Main Menu

نقطہ نظر کا اختلاف اپنی جگہ، امجد شاہسوار کی موت رياستی نظام پر ايک اور تمانچہ؛ تحرير: کامريڈ سُلطان

Spread the love

بڑی ہی دکھ دہ خبر تھی جب مجھے کل ایک دوست نے بتایا کہ کامریڈ امجد شاہسوار ہم میں نہیں رہے۔

ہم دو علیحدہ علیحدہ سکول آف تھاٹ پر جدوجہد کر رہے تھے وہ ٹراٹسکی ازم پر اور میں لینن ازم پر جب وہ کراچی آۓ تو بڑی ہی طویل بحث و مباحثہ رہا ہمارا ۔اچھا ٹیلنٹ تھا اس نوجوان میں لیکن اس روزگار نے اسے ملک سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا اور اسکی کمنٹمنٹ ٹراٹسکی ازم کے ساتھ اتنی تھی کہ وہ آخری دم تک اسکے ساتھ کھڑا رہا۔
افسوس اس بات کا ہے اس کے اپنے خواب تو ادھورے رہے لیکن اس کے گھر والوں کی کیا پوزیشن ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے کیوں کہ وہ ایک عرصہ سے اپنے ملک سے باہر تھا اور واپسی تابوت کی شکل میں آرہا ہے ۔ المیہ ہے ہمارے لیے کہ ناقص خوراک سے ہمارے نوجوانوں کو ہارٹ اٹیک جیسی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ان کی زندگی ختم کر دیتی ہیں حکومت کے پاس نہ اچھی خوراک ہے عوام کو دینے کیلیے نہ تعلیم اور نہ ہی روزگار ۔ جسکی وجہ سے نوجوان ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں بہت بڑا فیلئر ہے حکومت کا۔ ہم کب تک بیرون ملک سے نوجوانوں کے تابوت حاصل کرتے رہیں گے؟ اس سوال کا حل ڈھونڈھنا اور اس کے لیے جدوجہد کرنا بہت ضروری ہے ۔۔

کیوں کہ اب ان کندھوں میں جان نہیں رہی جنازے اٹھانے کی ۔۔بڑا ہی حوصلہ مند انسان تھا امجد شاہسوار اسکے نظریاتی دوستوں اور فیملی سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں اس صدمے کو برداشت کریں گے۔

امجد شاہسوار کی پرديس ميں موت جہاں رياستی نظام پر ايک اور تمانچہ ہے وہيں رياست کے اندر کسی طور کا معاشی نظام نہ ہونے کی وجہ سے عوامی خاموشی اور اصل مسائل کی بجاۓ مصنوعی مسائل کے پيچھے سرتاپاء بھاگتے ہوۓ لوگوں کی مُردہ ضميری اور جہالت کا بھی ثبوت ہے۔ انتہائ اہم ہے کہ ہم متحد ہو کر جدوجہد کريں تاکہ ہم اپنے انسانی و قومی حقوق حاصل کرنے ميں کامياب ہوں۔ باشعور عوام ہی متحد و منظم جدوجہد کر سکتے ہيں۔ رياست جموں کشمير کی قومی آزادی اور غير طبقاتی سماج کے قيام کے لئے متحد جدوجہد وقت کی ضرورت ہے۔

انقلاب رياست جموں کشمير کے عوام کی ميراث ہے، اُٹھو تم سب جو غلام نہيں ہو گے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *