Main Menu

کروٹ ڈيم: رياستی عوام کو کچھ نہيں ملے گا!!

Spread the love

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے پچیس سو میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے، پانچ ہزار میگاواٹ سے زائدکے منصوبہ جات زیر تکمیل ہیں،جبکہ اس خطے کی کل ضرورت محض چار سو میگاواٹ کے قريب ہے۔ وفاق کی جانب سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو 2.57روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ جبکہ عام صارفین کو واپڈا ٹیرف کے مطابق تیرہ سے بیس روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ دریائے جہلم پربننے والے کروٹ ہولاڑ ڈیم سے پیدا ہونیوالی بجلی سے پاکستان کے شہروں کو تو ایک روپیہ فی یونٹ تک بجلی فراہم کی جائے گی۔ لیکن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو اس ڈیم سے پیدا ہونیوالی بجلی سے کیا حاصل ہو گا۔ اس سے متعلق کسی طرح کی کوئ معلومات نہيں جبکہ آزاد حکومت کے مطابق ابھی معاہدہ ہونا باقی ہے۔ دریائے جہلم پر دونوں اطراف درجن سے زائد پن بجلی کے چھوٹے اور بڑے ٹیموں کے منصوبے تعمیر ہو چکے ہیں یا زیر تعمیر و زیر بحث ہیں۔ لیکن دونوں اطراف ان ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی اور پانی کے استعمال سے پاکستان اور بھارت کی حکومتیں کشمیریوں کو کوئی حصہ نہیں دے رہی ہیں۔ بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے زیر تکمیل اور تکمیل شدہ ڈیموں کے مقامی حکومت سے معاہدہ جات بھی تاحال نہیں ہو سکے ہیں۔ منگلا سمیت ان تمام پن بجلی منصوبہ جات کے سوئچ یارڈ اور گرڈ اسٹیشن بھی پاکستان کے علاقوں میں لگائئے گئے ہیں۔ جبکہ تمام ڈیموں کے نام بھی پاکستان کے علاقوں کے نام پر ہی رکھے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نصف سے زائداراضی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی استعمال ہوگی، انفراسٹرکچر اس خطے کاتباہ ہوگا، ماحولیاتی تباہی کے اثرات براہ راست اس خطے پر پڑھیں گے اور سب سے بڑھ کر دریا کا پانی اس علاقے سے آتا ہے۔ اس سب کے باوجود کچھ بھی اس علاقے کے لوگوں کو میسر نہیں آسکے گا۔
علاقہ مکینوں کے مطابق اراضی کے حصول کے وقت ان کے ساتھ یہ وعدہ کیاگیا تھا کہ منصوبہ کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مزدور اور منصوبے کی تکمیل کے بعد اس میں پیدا ہونیوالی ملازمتوں میں مقامی آبادیوں کو ترجیح دی جائیگی۔ لیکن منصوبے کے تعمیراتی کام میں ہی پنجاب اور پاکستان کے دیگر صوبوں سے مزدوروں کو بھرتی کیاگیا ہے اور مقامی آبادی بالخصوص پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لوگوں کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ڈیم کی تعمیر کیلئے معاہدہ جات

28ستمبر 2016ء کو پاکستان کی وفاقی حکومت اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے چینی گروپ آف کمپنیز کے ساتھ تعمیلی معائدہ پر دستخط کئے۔ اس معائدہ کے تحت کروٹ پاور کمپنی نومبر2020ء تک اس منصوبہ کی تکمیل کرے گی۔ جبکہ اگلے 30سال تک منصوبے کا تمام انتظام و انصرام اپنے پاس رکھتے ہوئے 7.57پیسہ فی یونٹ کے حساب سے پاکستان کی وفاقی حکومت اسلام آبادکو بجلی مہیا کرے گی۔ وفاق یہ بجلی 1روپیہ فی یونٹ کے حساب سے پنجاب کی صوبائی حکومت کو فروخت کرے گا۔ جبکہ 30سال بعد یہ اثاثہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی ملکیت میں چلا جائے گا۔ 20اپریل 2015ء کو چین کے صدر ژی جن پنگ نے پاکستان کا دورہ کیا۔سلک روڈ فنڈ، چائنا تھری گورجز کارپوریشن(CTG) اورپاکستان پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) نے اس دوران دونوں ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں پاکستان میں ہائیڈرو پاور کی صلاحیت بڑھانے کے لئے مشترکہ یادداشت پر دستخط کئے۔ سلک روڈ فنڈ اور سی ٹی جی پاکستان میں ”کلین انرجی“ نامی منصوبہ جات پرسرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ سلک روڈ فنڈ کے مطابق کل 46بلین ڈالرز کے فنڈز میں سے کروٹ پاور پراجیکٹ پہلی سرمایہ کاری ہے۔ کروٹ پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ(KPCL (دریائے جہلم پر 720میگاواٹ کاہائیڈروپاور پراجیکٹ تعمیر کر رہی ہے۔ یہ کمپنی چائنا تھری گورجز کارپوریشن(CTG) کے ماتحت کام کرتی ہے۔ پراجیکٹ کی اپنی ویب سائٹ www.karotpower.com کے مطابق اس منصوبے سے اوسطاً سالانہ 3206گیگا واٹ ہاؤر اور ماٹ میکڈونلڈ کی رپورٹ کے مطابق 3436گیگا واٹ ہاؤر بجلی پیدا ہو گی۔
یاد رہے کہ کروٹ ہائیڈرو پاورپراجیکٹ 1980ء سے زیر غوررہا ہے۔ 1983ء اور 1994ء میں بالترتیب کینیڈین اور جرمن کمپنیوں کی طرف سے اس پاور پراجیکٹ پر رپورٹس کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کو سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ تاہم اس پیش کش پر حکومت پاکستان نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا تھا۔
جہلم دریائے سندھ میں گرنے والے دریاؤں میں سب سے بڑا دریا ہے۔ یہ دریا پاکستان کے ضلع راولپنڈی کو مغرب اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو مشرق کی طرف تقسیم کرنے والی بارڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ کروٹ منصوبہ اسلام آباد سے 65کلو میٹر اور منگلا ڈیم سے 74کلو میٹر کی دوری پر مشرق میں دریائے جہلم پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔
کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے دریائے جہلم کے آس پاس2500ایکڑ رقبہ استعمال کیا جائے گا۔ منصوبہ کے ذریعے زمین اور گھر زیر آب آنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں گجر خاندان کی آبادی خصوصی طور پر متاثر ہوں گے۔ ڈیم منصوبہ میں پاکستان کے ضلع راولپنڈی،تحصیل کہوٹہ اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے دو اضلاع کوٹلی اور سدھنوتی کے 16 گاؤں متاثر ہوں گے۔ جن میں دریا کے بہاؤ کی طرف دائیں جانب راولپنڈی کہوٹہ کے کروٹ، گوراہ روجن،بیور،اوترنا، سوہا،ناڑ، بندلا،تھون، پرندلاواقع ہیں۔ جبکہ دریاکے بائیں جانب ضلع کوٹلی کے گاؤں ہولاڑ اور ضلع سدھنوتی کے تہریاڑ،آئن پانا، سیاہ پورہ، خان آباد، پتن شیر خان اور آزاد پتن شامل ہیں۔ کروٹ اور ہولاڑ کے زیر آب آنے کی وجہ سے 74 خاندانوں کے 700سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ جبکہ دیگر گاؤں کے112خاندانوں کے تقریباً ایک ہزار افراد کو اپنی زمینوں سے محروم ہونا پڑے گا۔78کمرشل انٹرپرائزز، دو سکول،چار مساجد، ایک پولیس چوکی، ایک محکمہ جنگلات کی چوکی،دو کنکریٹ پل،دو سسپنشن برج، 1100کلو واٹ کے کچھ کھمبے اور ایک ہائیڈرو لاجیکل گیجنگ اسٹیشن متاثر ہو گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *