تقسيمِ رياست کے حقائق، رياست جموں کشمير کے عوام کو اپنے حقوق کيليے اُٹھنا ہو گا، انتخاب: زاہد خان
برٹش انڈین ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد 565 ریاستوں کو دو نئے بننے والے ممالک میں سے ایک کے ساتھ Merge کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
ریاست جوناگڑھ، حیدرآباد اور گووا۔
جو کہ ڈائریکٹ برٹش کے کنڑول میں نہیں تھیں۔
ریاست جموں کشمیر معاہدہ امرتسر اور معاہدہ لاہور کے تحت وجود میں آئی تھی جس کی اکثریت مسلمان تھی۔
ریاست جوناگڑھ میں ہندو اکثریت اور بادشاہ محبت خان مسلمان تھے۔
ریاست حیدرآباد بھی اسی طرح مسلمان بادشاہ نظام اور اکثریت غیر مسلم تھی۔
ریاست گووا تقریبا” 450 سالوں سے پرتگال کے زیر کنٹرول تھی جو کہ 1961 میں جنگ کے بعد بھارت کے قبضہ میں آئی۔
اور 1974 میں پرتگال نے تسلیم کیا۔
پاکستان نے رائے شماری کی مخالفت کی تھی کیونکہ پاکستان کی نظر حیدرآباد اور جوناگڑھ پر تھی جن کے حکمران مسلماں تھے۔
* اس لئے انکو پتہ تھا کہ یہ پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے اور عوام بھارت کے حق میں۔جوناگڑھ اور حیدرآباد پوری کی پوری ریاست پر بھارت نے قبضہ کر لیا اس لئے جموں کشمیر اور ان ریاستوں کو میں فرق ہے۔
کیونکہ جموں کشمیر پر بھارت اور پاکستان دونوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔معاہدہ قائمہ پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان نے جب سہولت کاروں سے مل کر قبائلیوں کے حملے سے جموں پونچھ کے مسلمان اکثریت کے علاقے میں قتل و غارت کی اور ہندوؤں اور سیکھوں کو بھاگنے پر مجبور کیا۔حتی کہ قبائلی لشکر سرینگر میں مہاراجہ کے ٹھکانے کے تک پہنچ گیا تھا اور مہاراجہ نے اپنی جان اور رہی سہی ریاست کو بچانے کیلئے بھارت سے مدد کی اپیل کی بھارت نے مہاراجہ کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جواب میں معاہدے کی چند شرائط کے ساتھ حامی بھری۔
جو مہاراجہ کو مجبورا” قبول کرنی پڑیں اور 26 اکتوبر پر معاہدے پر دستخط کر لئے۔ جو کہ کرنسی دفاع، مواصلات و خارجہ امور کے علاوہ ریاست بااختیار تھی۔
معاہدے کے بعد 27 اکتوبر کو بھارتی فوج نے کشمیر میں داخل ہو کر قبائلی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔
جب بھارت نے پاکستان پر مداخلت کا الزام لگایا تو پاکستان نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ لشکر کا تعلق جموں کشمیر سے ہے اور یہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت ہے ہم ملوث نہیں ہیں۔
اس پر بھارت مسئلے کو اقوام متحدہ لے گیا۔جہاں پاکستان کی مداخلت کے ٹھوس ثبوت پیش کیئے گئے جس کی وجہ سے پاکستان کو ماننا پڑا۔
اسکے بعد کمیشن نے جنگ بندی پر دونوں ممالک کو پابند کیا اور جنگ بندی ہوگئ۔
اسکے بعد کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ریفرنڈم کا طریقہ کار بتایا دونوں ممالک کو اور تجاوز کرنے سے منع کیا۔
بھارت اگر معاہدہ ہونے کے باوجود بجائے خود کہ* اگر مہاراجہ کو مقدمہ پیش کرنے کیلئے *وفد کا نگران بنا کر اقوام متحدہ بھیجتا یا لے جاتا تو جموں کشمیر ہی بنیادی فریق ہوتا اور جموں کشمیر کی صورتحال کچھ اور ہوتی۔
دوسری طرف انگریزوں کی چال دیکھو کہ ایک طرف لارڈ ماؤنٹ بيٹن
بھارت کے گورنر جنرل اور جنرل روۓ بُچر(Roy Bucher) جنرل روبر لاک ہارٹ (Rober Lockhart) آرمی چیف تھے اور دوسری طرف گورنر جنرل قائد اعظم اور آرمی چیف فرينک ميسر وی تھے جنہوں نے جارج کيننگم ، ميجر خورشيد انور اور میجر جنرل سید اکبر کے ساتھ مل کر ایک طرف قبائلی لشکر تیار کر کے حملہ کروایا اور دوسری طرف جب مہاراجہ نے بھارت سے فوجی مدد مانگی تو بدلے میں ماؤنٹ بٹن نے ہی الحاق کی شرط رکھی۔
گلگت سکاؤئٹ کے نگران ميجر براؤن نے ایک اہم کردار ادا کیا جب انہوں نے گوررنر * گنسارا سنگھ کو مجبور کر کے اپنی Custody میں لیا۔
ریاست کی قانونی حیثیت 22 اکتوبر کو ہی قبائلی حملے کی صورت میں تبدیل ہوئی اس کے بعد 26 اکتوبر اور 27 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کی صورت میں تبدیل ہوئی۔ پھر معاہدہ کراچی کی صورت میں گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کرنے کی وجہ متاثر ہوئی۔ جب جموں کشمیر کا آئین بن رہا تھا تو پاکستان نے مخالفت کی اور اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ جس کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اس کا اطلاق تنازعہ جموں کشمیر پر نہیں پڑے گا۔
پاکستان کی آئین کی مخالفت نے شیخ عبداللہ اور جموں کشمیر کی لیڈر شپ اور بھارت کو غصہ دلایا۔ یہی وجہ تھی جب کہ بھارت نے کشمیر کی لیڈر شپ کے ساتھ مل کر آئین ساز اسمبلی کی جگہ قانون ساز اسمبلی کی بنیاد رکھوائی اور وزیر اعظم کی جگہ وزیر اعلی شامل کیا گیا*
اور آئین میں کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کرلیا گیا۔
اسکے بعد جب شیخ عبداللہ کو برطرف کیا گیا اس وقت بھی قانونی حیثیت متاثر ہوئی۔
پھر شملہ معاہدے نے ایک بین القوامی مسئلہ کو دوطرفہ مسئلے میں تبدیل کردیا گیا*
اور پھر 5 اگست کو مودی گورنمنٹ نے 370 اور 35A کو ختم کر کے اسکی حیثیت کو اور متنازعہ بنایا۔
اب جموں کشمیر تمام تر معاہدوں سے پاک ہے کیوں کے اس کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی خود قابض ممالک کی طرف سے ہوئی ہے۔
5 اگست کے بعد پاکستان نے پراکسی وار کی وجہ سے 30 سال سے ایک پوری نسل کو قربان کرنے کے بعد وادی کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی ان کے ساتھ صرف کھڑے رہنے کا بیان دے کر کیا۔
جس کی وجہ سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی ملی بھگت سے دو اطراف جموں کشمیر کے لوگوں پر کرفیو کریک ڈاؤن، جبرو تشدد اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔
5 اگست 2019 کو ابھی ایک سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے 4 اگست 2020 کو پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح جموں کشمیر کے لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ جموں کشمیر کی زمیں کو چین کے ساتھ مل کر ہتھیانے پر تلا ہوا ہے!
اور بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈیل کر کے عملا” جموں کشمیر کا سودا کرچکا ہے۔
پاکستان کا اپنے زیر قبضہ جموں کشمیر کو اپوزیشن اور فوج کے ساتھ مل کر اپنے نقشے میں شامل کرنا اور لداخ کو نقشے سے باہر رکھنا یعنی چین کو کھلی چھٹی دینا کہ اگر آپ بھارت سے جنگ کر کے لے سکتے ہو تو یہ تمھارا ہے بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جموں کشمیر کو پالاٹ کرکے بیچنا چاہتا ہے۔
پاکستان اس سے پہلے بھی ایک بڑا علاقہ چین کے حوالے کرچکا ہے۔
پاکستان کے اس عمل سے نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو پوری بات اب سمجھ آجانی چاہئے!
گلگت بلتستان میں شیڈول 4 کا نفاذ اینٹی ٹیرریسٹ ایکٹ کے ذریعے لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر لوگوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں۔
بابا جان اور انکے ساتھیوں کو 40، 40 سال کی سزائیں دی گئی ہیں!
اور قیدیوں کو علاج اور بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
قیدیوں کو پاکستان کے جیلوں میں منتقل کیا جارہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
بھاشا ڈیم کی ڈیمارکیشن میں آنے والے مالکان کو زبردستی بغیر معاوضہ کے اپنی زمینوں سے بیدخل کیا جارہا ہے۔ اس حقیقت کے بعد اب پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔
اور نام نہاد آذاد کشمیر کے لوگوں کو پاکستان کو بڑے بھائی کی جگہ ایک قابض پڑوسی ملک تسلیم کرنا ہوگا!
اور اپنے لیے حق کی آواز بلند کرنی ہوگی۔
اپنے وسائل کی لوٹ مار کے خلاف سڑکوں پر آنا ہوگا۔
جموں کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی مسئلہ ثابت کرنا ہوگا!
اس کے لئے PNA میں شامل اور باہر تمام آذادی پسند جماعتوں اور لوگوں کو مل کر اپنے وسائل کی بندر بانٹ کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی !
اس سے پہلے کہ نام آذاد کشمیر کے باشندوں کو مری،ایبٹ آباد اور جہلم کی کسی تحصیل کا حصہ بنایا جائے اپنے وسائل اور حقوق کیلئے آواز اٹھانی پڑے گی!
گلگت بلتستان اور آزادکشمیر پر مشتمل آئن ساز اسمبلی کے مطالبے کو بھرپور انداز میں پیش کرنا ہوگا۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے درمیان زمینی راستے کی بحالی کا مطالبہ کرنا ہوگا۔
ڈیمز کی رائلٹی نہیں بلکہ حصہ داری کا مطالبہ کرنا ہوگا۔
سیز فائر لائن کے دونوں اطراف آبادی والے علاقوں سے توپخانوں کو ہٹانے اور گولا باری کی روک تھام کے خلاف قابض ممالک پر دباؤ ڈالنا ہوگا!
اس سلسلے میں حکمت مظفرآباد پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ GHQ سے بات کرے کہ وہ ہاٹ لائن پر بھارتی افواج سے سیز فائر لائین کے ساتھ علاقوں میں مقیم آبادی کو نشانہ نہ بنانے پر دوطرفہ سمجھوتہ کرے ۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More