جلائے گئے خیمے کے مکیں : حبیب رحمان
ایک تصویر سوشل میڈ یا پر نظر سے گزری اور اس پر تبصرے پڑھنے کو ملے کس ڈھٹھائی سے مرنے والے کی مدا سرائی کی جا رہی تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس قافلے کے سپہ سلار کو اس کی زندگی میں کس دشنام سے نہیں گزرنا پڑا کس کس طرح کی کردار کشی نہیں کی گئی ۔ جب اس خیمے کو چاروں طرف سے اگ لگائی جا رہی تھی۔ اگ لگانے والوں میں اس قافلے کے صف اول کے وہ سپاہی بھی شامل تھے جن کو اس چاک گریبان شخص نے اپنے لہو سے سینچا تھا ۔ وہ شخص بہت چیخا کہ یہ خیمہ نہیں یہ تمہارا مستقبل ہے اپنا مستقبل نہ جلاو ۔ لیکن حملہ اوروں نے کب اس کا احساس کرنا تھا۔ سو انھوں نے اس خیمے کو اگ لگا دی خیمہ جلا دیا گیا پھر بڑی دھوم سے فتح مند ہونے کی منا دی کر دی گئی۔ لیکن وہ شخص بے دست و پا ہونے کے باوجود اس جلے ہوئے خیمے میں بیٹھ گیا جلے ہوئے ٹکرے جوڑنے میں لگ گیا ۔خیمہ جلانے والے گو کہ بہت شادماں تھے لیکن یہ لٹا ہواشخص نہ تو گبھرایا نہ ہی مایوس ہوا کرچیا کرچیا چن کر ایک نا مکمل کمزور سا خیمہ پھر تعمیر کر گیا ۔
حوصلے اور امیدیں شعور اور فکر کو مرنے نہیں دیتی کیونکہ اس لٹے پٹے خیمے سے دریوزہ گروں کی انکار کی اواز بند نہیں ہوئی۔ انکار کی اواز ارہی ہے اس کا مظلب یہ ہے کہ شعور اور فکر نے ہار نہیں مانی۔
Related News
پالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن سردار انور
Spread the loveپالستانی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے انمول رتن جو آپس میں کسی باتRead More
اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز
Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More