کھڑے رہے۔ آئی اے رحمان، طاہر مظہر علی خان، وارث میر اور روزنامہ آزاد سمیت چند ہی نام ہیں جو مخالفت کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ باقی سب کو سانپ سونگھ گیا۔
حالانکہ انیس سو ستر کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے تو مغربی پاکستان میں درجن بھر امیدوار کھڑے کیے تھے مگر پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا۔ مگر آپریشن شروع ہونے کے چھ ماہ بعد ستمبر انیس سو اکہتر میں عوامی لیگ کے روپوش ارکانِ اسمبلی کی خالی نشستیں پُر کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کے ضلعی مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کے دفاتر میں سیٹوں کی بندر بانٹ ہوئی تو اس میں پیپلز پارٹی نے بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس پر ناخوشی ظاہر کی کہ سیٹوں کی تقسیم میں مغربی پاکستان میں کامیابی کے تناسب کا خیال نہیں رکھا گیا۔
شیخ مجیب کو آپریشن کے بعد ڈھاکہ سے ساہیوال جیل اور پھر لائل پور منتقل کیا گیا جہاں انہیں لائل پور ٹیکسٹائیل مل کے ایک کوارٹر اور اس سے متصل تہہ خانے میں رکھا گیا۔ ان پر ملک دشمنی اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ شیخ صاحب نے ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا۔ مگر ان کی جانب سے اے کے بروہی کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔
یہ ٹریبونل کب ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، اس میں کیا کارروائی ہوئی، اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ بس اتنا ہوا کہ بیس دسمبر کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور دس جنوری انیس سو بہتر کو ایک خصوصی پرواز سے شیخ مجیب الرحمان اور ڈاکٹر کمال حسین کو لندن روانہ کر دیا گیا جہاں سے وہ براستہ دلی ڈھاکہ پہنچ گئے۔
فروری انیس سو چوہتر میں شیخ مجیب الرحمان کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اہلِ پاکستان نے آخری بار محبِ وطن یا غدار کے بجائے ایک آزاد ملک کے وزیرِ اعظم کے روپ میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھا۔ اس کے بعد سے باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ میں سے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی کہیں غروب ہو گیا۔
(اس مضمون کی تیاری میں آئی اے رحمان، ڈاکٹر جعفر احمد اور زبیر رحمان سے کی گئی گفتگو نے بنیادی مدد کی)
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More