Main Menu

روس، یوکرائن، نیٹو اور اقوام متحدہ ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ

Spread the love

پہلی جنگ عظیم جسکی شروعات 1914میں ہوئ اور شدت 1918 میں آئ یوں جنگ کے اختتام تک دنیا بھر کا نقشہ و حلیہ مکمل تبدیل ہو چکا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا کروڑوں انسان مارے گئے بین الاقوامی ادارہ لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ آئندہ دنیا میں انسانیت کی تباہی و بربادی اور جنگی جنون کے سامنے یہ ادارہ کنکریٹ بند باندھ سکے۔ اس جنگ نے پوری دنیا میں اتھل پتھل کا ساماں پیدا کرتے ہوئے نہ صرف قوموں کی تقسیم کی تھی بلکہ معاشی منڈیوں کا بھی عالمی طاقتوں کے مابین بٹوارہ کر ڈالا تھا۔ اس غیر فطری۔ جبری۔ اور طاقت کی بنیاد پر تقسیم کیخلاف ایکبار پھر سے 1931میں جنگ کی معمولی چنگاری بھڑکی

جس نے آہستہ آہستہ 1945 تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا

دو آپسی معاشی مفادات کے حامل بلاکس نے ڈٹ کر دوسری عالمی جنگ لڑی جس میں ریشیا کے عظیم انقلابی لیڈر جوزف اسٹالن نے جرمنی کے توسیع پسندانہ عزائم کے ڈکٹیٹر ہٹلر کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا اور اس جنگ میں دو مقاصد حاصل کیئے۔ 1۔ ایک تو ہٹلر سے پورا یورپ خوف زدہ تھا اسے شکست ہی دوچار نہیں کیا بلکہ آج تلک اسکی لاش کا ہی علم نہیں ہے۔ دوسرا ہٹلر کو جنگ کا اتنا خوف دیا کہ وہ ریشیا کے بجائے برطانوی سامراج کی کالونیوں کو آذاد کرواتا رہا۔ لیگ آف نیشنز کا اس بنیاد پر متفقہ طور پر خاتمہ کیا گیا کہ جن مقاصد کیلئے آسکا قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ سب کچھ ہی لاحاصل رہا ہوں دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر لیگ آف

نیشنز کو فضول طرز کا بے عمل ادارہ تصور کرتے ہوئے یو۔ این۔ او۔ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اور اسکے ہرنوع کے ادارے مختلف ممالک میں قائم کیئے گئے۔ لیکن وہ ادارہ بھی اپنے قیام سے لے کر آج تلک امریکی و اسکے بغل بچہ سامراجی طاقتوں کے اشارہ ابرو کو محتاج ہے۔ مسلئہ جموں کشمیر ہو۔ فلسطین۔ عراق۔ لیبیا۔ یمن۔ شام۔ ایران۔ یا دیگر کسی بھی ملک یا قوم کا مسلئہ ہو اس پر امریکہ۔ برطانیہ اور انکے حواریوں کا عمل متشدادنہ ہوتا ہے اور وہ اپنے مفادات ومقاصد کیلئے سلامتی کونسل۔ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو اپنے جوتے کی نوک پر سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ روس و مغربی ممالک کے مابین کشیدگی کا آغاز سال 2008سے ہوا جب نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں یوکرائن۔ جارجیا کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کا عندیہ دیا گیا جس نے روس کے کان کھڑے کر دیئے اور اسے ایسے لگا کہ بین الاقوامی سامراج اسکے گرد ایکبار پھر سے گھیرا تنگ کرنے جا رہا ہے۔ کیونکہ لیٹویا۔ اسٹونیا۔ لتھوانیا۔ کی نیٹو میں شمولیت کے بعد ماسکو کسی صورت یوکرائن۔ جارجیا۔ کی نیٹو میں شمولیت کو قبول نہیں کرے گا۔

کیونکہ اس طرع سے تو نیٹو یعنی سامراجی قوتوں کی فورسز و جدید ترین اسلحہ روس کے پڑوس میں جمع کر لیا جائے گا۔ جو کسی بھی لمحہ روس کی تباہی و بربادی کا موجب بن سکتا ہے۔ نیٹو کا منظم و مسلحہ ادارہ دنیا بھر کے سرمایہ دار ممالک کے بالادست طبقات نے سوشلزم کا راستہ روکنے کیلئے دوسری عالمی جنگ کے بعد 1949 میں قائم کیا تھا ابتدا میں اسکے ممبران کی تعداد محض 12 ارکان پر مشتمل تھی جو مختلف طاقتوں کے مفادات و عوامل کے پیش نظر اب 30تک جا پہنچی ہے۔ امریکہ و کنیڈا کے علاؤہ 28 ممبران کا تعلق یورپ سے ہے۔ دراصل نیٹو کی یہی تنظیم یوکرائن و جارجیا کو بھی شامل کرتے ہوئے امریکی سامراج کی ایما پر روس کے گرد مغربی سائبیریا سے لیکر بحر اسود تک روس کیخلاف اپنا دفاعی حصار مکمل کرنے کی خواہشمند تھی۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن 2012 سے یوکرائنی صدر کو بار بار تنبیہ کر رہا ہے کہ سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا مت بنو۔ پیوٹن کا کہنا ھیکہ یہ امریکہ کا پرانا وطیرہ ھیکہ اپنے مخالفین پر گھیرا ڈالو اسے اس حد تک تنگ کر ڈالو کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وہ لڑنے پر مجبور ہو جائے۔ امریکی سنیٹر برنی سینڈر نے اس حوالہ ے کیا بہترین تبصرہ کیا ھیکہ کہ روس حملہ کرےتو Invasion. اور امریکہ حملہ کرے تو Liberation جس کی روشن مثالیں ویت نام۔ کمبوڈیا۔ لیبیا۔ عراق۔ شام۔ افغانستان۔ ہیں۔ انکی جنگ کی وجوہات کے عین مطابق یہی کہوں گا کہ انسانی تاریخ میں کوئ بھی جنگ مذھب کی ہر گز لڑائ نہیں تھی بلکہ اسکے پس پردہ معاشی مفادات ہی کارفرما تھے۔ آج بھی دنیا بھر میں کہیں بھی مذھبی بنیادوں پر کوئ لڑائی نہیں ہے۔ کوئ ملک بھی اپنے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی ملک کی مدد نہیں کرتا ہے۔ بدوں کسی مفاد کے اقوام متحدہ بھی کسی معاملہ میں نہیں کودتا ہے۔ ہر جگہ۔ ہر ملک۔ ہر ریاست میں مفادات کی ہی لڑائ ہے معاشی و قومی مفادات کی بنیاد پر صدیوں سے عیسائ۔ مسلم۔ و دیگر مذاھب کی ریاستیں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ریاستوں کے سیاسی۔ معاشی۔ قومی مفادات کا یہ عالم ھیکہ پورے ساہوکاری نظام کے کرتا دھرتاؤں نے یوکرائن کے صدر کو تمام تر امداد کی یقین دھانی کرواتے ہوئے روس جیسی طاقت سے بھڑوا دیا لیکن جب اپنے قومی مفادات کا خیال آیا تو یوکرائن ملک ہی بھول گیا۔

دراصل سامراجی طاقتوں نے انتہائ پلاننگ کے تحت یہ چال چلی ھیکہ روس پر ہر نوعیت کی اقتصادی پابندیوں کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اور اسکی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کے سامنے بند باندھا جا سکے۔روس کے صدر پوٹن نے بہترین حکمت عملی کے تحت سال 2012سے لیکر تاحال یوکرائن کے حکمرانوں کو بارہا کہا ھیکہ آپ مغرب۔ امریکہ سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ تجارتی معاہدے کریں۔سفارتی تعلقات رکھیں ھمیں کوئ عذر و اعتراض نہیں ہے لیکن آپ نے امریکی و برطانوی سامراج کی بدمعاش جنگجو فوجی گروہ کا حصہ نہیں بننا ہے۔ کیونکہ یہ ادارہ ہی دراصل امریکی سامراج کے مخالف سوشلسٹ بلاک کے خلاف منظم کیا گیا تھا۔قصہ مختصر کہ امریکہ نے پوری پلاننگ کے تحت روس سے یوکرائن پر حملہ کروایا ہے تاکہ روس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معشیت کو نقصان پہنچایا جا سکے یادرہے کہ یوکرائن نیٹو کا حصہ بننے کا خواہشمند ہے لیکن ابھی تک اسکا ممبر نہیں ہے البتہ یوکرائن 1920سے لیکر 1991تک ریشیا کا حصہ رہا ہے اور آج امریکی سامراج کی گود میں بیٹھنے کی بدولت بدترین جنگ کا شکار ہے۔ حالات یہی پتہ دے رہے ہیں کہ یہ ایکبار پھر سے سویت یونین کا ہی حصہ بنے گا۔ روسی صدر ولادیمیر میر پوٹن کی بہترین حکمت عملی یہ ھیکہ اس نے یوکرائن میں سے دو ریاستیں علحدہ کرتے ہوئے انہیں آزاد ریاستیں تسلیم کرتے پہلے مرحلہ میں یوکرائین کی کمر ہی توڑ ڈالی اور پھر جس پاکستانی ریاست نے 1979میں سویت یونین کیخلاف امریکہ کی ایما پر فرنٹ سٹیٹ کا کردار ادا کیا تھا آج اسی ریاست کے وزیراعظم کو ماسکو دعوت دی اور اسکی ماسکو میں موجودگی کے دوران سامراجی طاقتوں کی دم چھلہ ریاست یوکرائین پرحملہ کر دیا یوں امریکہ و برطانیہ کو پیغام بھیجا کہ کس ریاست کو آپ نے افغانستان میں ھمارے خلاف استعمال کیا تھا وہ آج ھمارے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ جنگ کے حتمی نتائج بارے کل لکھوں گا۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *