میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟مہرجان
تاریخ فلسفہ میں اسپرٹ (روح) کو عمومی طور پر مذہبی اور اسطوریاتی
(Religious & Mythological)
پس منظر سے دیکھا گیا ، اس لیے بہت سے فلاسفر اسپرٹ کو مختلف معنی دیتے رہے ، کسی نے اسے مائنڈ ، کسی نے سائکی تو کسی نے اسے میٹا فزیکل کہا اور سب سے بنیادی بات کہ انہی بنیادوں پر اسے فلسفہ اور تاریخ فلسفہ سے تقریباً الگ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ہیگل ہی کے بدولت ممکن ہوا کہ “سائنس آف لاجک” میں اسپرٹ منطقی نقطہ نظر سے سامنے آیا اور کسی بھی قوم کے لیے جس طرح اس قوم کے ضابطہ حیات ، سماجی اقدار و ثقافت لازمی اجزاء ہیں ، بالکل اسی طرح فلسفہ کے لیے اسپرٹ کو لازمی قرار دے کر منطقی صورت میں پیش کیا گیا ۔
شاہد اسی بناء پر لینن نے کہا کہ ہیگل کے فلسفہ سے اگر ایبسیلوٹ کو نکال دیا جائے تو وہ مادیت پسند فلاسفر کے طور پہ سامنے آتا ہے ، یہی بات دوسرے الفاظ میں ھیگل کی لاجک کے بارے میں مارکیز نے کہا کہ وہ صوری لاجک کے برعکس مادی لاجک زیادہ ہے جہاں دوئی کا تصور نہیں ہے۔ھیگل کو پڑھتے وقت ھیگل کے پورے فلسفیانہ نظام کو سامنے رکھنا از حد ضروری ہے ، اسی لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ھیگل منطق کو “فلسفہ تاریخ “ کی دنیا میں دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ ایک تاریخی عمل کی دنیا جہاں اسپرٹ پروان چڑھتی ہے ۔اگر یہ تاریخی عمل (تاریخی سفر ) قومی حوالے سے ہو تو قومی اسپرٹ کہلاتی ہے ۔اب اگر کوئی قومی مفکر قومی اسپرٹ کی بات کرے جیسا کہ بابا مری نے کہا کہ “بلوچ قوم میں اسپرٹ ہے “۔
اسے میٹافزیکل ڈومین میں دیکھنے کی بجائے تاریخی حرکت میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ میں “تِھنگ ان اٹ سیلف” سے “تھنگ فار اٹ سیلف” تک تاریخ کے جدلیاتی عمل میں اپنا اظہارکررہی ہوتی ہے ، اسے گر ایپسلوٹ سے بقول لینن جوڑ کر نہ دیکھا جائے تو اسپرٹ کا یہ اظہار ، تاریخی عمل کی پیداوار ہے جو اصل میں مادیت پسندی کا شاہکار ہے۔
بابا مری کا یہ قول کہ“بلوچ قوم میں اسپرٹ ہے” دراصل اسی بات کی غمازی ہے کہ تاریخی عمل ان کے سامنے تھا اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بغیر اسپرٹ کے قوم کی حیثیت ہجوم یا گروہ سے بڑھ کر نہیں ہوتی ، اس لیے تاریخی عمل میں یہ اسپرٹ ہی ایک “ہجوم” کو “قوم” بناتی ہے۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ بابا مری ہمیں ہاتھوں سے پکڑ کر تاریخ کے سفر پہ لے جاکر تاریخی عمل میں قومی اسپرٹ کے عملی مظہر کو خاموشی سے دکھا رہا ہوتا ہے کہ دیکھئے نیچر میں کسی بھی قوم کے تاریخی سفر میں اسپرٹ کا اپنے آپ پہ منکشف ہونا کیونکر ممکن ہے اور یہی اسپرٹ کا جوہر ہے جو اپنے آپ پہ منکشف ہوتاہے۔
جو لوگ شناخت کو امیجری ، یا تجرید کے طور پہ لیتے ہیں تو ان کی مثال وہی ہے جو اسپرٹ(روح) کو اساطیری و مذہبی پس منظر میں دیکھ رہے تھے جسے بعد کے فلاسفرز نے تاریخی حرکیات کی روشنی میں منطقی صورت میں سامنےلائے اور رسل کا ھیگل کی لاجک پہ جو بنیادی اعتراض تھا کہ ھیگلین منطق ، منطق کم میٹا فزکس زیادہ ہے اپنی اہمیت آپ کھو دیتا ہے کیونکہ ھیگلین لاجک میں واقعیت (ایکچوئیلیٹی) کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔جسے بہت سے فلاسفرزنے نظرانداز کیا تھا ۔
اب جس طرح فلسفہ کی بنیاد “اسپرٹ” ہے بلکل اسی انداز میں ایک قوم کی بنیاد بھی اس کی اسپرٹ ہوتی ہے جو قوم کے ارتقائی سفر اور تاریخی تشکیل کےمراحل میں اپنے آپ پہ منکشف ہوتی رہتی ہے۔ نیشنل کلچر اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ بغیر اسپرٹ کے ایسے ہی بے معنی اور ادھورا ہوگا جیسا کہ ھیگل کی دی ہوئی مُورت کی وہ مثال جو اپنی تمام تر رنگینیوں کے باوجود بے معنی ہوگی گر اس کے تقدس کو علیحدہ کردیا جائے وہ صرف ایک رنگین مُورت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
بابا مری جب بلوچ قوم میں اسپرٹ کی بات کرتے ہیں دراصل وہ یہی بتانا چاہ رہے ہیں کہ کالونائزر کسی بھی قوم کو چاہے جتنا بھی رنگین خوش گپیوں میں مصروف حال رکھے وہ مُڑ کے یہی کہے گا کہ “آزادی” اسپرٹ کے لیے آزادی کا کوئی نعم البدل نہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی اور حال میں بلوچ قوم کی وحدت تقسیم کا شکار رہا ہے ، لیکن اس کے باوجود باہر کی دشمن یعنی کالونائزر کے حملوں کا جواب اپنی حکمت عملی کی بنیاد پر دیتےرہنا ہی اسی “قومی اسپرٹ “ کا مظہر ہے ۔ بابا مری کے پاس جب ایک ملاقاتی (اثر رسوخ رکھنے والا ) اس غرض سے گیا کہ مجھے اپنے ساتھ قومی جہد میں شریک کار کرلیں تو بابا کا جواب تاریخی تھا کہ “دشمن کو آپ بھی جانتے ہو اور دشمن کو میں بھی جانتا ہوں آپ اپنے انداز سے ماریں میں اپنے انداز سے مارتا ہوں“۔ اس ایک جملہ میں جنگی حکمت عملی کا اک بیش بہا خزانہ موجود ہے۔
بلاشبہ وحدت و اتحاد اپنی جگہ اک ناگزیر عمل ہے جو “تاریخی عمل میں کسی نہ کسی شکل میں ہوکر رہے گا” لیکن جب تک وحدت ناممکن دکھائی دے رہی ہو اس وقت بجائے آپس کی رنجشوں کو ہوا دینے سے بہتر ہے کہ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنی مزاحمت کا حق کسی بھی میدان میں ادا کرے ۔ یہی مزاحمت آپس کی رنجشوں، ٹوٹ پھوٹ کے باوجود گر کسی نہ کسی شکل میں مختلف مراحل میں جاری و ساری رہی تو تاریخی عمل اپنے تضادات اور اسپرٹ کی بدولت وحدت کی جانب بڑھے گی۔یہی وہ قومی اسپرٹ ہے جو اپنے آپ پہ قومی ارتقائی مراحل اور تاریخی سفر کی تکمیل کیلیے مزاحمت کی بدولت منکشف ہوکر آزادی کی طرف گامزن ہے۔
نو آبادیاتی نظام کی ترقی کے سنہرے خواب اور تمام مصنوعی رنگینیاں اس اسپرٹ کے سامنے بے معنی ہوجاتی ہے کیونکہ جنہیں آپ خواب دکھا رہے ہوتے ہیں وہ بھی مڑ مڑ کر بقول سردار عطاء اللہ مینگل یہی کہتا ہے کہ” میں آپ سے خوش نہیں ہوں“۔ قومی اسپرٹ کا اظہار تاریخی عمل کے تمام تر نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہونے کی نشانی ہے۔قبضہ گیر ہر اُس جگہ گولی داغنے (سیاسی، ثقافتی اور نظریاتی دائرہ کار میں)کیلیے بندوق تان لیتا ہے جہاں قومی اسپرٹ کا اظہار یا اسکی نمائندگی کی کوئی صورت دیکھ لیتا ہے ۔ھیگل جب یہ کہتا ہے کہ جوہر ہر شے اور ہر جاہ پایا جاتا ہے تو قومی جوہر ہی قومی اسپرٹ ہے جو کسی قوم کے افراد کو اپنے آپ سے ، اپنی زمین سے ، اپنی جہد سے جوڑ دیتا ہے اور ایک قوم بناکر پیش کرتا ہے۔ اسی لیے نوآبادیاتی حکمرانوں کے لیے سردار اور شوان (چرواہا) اپنی قومیت کی وجہ سے ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ریاستی سردار اپنی اسپرٹ کو معدوم کرکے جتنا بھی نوآبادیاتی حکمرانوں سے ہم سری کرنے کی کوشش کریں۔ وہ انہیں اپنے پاؤں کے نیچے ہی رکھتے ہیں ، ایک بار کسی سردار صاحب کو وزیر اعلی بنایا جاتا ہے ، اور جب چاہیں اُسی سردار کو کان سے پکڑ کر نکال دیتے ہیں ، بقول ایک بلوچ سیاسی راہنما کہ معتوب سردار کو گالی دے کر کرسی پہ بٹھایا اور گالی دے کر اٹھایا جاتا ہے۔ اب مڈل کلاس کی کیا اوقات ہے؟ ڈھائی سال وزارت اعلی کے خاتمہ پہ جب انہیں کان سے پکڑ کر نکال دیا گیا تو بعد ازیں وہ خود یہ اعتراف کررہے تھے کہ “ہم نے روم کے غلاموں کی طرح حکمرانی کی ہے” ۔
اگر آج کسی سردار کو وفاداری کرنے پہ پانچویں کرسی سے اٹھا کر چوتھی کرسی پہ یعنی کچھ قریب کرکے بٹھایا جاتا ہے تو یہ ہلکی سی قربت بھی آپ کی نو آبادیاتی حکمرانوں سے وفاداری کے برعکس اس قومی مزاحمت کی عطاء ہے جو جاری و ساری ہے۔ جس کی آپ مذمت کرتے ہیں۔البتہ اس سارے معاملے میں نوآبادیاتی حکمران رعایت حق ایلیٹ کلاس کو زیادہ دیتی ہے کہ وہ اپنے ہی بھائی کو زیادہ دبا سکے ، اور نوآبادیاتی حکمرانوں کے سامنے جی حضوری کرتا رہے۔
اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ تین سردار جو دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے انہیں جلد یا بدیر اپنے وجود کا شعور ہوا۔ اپنے وجود کے احساس یا قومی احساس سے قومی اسپرٹ ابھرتی ہے جونہی کسی بھی قوم کی اسپرٹ معدوم ہونے لگتی ہے تو وہ قوم اپنی ہی زمین پہ رہ کر اپنے آپ سے بیگانہ ہوجاتی ہے ، اسی بیگانگی کو ھیگل سے لے کر مارکس ، مارکس سے لے کر لوکاش تک نے مختلف نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ لیکن ایک نیشنلسٹ کے لیے اس کا اسپرٹ کا ختم ہونا ہی اس کی بیگانگی ہے ، وہ وطن زادہ رہ کر بھی وطن کا نہیں رہتا ، وہ بھلے اپنی رنگین خیالی دنیاؤں کی سیر کرتا پھرے لیکن اس وطن زاد کی آہ بکاء، ماؤں و بہنوں کا احتجاج (جو اس اسپرٹ کو مختلف انداز میں زندہ رکھنے کیلیے مصروف عمل ہوتے ہیں۔) اسے جھنجوڑتا رہے گا۔
اب وہ اور اس کی ضمیر چاہے ہوا کے دوش پہ انسانیت کے گیت گا کر اپنے آپ کو تسلی دے یا پھر وطن زادوں کے ساتھ مزاحمت کی راہ اپنا کر اپنی اس بیگانگی کو دیوانگی میں بدل دے ۔ انسانیت کے گیت ، انسانیت کا درد شاید ہی بابا مری سے بڑھ کر کسی میں ہو لیکن بلوچ قوم کی حقیقی روح بھی اگر کسی نے دیکھنی ہے تو بابامری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے کہ انسانیت کا کرب اپنے سینے میں لے کر وہ کس طرح مزاحمت کی راہ اپنا کر نہ صرف اپنے آپ کو اس بیگانگی سے بچاتا ہے بلکہ پوری قوم کو تاریخی عمل میں دیوانگی کی یہ راہ دکھائی کہ اسی دیوانگی میں دانشمندی کی خمیر چھپا ہوا ہے جہاں اسپرٹ پورے جاہ و جمال کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔
اسپرٹ کا بھرپور انداز میں فنکشنل یا ایکٹیو ہونا ہی آزادی کی ضمانت ہے ، چاہے اس کے لیے رستہ کوئی بھی ہو لیکن بقول بابا مری “نیت آزادی کی ہونی چاہیے” ۔کیونکہ قومی آزادی انسانیت کی آزادی کی طرف پیش قدمی ہے ، اسی اسپرٹ کو فریب نظر کے بدولت معدوم دیکھ کر بہت سے بلوچ راہنماؤں نے مزاحمت کی بجائے نو آبادیاتی پارلیمنٹ کا مستقل حصہ بنتے رہے ۔
Related News
اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز
Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور آئی ایس آئی کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
Spread the loveپاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور آئی ایس آئی کے ہاتھوںRead More