Main Menu

تیسری سوشلسٹ کانگریس اور نئی صف بندی

Spread the love

تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

قیامِ پاکستان کو 74 برس گزر جانے کے باوجود ہمارا وطن شدید معاشی، سماجی اور نظریاتی تضادات کا شکار ہے۔ برطانوی سامراج کے جانے کے بعد نمودار ہونے والی اِس ریاست نے اپنے عوام کو عالمی سامراجی یلغار اور نوآبادیاتی ریاستی ڈہانچے کے شکنجے میں جکڑے رکھا۔ گو کہ عوام کی غلامی شروع دِن سے جاری ہے، تاہم سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد سامراجی صف بندیوں اور سرمایہ دارانہ معیشت میں تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے اندرونی مسائل بڑھتے چلے گئے ہیں۔ ہر آنے والا حکمران فرسودہ نظامِ حکمرانی سے نجات کے نعرے لگاتا ہے، مگر وقت کے ساتھ غربت، نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آج ہمارے ملک میں طبقاتی استحصال مختلف شکلوں بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام کی بے چینی دہائیوں سے جاری ظلم کے باعث عروج پر ہے۔ ملک میں جاری بدترین پدرشاہانہ روایات کے نتیجہ میں لڑکیوں اور عورتوں کی زندگیاں اجیرن ہو گئی ہیں، اور مذہب کی آڑ میں ہونے والی زیادتیوں سے سماج کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سیاسی جماعتیں اِس سب کو نہ تو سمجھنے کی اور نہ ہی تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جبکہ ملک کا سب سے طاقتور ادارہ فوج ہے، جِس نے اپنے تسلط کو بیرونی آقاؤں کی مدد سے مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا ہے۔ ملک میں محنت کرنے والے کسان، مزدور، درمیانے طبقے کے پیشہ ور افراد، خواتین، اقلیتوں اور مظلوم قوموں کی اس ظلم و جبر سے نجات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

اِنہی گھمبیر حالات اور مایوسی کے بڑہتے ہوئے سائے میں پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کے باہمی انضمام سے وجود میں آنے والی عوامی ورکرز پارٹی نے 13۔12 مارچ کو لاہور میں اپنی تیسری کانگریس منعقد کی ہے، جِس میں ملک بھر سے منتخب ہو کر آنے والے 550 مندوبین اور 200 کے قریب مبصرین شریک ہوئے، جن میں راقم سمیت برطانیہ سے سات رکنی وفد بھی شامل تھا۔ کانگریس میں شامل خواتین اور جوجوانوں کی بڑی تعداد اور اُن کا ولولہ دیکھ راقم کو احساس ہوا کہ اب حالات تیزی کے ساتھ مثبت سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اِس کانگریس نے نئی لیڈرشپ کے انتخاب بھی کیا اور ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ سرائیکی وسیب، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور برطانیہ کی پارٹی سے 53 ممبران پر مشتمل پارٹی کے اعلیٰ ترین ادارے، فیڈرل کمیٹی کا انتخاب بھی کیا۔ یہ کانگریس ایسے حالات میں منعقد ہوئی جب پاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور انتظامی مسائل نے سنگین بحران کی شکل اختیار کر لی ہے، ریاست کے اندر کئی ریاستیں پیدا ہو چکی ہیں اور طاقت کے کئی مرکز بن چکے ہیں۔ حکمران اشرفیہ اور اُن کے نمائندہ حکمران آپس میں گُتھم گتھا ہیں اور وہ عوام کو کوئی رلیف دینے کی بجائے اُن کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ اگر اِس صورتِ حال کا تدارک نہ کیا گیا تو ملک مزید تباہی و بربادی سے دوچار ہوگا، اور عوام پر مزید مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔

بائیں بازو کی سیاست میں پارٹی کانگریس ایک انتہائی سنجیدہ سیاسی عمل تصور کیا جاتا ہے، خاص کر ایک ایسی پارٹی کے لیے جس کا منتہائے مقصود ملک میں مسلط فرسودہ معاشی ڈہانچے کو توڑ کر وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر سوشلزم کے نظام کی تعمیر سے ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام ہو۔ ایسی کانگریس بلا شُبعہ پارٹی میں نیا خون متعارف کراتی ہے اور کارکنوں میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کرتی ہے۔ اُن کو ملکی و عالمی صورتِ حال و معیشت، اپنے سماج کا طبقاتی تجزیہ، سرمایہ داری کا عالمی بحران، سائینس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، ماحولیات، بیسویں صدی کے انقلابی تجربات کی ناکامی کے بعد سوشلزم کی مختلف اشکال، عالمی سامراج کی حکمت عملی اور پاکستانی سیاست پر اثرات، قومی سوال، معیشت اور سیاست میں فوج کا کردار، پدرسری اور جنسی برابری کا سوال، بڑہتی ہوئی مذہبی شدت پسندی، مقامی اور عالمی طور پر بڑھتے ہوئے ارتکاز دولت کے نتائج وغیرہ جیسے موضوعات کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کے بعد اپنے سیاسی عمل کے لیے اہداف طے کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ اس سے پارٹی کارکن بھرپُور فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی کے اندر یکجہتی اور اتحاد کو یقینی بناتے ہیں اور پارٹی اداروں کی مضبوطی، اجتماعی قیادت کے تصور اور نظریے میں شفافیت پیدا کر کے پارٹی کو مضبوط بناتے ہیں۔

اس وقت پاکستان سمیت دُنیا بھر کے سیاسی منظر نامے پر رجعتی قوتیں چھائی ہوئی ہیں۔ نفرت نگیز نعرے لگانے والے مقبولیت پسند حکمران ملکی اور عالمی سطح پر روز بروز سنگین ہونے والے تضادات پر پردہ ڈال کر عوام کی توجہ کاغذی شیروں کی طرف دلا رہے ہیں۔ اُن کی جانب سے کبھی کرپشن، کبھی باہر سے آئے ہوئے لوگ یا بیرونی سازش، تو کبھی دہشت گردی ہی تمام معاشی، سماجی و سیاسی مسائل کا باعث بیان کئے جاتے ہیں؛ جن کو حل کرنے کے لیے ایک طرف بیرونی سرمایہ کاری اور اُس کے ساتھ نتھی ترقی لازم قرار دی جاتی ہے تو دوسری طرف ملکی دفاع کے نام پر ریاست کے عسکری اداروں کو مسلسل اختیارات منتقل کرنے کی ضرورت کو ابھارا جاتا ہے۔ اور اس کو جمہوری رنگ دینے کے لیے قانون ساز ادارے اور کارپوریٹ میڈیا مفاد عامہ کا سودا تک کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک طرف قبائیلی و جاگیرداری باقیات موجود ہیں تو دوسری طرف بدترین سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو کہ گلابلائزیشن کی شکل میں گزشتہ دو دہائیوں سے سماج کی ہر شے کو جنس میں تبدیل کر رہا ہے۔ اِس ظالمانہ نظام کے خلاف عوامی حلقوں نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے، تا ہم عالمی سیاسی و معاشی حالات اور حکمران طبقات کی ریشہ دوانیوں کے باعث محنت کش عوام آج منقسم ہیں۔ اُنہوں نے اپنی منظم جدوجہد اور قربانیوں کے بل پر جو معاشی و سیاسی مراعات ماضی میں حاصل کی تھیں، وہ بتدیج چھینی جا رہی ہیں۔ ملک میں ایسے مزدور دُشمن قوانین بنائے گئے ہیں جن کے باعث کروڑوں محنت کشوں کو احتجاج اور ہڑتال کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی مسلط کردا پالیسیوں کی وجہ سے دیہات میں چھوٹے کسانوں اور مزارعین کا وجود بتدیج ختم کر کے دیہی مزدور یعنی اجرتی غلام بنانے کا عمل جاری ہے۔ محنت کشوں، پیشہ ور حلقوں اور طالب علموں کو انجمن سازی کے آئینی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں محنت کشوں کی سیاست کرنے والے بائیں بازو کے حلقے منظم ریاستی دباؤ اور داخلی کمزوریوں کے باعث پسپائی کا شکار ہو گئے۔  1990ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد مایوسی کی لہر کئی برسوں تک قائم رہی، جو اب سیاسی کارکنوں کی نئی نسل کے سامنے آنے کی وجہ سے ٹوٹ رہی ہے، جو مایوسی کو ختم کرتے ہوئے سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں۔ نئی نسل کا ترقی پسند سیاست میں منظم و متحرک کردار اس کانگریس میں بھی نمایاں تھا، جِس نے راقم کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ نئی انرجی بھی دی۔

قیامِ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو برِصغیر میں کیمونسٹ پارٹی ہی نظر آئے گی جِس نے حقِ خودارادیت کے اصول کے تحت پاکستان کے قیام کی کھل کر حمائیت کی تھی۔ مذھبی جماعتیں بشمول جماعتِ اسلامی قیام پاکستان کے مخالف تھے، اور اُن کے راہنما قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہتے تھے۔ برِصغیر کی آزادی کے بعد 1948ء میں دونوں ممالک کے پارٹیاں علیحدہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو پارٹی کارکنوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں پارٹی کا مقامی ڈہانچہ تشکیل دیا۔ عوام کے آزادی کے خواب چکناچوُر ہونے لگے تو کیمونسٹ پارٹی پاکستان کو عوامی پزیرائی ملنے لگی۔ پارٹی کی بنیادیں ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں اور محنت کشوں کی سیاست کرنے والے دانشوروں میں پیوست کرنے کے لیے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان کسان کمیٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین، ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن اور ڈیموکریٹک اسٹوڈینٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔ عوام کو آزادی کے ثمرات نہ ملے تو عوام کی جانب سے متبادل کی تلاش ایک قدرتی عمل تھا، جِس سے پارٹی کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا۔ اِس بدلتی ہوئی صورتِحال نے اقتدار کے ایوانوں میں بے چینی پیدا کر دی۔ بالآخر 9 مارچ 1951 کی رات پارٹی کے جنرل سیکرٹری سید سجاد ظہیر اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو گرفتار کر کے میجر جنرل اکبر خان اور دیگر آرمی افیسرز کے ساتھ ساز باز کر کے لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے الزام میں راولپنڈی سازش کیس بنا دیا گیا۔ بعد ازاں 1953ء میں پارٹی کے سرکردہ راہنماوں کو ایک لمبے عرصہ کے لیے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال کر کیمونسٹ پارٹی اور اس کے ساتھ ملحقہ عوامی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔

پارٹی پر پابندی کے بعد ترقی پسند سیاسی کارکنوں نے مختلف جمہوری پارٹیوں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں 1957ء میں نیشنل عوامی پارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، لیکن ملک میں سماجی تبدیلی برپا کرنے کے داعی سوشلسٹ کارکنوں نے ریاستی جبر کے سائے میں چھوٹی چھوٹی اور علاقائی انقلابی پارٹیاں اور گروہ بنا کر حالات کے مطابق اپنا سیاسی عمل جاری رکھا، اور اُن کی متحدہ اور منظم سیاسی جماعت نہ بن پائی۔ حتیٰ کہ نیشنل عوامی پارٹی، جو ایک ترقی پسند، سامراج دشمن جمہوری پارٹی تھی، میں بھی ان گروپوں کو یکجا نہ کیا جا سکا۔ ڈکٹیٹر ضیاء کے سیاہ دور میں جب امریکی آشیرباد اور سعودی سرمایہ سے ملک میں مذہبی جنونیت، انتہا پسندی اور دھشت گردی کو منظم طریقے سے پروان چڑھایا گیا، اور ملک کے تمام ترقی پسندوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا تو جیل میں ہی بائیں بازو کے اتحاد اور انضمام پر کھلی بحث شروع ہو گئی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ عوامی جمہوری اتحاد، لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ اور عوامی جمہوری تحریک جیسے متحدہ محاذ وجود میں آئے، جن کے نتیجے میں 1988ء میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی اور کیمونسٹ لیگ کا مرجر ہوا اور انضمام کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعد ازاں 2010ء میں نیشنل ورکرز پارٹی اور کیمونسٹ مزدور کسان پارٹی نے مل کر ورکرز پارٹی، اور 1912ء میں ورکرز پارٹی، عوامی پارٹی اور لیبر پارٹی نے باہمی انضمام سے عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان جیسے نیم قبائیلی، نیم جاگیردارنہ اور نیم سرمایہ دارانہ سماج میں، جہاں جمہوری عمل کا تسلسل کبھی نہ رہا ہو اور جمہوری روایات نہ ہونے کے برابر ہوں، وہاں نظریاتی سیاست تو دُور کی بات، ایک عام بورژوا جمہوری پارٹی بھی نہ پنپ سکی۔ ایسے حالات میں ایک انقلابی پارٹی کے لیے متعدد انضمام کرنے کے بعد مستحکم ہونا اور پھر ملک بھر کے سنجیدہ انقلابی کارکنوں کا دو روز تک سر جوڑ کر بیٹھنا، ایک منظم کانگریس منعقد کرنا، اور باہمی اتفاق رائے سے مستقبل کی سیاست کے راہیں متعین کرنا یقیناً ایک بڑا سیاسی عمل ہے، اور اس نے پارٹی کارکنوں میں ایک نیا ولولہ، نئی امیدیں، نیا جذبہ اور انرجی پیدا کر دی ہے۔ اب اُن سیاسی کارکنوں کا امتحان ہے کہ وہ کتنے عرصہ میں ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں، محنت کار عوام، خواتین، اقلیتوں اور مظلوم قومیتوں کو ملکی سیاسی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

پاکستان کو آج جتنے بڑے بحرانوں کا سامنا ہے، ان سے نمٹنے کے لیے کوئی واحد سیاسی جماعت عہدبرآ  نہیں ہو سکتی۔ اِس لیے ضروری ہے کہ ترقی پسند، عوام دوست و جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر ایک مربوط جدوجہد کے ذریعے ملک پر مسلط قبائیلی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کی طرف جدوجہد کا سفر طے کرنا چاہیے، تا کہ معاشرے سے معاشی، ثقافتی اور سماجی ظلم و جبر کا خاتمہ ہو اور قومیتوں کے حقوق بحال ہوں، خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کا خاتمہ ہو اور صحیح معنوں میں پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور عوام دوست ملک بن سکے۔ آج پاکستان میں بائیں بازو کی ایک متبادل طرزِ سیاست کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کی چالوں سے آزاد ہو۔ اِس متبادل سیاست کے بہت سے ستون وہی ہوں گے، جو کہ بائیں بازو کی جماعتوں کے شروع سے رہے ہیں، بمعہ طبقاتی جدوجہد، ترقی کا غیر سرمایہ دارانہ نظام، سامراجی یلغار سے نجات، قوموں کی برابری کا اصول، مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی ضرورت، اور با معنی جمہوری اداروں کا قیام۔ موجودہ دور میں بائیں بازو کی سیاست کا ایک اور بنیادی ستون مردوں کی بالادستی پر مبنی پدرشاہی نظام کا خاتمہ ہے۔ عورت گھر میں آزاد ہے نہ باہر، اور اُس کے خلاف ہر روز ایسے جرائم منظرِ عام پر آتے ہیں جن کو کوئی مہذب سماج برداشت نہیں کر سکتا۔ مذہبی اقلیتیں بھی انتہائی خوف کے عالم میں اپنی زندگی گزار رہی ہیں، جبکہ ذات پات کی بنیاد پر کروڑوں شہریوں کے ساتھ آج بھی انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سارے حالات ایک حقیقی سامراج مخالف، اینٹی اسٹیبلشمنٹ، سیکولر انقلابی پارٹی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس جدوجہد کو معاشی، سیاسی و سماجی سطحوں پر منظم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک ایسے سیاسی و معاشی ڈھانچے کی تعمیر کرنا ہو گی، جس کا مقصد منافع کمانا نہیں، بلکہ انسانی ضروریات پوری کرنا ہو، اور جس میں ذاتی مفاد پر اجتماعی مفادات کو ترجیح حاصل ہو۔ عوامی ورکرز پارٹی سمجھتی ہے کہ اس طویل جدوجہد کا آغاز آج کے حالات میں طبقاتی جدوجہد کی شکلوں کی نشاندہی اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی تضادات اور ان کے وضاحت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اسی سائینسی طریقہ کار کے تحت ایک انقلابی پارٹی غریب محنت کش عوام کی منظم قوت کے بل پر ایک نیا سوشلسٹ نظام قائم کر سکتی ہے۔

آؤ یم سب مل کر پاکستان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم، معاشی برابری اور سماجی انصاف کی بنیاد پر ملکی معاشی ڈہانچے کی تشکیل نو کے ذریعے ایک سوشلسٹ سماج کے قیام کے لیے جدوجہد کا عزم کریں۔ 






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *