Main Menu

سلاطین ہند اور سیکولرنظام مملکت،انسان دشمن فسادی جاہل مولوی

Spread the love

سلطان التمش (12ویں صدی) کے زمانے میں ترکستان سے آئے مولویوں اور مقامی ہندوستانی مولویوں کا کافی زور ہوگیا۔ چنانچہ انہوں نے کفرواسلام کا مسئلہ چھیڑ دیا، ملاوں کا کہنا تھا، کہ ہندو نہ اہل کتاب ہیں نہ زمی شرع میں تو ان کے لئے ایک ہی حکم ہے، کہ وہ اسلام کو قبول کریں ورنہ قتل کردیئے جائیں۔ یہ مطالبات لے کرمولویوں کا ایک وفد سلطان التمش کے پاس گیا۔ سلطان نے اپنے جہاندیدہ وزیر نظام الملک جنیدی کو اشارہ کیا، چنانچہ مولویوں کو کہا گیا، اسلام کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کا قائل نہیں، اور بفرض محال ہندووں کا قتل جائز بھی ہو تب بھی میرے پاس اتنی تلواریں نہیں، جس سے لاکھوں کروڑوں ہندووں کا سرقلم کیا جا سکے۔۔ اگر ہندو بغاوت پر آمادہ ہوگے، تو ہم پورے ملک میں ان کے ساتھ کیسے مقابلہ کریں گے۔

التمش کے بعد جب اس کی بیٹی رضیہ سلطان تخت پربیٹھی، تو مولویوں نے ایک بار پھر فساد شروع کردیا۔ التمش نے رضیہ سلطانہ کواپنے بیٹے پرترجیح دی تھی، وہ مردانہ لباس پہنتی تھی، پردہ نہیں کرتی تھی۔ لیکن آج سے ساڑھے چھ سو سال پہلے بیٹی کو تخت پربٹھانا التمش کی روشن خیالی کی دلیل تھی۔ ترک سرداروں نے مولویوں کے ساتھ مل کر رضیہ کے خلاف بغاوت کردی۔

اسی طرح سلطان غیاث الدین بلبن کوبھی مولویوں کی خبیث فسادی فطرت کا ادراک تھا۔ وہ ان کی تنگ نظریوں سے واقف تھا۔ اس نے مولویوں کو امور مملکت میں مداخلت کی کبھی اجازت نہ دی۔ وہ علما کے مشوروں اور شرع پر عوام کے مفاد کو ترجیح دیتا۔ اور اعلانیہ کہتا کہ امور مملکت سیاسی مصلحتوں کے پابند ہیں۔ نہ کہ شرع اور فقہا کے۔ بلبن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس کے بیٹے لکھنا پڑھنا سیکھ گے، تو درباری ملازموں نے بادشاہ سے عرض کی کہ شہزادوں کو فقہ کی بھی تعلیم دی جائے، بلبن نے جواب دیا، مولویوں کو انعام و اکرام دے کر دربار سے رخصت کردیا جائے۔ شہزادے بغداد سے آئی کتابیں ‘ آداب سلاطین’ پڑھیں گے۔ تاکہ وہ تاریخ اور سیاست کا علم حاصل کریں۔

علاالدین خلجی بلبن پربھی سبقت لے گیا، وہ مذہبی مولویوں اور قاضیوں کے بارے کہا کرتا تھا۔ ان میں رموز مملکت کی کچھ سمجھ نہیں ہوتی۔ سلطنت کے قواعد بنانا بادشاہ کا کام ہے۔ شریعت اور ملاوں کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ بلبن کو بھی ایک بار مولویوں نے کہا، کہ ہندووں کے مال و اسباب پرقبضہ کرلے اور ان کو غلام بنا لے۔۔ خلجی نے بھی مولویوں کی حرکتوں سے بیزار ہو کر ایک نئے مذہب کو شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

اسی طرح محمد تغلق سے بھی مولویوں کو شکائت رہی کہ بادشاہ عقل کو شریعت پر ترجیح دیتا ہے۔ اور اپنا بیشتر وقت فلسفہ و حکمت کی کتابوں میں گزارتا ہے۔ اس نے مولویون ، پیروں سے نجات پانے کی یہ ترکیب سوجھی، کہ ان کو جبرا’ کشمیر، دکن، بنگال بھجوا دیا جائے اور وہ دور دراز علاقوں میں جا کرتبلیغ کریں۔ علاالدین خلجی کی طرح محمد تغلق بھی ایک نیا مذہب بنانا چاہتا تھا۔ لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

مختصرا’ سلاطین دہلی کی برابر کوشش رہی، کہ مولویوں کو ریاست کے معاملات میں مداخلت سے باز رکھا جائے۔ ریاست کا تقاضہ تھا، کہ ہندووں کی صلاحتیوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور انکی دل آزاری نہ کی جائے۔ سلاطین کے زمانے میں تجارت ، روپیہ کا لین دین، اورمحکمہ مال کا حساب کتاب ہندو ہی کرتے تھے۔ بعض لائق ہندووں کو صوبیداری ، وزارت اورفوج کی سالاری بھی سونپ دی جاتی۔

(افسوس ہے، ہمارے جنرلوں نے آج 21 ویں صدی میں ریاست کو اسلام کا قلعہ اور مولویوں کو سیاسی، حکومتی، ریاستی، تعلیمی ہر شعبے میں غلبہ دے رکھا ہے۔ جب کہ ایک ہزار سال پہلے کے مسلم سلاطیں سمجھتے تھے کہ ریاست کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے)

(ماخوز سبط حسن۔۔ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا)






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *