Main Menu

محرومیوں کا ادراک ہی ايجادات کے دروازے کھولتا ہے، وٹس ايپ کے موجد کی کہانی پڑھيے

Spread the love

واٹس ایپ کے موجد “جین کوم” کو خود اپنے والد سے دوری اور فون پر بھی بات نہ کر پانے کا جو دکھ تھااس کے احساس کی وجہ سے اس نے دوسروں کو قریب لانے والی یہ ایجاد کی۔

جین کوم یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ گھر میں بجلی تھی نہ گیس۔ یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پر مجبور ہو جاتے تھے.

1992ء میں یہودیوں پر حملے بھی شروع ہو گئے تو والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور یہ دونوں امریکا آ گئے۔کیلیفورنیا میں ان کے پاس مکان تھا نہ ہی کچھ کھانے کو۔امریکا میں حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کیلئے فوڈ سٹیمپس دیتی ہے۔یہ سٹیمپس دراصل خیرات ہوتی ہیں۔یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔

جین کوم پڑھنے لگا….. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی مہنگی ہونے لگی….. فوڈ سٹیمپس سے گزارہ مشکل ہو گیا تو جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی اُسے ایک گروسری اسٹور میں خاکروب کی ملازمت ملی۔
وہ برسوں یہ کام کرتا رہا….. اتنی غربت میں والد سے فون پر بات بہت مشکل خواہش تھی.

وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا
یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی لے گیا…… 1997ء میں وہ یاہو “Yahoo ” میں بھرتی ہوا۔

2004ء میں فیسبک آئی اور 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی۔
جین کوم نے فیسبک میں اپلائی کیا لیکن فیسبک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا اور اسے نوکری نہ دی۔
وہ مزید دو سال “یاہو” میں رہا…. اس دوران اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے آئی فون خرید لیا.

اس آئی فون نے اس کے مستقبل کی تشکیل کی۔
جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے ایک دن سوچا کہ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو…..
ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے….. تصاویر اور ڈاکو منٹس بھی بھجوائی جا سکیں اور جسے ہیک بھی نہ کیا جا سکے.

یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست “برائن ایکٹون” کے ساتھ شیئر کیا….. یہ دونوں اسی آئیڈیا پر کام میں جت گئے…… یہاں تک کہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے.

یہ ایپ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا.
یہ ایپلی کیشن ‘واٹس ایپ’ کہلاتی ہے.
دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں……
آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں…..
آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے.

جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا….. یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا.

فروری 2014ء میں فیس بک بھی واٹس ایپ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی…..
فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی….. اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر کہا__ “یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا” ہنستے ہنستے اس نے فیس بک کو ‘ہاں’ کر دی.
19 ارب ڈالر میں سودا ہو گیا……

یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر سے لگا لیجیے.
پاکستان کا فارن ایکسچینج اس وقت 22 ارب ڈالر ہے اور پاکستان 70 برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا
جب کہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں فروخت کی.

جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی کہ میں فوڈ سٹیمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر معاہدے پر دستخط کروں گا……
فیس بک کے لیے یہ شرط عجیب تھی، یہ لوگ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن فیس بک کو اس کی ضد ماننا پڑی، تاریخ طے ہوئی، فیس بک والے فلاحی سینٹر پہنچے……
وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا…..
وہ کیوں نہ روتا…..
یہ وہ سینٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں فوڈ سٹیمپس کا انتظار کرتے تھے……
یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے……
ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی…..
وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی…..
طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی…..
“تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے…. تم کام کیوں نہیں کرتے”؟
یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے.
خاتون انھیں سلپ دیتی تھی…..
ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے….. وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا.

چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اسی ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا…..
اس نے 19 ارب ڈالر کی ڈیل پر فوڈ سٹیمپس کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کئے…..
چیک لیا….
اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا، فوڈ سٹیمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی…..
جین نے 19 ارب ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا___ “آئی گاٹ اے جاب” اور سینٹر سے باہر نکل گیا…..

یہ ایک مفلس غریب الوطن کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے
جو ثابت کرتی ہے کہ آپ ڈٹے رہیں، محنت کرتے رہیں تو بالآخر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔

بشکريہ سردار انور






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *