Main Menu

امریکی مداخلت کے چرچے تحریر: پرویز فتح، لیڈز

Spread the love

گذشتہ تین ہفتوں سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک ہیجان کی کیفیت طاری ہے، اور ملکی سیاسی معاملات میں امریکی مداخلت کے چرچے ہو رہے ہیں۔ ہفتہ 9 مارچ کی شب تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے معزول ہونے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف متحدہ اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اچانک انکشاف کیا کہ اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ایک خطرناک بیرونی سازش کا حصہ ہے۔ اگلے ہی روز اتوار 27 مارچ کو اسلام آباد میں اُن کا جلسۂ عام تھا جِس میں اُنہوں نے ایک سفید کاغذ لہراتے ہوئے کہا کہ اُن کے خلاف پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد کے پیچھے ایک گہری سازش ہے، جس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ لیٹر اُن کے خلاف بنائی گئی غیر ملکی سازش کا دستاویزی ثبوت ہے۔ گویا کہ اُن کے مطابق بیرونی سازش کے لیے خط لکھا گیا ہے۔ اگلے روز ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے زبان پھسلنے کے تاثر دیتے ہوئے کہہ ڈالا کہ یہ سازش امریکہ کی جانب سے رچائی گئی ہے۔ بعد ازاں مذید تفصیل میں جاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ پاکستانی سفیر کا خصوصی ڈپلومیٹک کیبل، یعنی حساس سفارتی چینل کے ذریعے بھیجا گیا تحریری مراسلہ ہے، جو تقریباً بیس روز قبل آیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان امریکہ مخالف سینٹیمنٹ کے ساتھ ساتھ اِن دنوں مذہبی کارڈ بھی بڑے دہڑلے کے ساتھ کھیل رہے ہیں، اور وہ بھی اس بات کا احساس کئے بغیر کہ مذہبی کارڈ تو سامراجی ممالک اور ہماری بیوروکریسی کا ملک میں جمہوری عمل اور عوامی حقوق کی آوازوں کو دبانے کے لیے سب سے موثر اور مہلک ہتھیار ہے۔ امریکہ کے خلاف اُٹھنے والی اِن وسیع تر آوازوں کو سن کر میرے جیسے سامراج دشمن کو خوشی ہونا تو ایک قدرتی عمل ہے، لیکن مجھے اپنے بچپن کا زمانہ بھی یاد آ گیا ہے، جب میں نے ٹوبہ ٹیک سنگھکے دُور افتادہ اور انتہائی پسماندہ گاؤں میں جنم لینے اور پرورش پانے کے باوجود اپنی زندگی کے پہلے نعرے، امریکی سامراج مردہ باد، امریکی پٹھو ہائے ہائے سیکھے تھے۔ یہ 1967ء کا زمانہ ہے اور اُس وقت میری عمر 6 پرس تھی اور دوسری جماعت میں پڑہتا تھا۔ اپنی عمر کے اُس حصے میں مجھے اِس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ میں نے ایک پھٹا پرانا کچھا پہنا ہوا ہے اور پاؤں میں جوتے تک نہیں ہیں، پر میں ہل کے نشان والا سُرخ پرچم تھامے کسانوں کے اجتماعات میں آگے آگے نعرے لگاتا جاتا تھا، امریکی سامراج مردہ باد، امریکی چمچے ہائے ہائے۔ اسی دوران ایک روز بیل گاڑی پر بیٹھ کر چک 309 گ ب میں کسانوں کے ایک بڑے جلسے میں گیا تو وہاں سید مطلبی فریدآبادی، چوہدری فتح محمد اور سید قسور گردیزی جیسے نامور کسان راہنما بتا رہے تھے کہ کِس طرح امریکی سامراج نوآبادیاتی نظام کے ذریعے اور مقامی اشرفیہ اور بیوروکریسی کی مدد سے ہماری آزادی کو سلب کیے ہوئے ہے اور جاگیردار اور سرمایہ دار ہمارے ملک کے کسانون، مزارعوں اور کھیت مزدوروں کا خون نچوڑتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُس جلسے میں پنجابی کے نامور شاعر سائیں عمر دین، جن کی آواز کوئل جیسے گونجتی تھی، بڑے ترنم سے اپنا کلام پڑھ رہے تھے، امریکہ عیش اُڑاوے، بینکاں فرماں خوب چلاوے، ساڈے دیش نوں لُٹی کھاوے او سائیں لوکا جُگنی کہندی اے۔
بڑے ہو کا کالج اور یونیورسٹی پہنچے تو سی۔آر۔اسلم، عابد حسن منٹو اور انیس ہاشمی جیسے مارکسی دانشوروں کی صحبت نصیب ہوئی، اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا تو سمجھ آئی کہ برِصغیر سے برطانوی سامراج کے جانے کے بعد نمودار ہونے والی اِس ریاست نے کِس طرح سے اپنے عوام کو عالمی سامراجی یلغار اور نوآبادیاتی ریاستی ڈہانچے کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ عوام کی غلامی قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک جاری ہے، اور طبقاتی استحصال مختلف شکلوں میں بڑہتا ہی جا رہا ہے۔ ہر آنے والا حکمران فرسودہ نظامِ حکمرانی سے نجات کے نعرے تو لگاتا ہے اور دعوے بھی کرتا ہے، مگر اقتدار میں آ کر صرف بالا دست طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اِس کی بدولت وقت کے ساتھ غربت، نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے اور عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام کی بے چینی دہائیوں سے جاری ظلم کے باعث عروج پر ہے۔ مذیب کے نام پر ہونے والی زیادتیوں سے سماج کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سیاسی جماعتیں اِس سب کچھ کو نہ سمجھنے اور نہ ہی تبدیل کرنے کے صلاحیت رکھتی ہیں۔ عمران خان کا پونے چار سال پر مشتمل دورِ اقتدار عوام پر ڈہائے جانے والے ظلم، جبر اور استبداد میں کسی صورت بھی کم نہ تھا اور اُس نے بھی اُنہی طبقات کو نوازا اور لوٹ گھسوٹ و استحصال کے نظام کو تحفظ فراہم کیا۔
حالیہ امریکی مداخلت کے دعوؤں اور پسِ پردہ حقائق کا بغور جائزہ لیں تو 9 اور 10 اپریل کی درمیانی رات معزول ہونے والے وزیراعظم عمران خان کی سیاسی ساکھ گذشتہ ایک برس سے مسلسل گِر رہی تھی، جِس سے ایک طرف پی ٹی آئی کی پونے چار سالہ حکومت میں انتہائی ناقص کارکردگی، آئی ایم ایف کی انتہائی سخت شرائط پر وسیع پہمانے پر بیرونی قرضے لینے، اور اُن سے ملک میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان، معیشت کی زبوں حالی، بڑہتی ہوئی بےروزگاری، گورننس اور شفافیت میں مکمل طور پر ناکامی، اور خارجہ پالیسی کی مکمل طور پر ناکامی نے عوام میں مایوسی پیدا کر دی تو دوسری طرف اُن کی اپنی ہی پارٹی میں بے چینی بڑھنے لگی۔ جن الیلکٹ ایبلز پر وہ ہمیشہ فخر کرتے تھے، اُنہوں نے حسبِ معمول متبادل کی تلاش کرنا شروع کر دی تھی۔ بلا شُبعہ یہ بے چینی اُنہیں اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمنٹ، ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں، عالمی بلاک میں حکومت کے آقاؤں اور خطے کے ممالک، بلخصوص عوامی جمہوریہ چین میں سی پیک کے مستقبل بارے بڑہتے ہوئے خدشات جنم لے رہے تھے، اور اُن میں بےچینی مسلسل بڑھ رہی تھی۔ درحقیقت یہی وہ حالات تھے جنہوں نے اپوزیشن کو اپنے سیاسی اور ذاتی اختلافات بھلا کر مشترکہ حکمتِ عملی کی راہ اپنانے پر مجبُور کیا اور عمران خان کی حکومت پر وار کرنے کا راستہ دکھلایا۔ انہی حالات میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم عتماد پیش ہوئی تو اچانک عمران خان نے ایک عوامی اجتماع میں سفید پیپر لہرتے ہوئے سامعین کو بتلایا کہ یہ عدم اعتماد در اصل غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے، جِس کے خلاف ثبوت میرے ہاتھ میں ہیں، اور ہم اُسے بے نقاب اور ناکام بنا دیں گے۔
جِس خط کے چرچے ہو رہے ہیں وہ ایک ڈپلومیٹک کیبل یا پھر حساس سفارتی مراسلہ ہے جو اُس وقت امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر سفیر مسٹر اسد مجید خان نے سفارتی اصولوں کی روشنی میں دفترِ خارجہ کو بھیجا تھا۔ عام طور پر ایسے مراسلوں کا مقصد دوسرے ممالک سے ڈپلومیٹک تعلقات میں بہتری لانے کے لیے ملکی ترجیحات کا جائزہ اور مستقبل کا لحہ عمل طے کرنے میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اب تک جو خبریں موصول ہوئی ہیں اُن کے مطابق گزشتہ ایک برس سے تنزلی کے شکار پاک امریکہ تعلقات کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے پاکستانی سرکار اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی تھیں، جِس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستانی سفیر مسٹر اسد مجید خان نے کوشش کر کے امریکی دفتر خارجہ کے متعدد ارکان سے ملاقاتیں کیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات مارچ کے پہلے ہفتے میں امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا مسٹر لونلڈ لو سے طے ہوئی جِس میں اُس نے پاکستان کے سفیر کو بتایا کہ اُن کی حکومت کو عمران خان پر بالکل اعتماد نہیں رہا، کیونکہ وہ ایک دن ایک بات کرتا ہے اور دوسرے دن اُس کے الفاظ اور ٹون بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔ ایسے میں اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست کہاں کھڑی ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُنہون نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ عمران خان پاکستان کے ریاستی اداروں سے مشاورت کیے بغیر ہی روس سے دوستی بڑھا رہے ہیں، جو امریکا کو پسند نہیں اور ایسے حالات میں ہم اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وہ دوبارہ غور کریں گے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کِس حد تک بحال ہو سکتے ہیں۔
جب تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے حالات بن گئے اور عمران خان کے اتحادی اور اُس کی اپنی پی پارٹی کے ناراض ممبرانِ پارلیمنٹ بھی اُن کے خلاف کھڑے ہو گئے تو اُن کے پاس اس سفارتی مراسلے کا استعمال واحد امید رہ گیا۔ اُنہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غیرجانبداری کے دعوؤں کو اپنے حق میں استعمال کرنے اور اُن پر دباؤ ڈالنے کے لیے نیسنل نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس بلایا اور 5 گھنٹوں تک اُن کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ مراسلہ غیر ملکی سازش کا ثبوت ہے۔ لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اصرار کیا گیا تھا کہ اِس مراسلے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جسے مداخلت کہا جائے اور محض قیاس کی بنیاد پر اِسے ایک منظم سازش نہیں کہا جا سکتا۔ اِس اجلاس میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ پاکستان میں امریکی سفیر کو دفترِ خارجہ بلا کر ایک سفارتی مراسلہ دیا جائے، کیونکہ جو کچھ بھی امریکی انتظامیہ کی جانب سے پیغام یا تاثرات کی صورت میں کہا گیا تھا، وہ پاکستان کیلئے نامناسب اور ناقابلِ قبول ہے۔ سفارتی امور میں دفترِ خارجہ کی جانب سے اِس قسم کا مراسلے جاری کیا جانا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ سنجیدہ حلقے یہی سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال میں جب ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں، پی ٹی آئی نے اسے سیاسی معاملہ بنا لیا ہے اور مخالفین کو غدار قرار دے کر سیاسی فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے تا کہ آنے والے انتخابات میں اینٹی امریکہ سینٹیمنٹ کا فائدہ اُٹھایا جا سکے۔
موجودہ صورت حال خاصی پیچیدہ ہے اور مسلسل تبدیل ہو رہی ہے تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ عمران خان کی طرف سے سامنے لائے گئے اس مبینہ سفارتی مراسلے کی اندرون ملک یا پھر بیرونی ذرائع سے غیر جانبدار تصدیق نہیں ہو سکی۔ بلا شُعبہ اِس سارے عمل نے ملک کی داخلی سیاست میں غیر ملکی طاقتوں کو براہ راست ملوث کرنے سے پاکستان کے خارجہ مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ نو منتخب وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں اُس خط پر پارلیمنٹ کو آن کیمرہ بریفنگ دینے اور شفاف تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان یقیناً قابلِ ستائش ہے اور اِس سے متنازعہ مراسلے کی حقیقت، اہمیت اور اصلیت کو جاننے میں مدد ملے گی اور ملک کو اِس ہیجان کی کیفیت سے نکالنے کا موقع فراہم کرے گی۔

پاکستانی حکمرانوں کی امریکہ نوازی کوئی ڈہکی چھپی بات نہیں اور مجھے پوری طرح یاد ہے کہ جب عمران خان نے اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو وہ امریکہ نوازی میں اتنے آپے سے باہر ہوئے گئے تھے کہ اُنہوں نے اپنی امریکہ یاترا کو ورلڈ کپ جیتنے جیسی کامیابی قرار دیا تھا۔ چند ہفتے قبل جب اسلام آباد میں او آئی سی وزراؕئے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو اُس کانفرنس میں عمران خان نے خود امریکی اسسٹینٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کو دعوت دی تھی اور 24 مارچ کو اُسی اسسٹینٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک امریکہ تعلقات کے شامیانے بجائے تھے۔ یہ مراسلہ تو مارچ کے پہلے ہفتے میں آیا تھا اور اگر یہ اِس قدر اہم تھا تو عمران خان نے خود 21 مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی او آئی سی کانفرنس میں امریکہ کے انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ کو کیوں مدعو کیا تھا۔ کانفرنس کے بعد سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریسی نے تو امریکہ کے انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر تصویر شیئر کرتے ہوئے اِس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم باہمی اور مشترکہ علاقائی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے ایک باقاعدہ اور منظم بات چیت کا عمل جاری رکھیں گے، اور ہم اِس سال سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منانے کے منتظر ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان برِصغیر کے بٹوارے سے لے کر آج تک نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑا ہوا ھے۔ مقامی طور پر اس کے اتحادی اسٹیٹسکو برقرار رکھنے والی قوتیں, یعنی جاگیردار, وڈھیرے, اشرفیہ اور اسٹیبلشمنٹ ہیں, جنہوں نے اب مذھبی کمیونٹی کو اپنے ساتھ ملا کر اُسے ہتھیار بنا لیا ھے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک یہاں پر نہ تو کوئی حکومت امریکی سامراج اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور مفادات کی ضمانت کے بغیر بنی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی حکومت ا ُن کی مرضی کے بغیر تبدیل ہوئی ہے۔ عمران خان کا سفارتی مراسلہ تو پونے چار سالہ دورِ حکومت میں ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا ایک بہانہ ہے, کیونکہ عمران خان کا اقتدار میں آنا بھی سامراجی ایجنڈے اور اسٹیبلشمنٹ کا مفادات کے تحفظ کے تحت ہی ممکن ہوا تھا، جِس کے مطابق چین کی مدد سے بننے والے سی پیک منصوبے کو روکنا تھا, یا پھر اس کی رفتار کو بہت محدود کرنا تھا, جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا نواز شریف اور اسحاق ڈار کی جانب سے اضافی دفاعی فنڈز میں رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے پہلے دو تین سال اچھے بچوں کی طرح بیرونی اور اندرونی آقاؤں کے دیئے گئے روڈ میپ کے مطابق گزارے, اور فیض یاب رہا۔ جب مہنگائی کے طوفان اور ڈلیوری میں ناکامیوں کا ملبہ آقاؤں پر ڈالنے اور مذاحمت کرنے لگا تو انجام کو پہنچ گیا۔
عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ صرف امریکہ کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے بلکہ جدید نوآبادیاتی نظام کے تحت غلامی ہے۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ھے کہ وہ موجودہ ملکی ڈہانچے میں رہتے ہوئے ہی سیاست کرنا چاہتا ہے اور جاگیرداروں طبقہ اور اشرفیہ کے مفادات کی سیاست ہی کو درست مانتا ہے، جِس میں شاہ محمود قریشی جیسے انسان قابض ہیں۔ یہ وہی شاہ محمود قریشی ہے جو نامور سوشلسٹ راہنما اور عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر عابد حسن منٹو کے لینڈ ریفارمز کو ضیاء دور میں غیر اسلامی قرار دیئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری مقدمے میں پاکستان کے جاگیرداروں اور قبائیلی سرداروں کی جانب سے پیروی کرتا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان کے جاگیرداروں کی سیاسی جماعت اقتدار ہی ہوتی ہے، کیونکہ انہوں نے اسٹیٹسکو کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ یہ لڑائی لمبی ہوئی تو ایسے لوگ عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر نئی صف بندیاں کرنے لگ جائیں گے اور اسے اکیلا چھوڑ جائیں گے۔ بالآخر عمران خان ائر مارشل اصغر خان کی طرح سیاسی منظر نامے سے دوُر ہوتا جائے گا۔









Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *