Main Menu

گلگت بلتستان نیا صوبہ یا نئی خانہ جنگی؟ تحرير: سردار انصـــــــــار احــــــمد

Spread the love

حالیہ دنوں پاکستان کے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کے لیے نامزد وائسرائے علی امین گنڈہ پور، وزیراعظم پاکستان عمران خان کے گلگت بلتستان کے صوبہ بنانے کے بیانات اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پاکستان کی سیاسی قیادت سے اسی موضوع پر ملاقات کے بعد جو نیا منظر نامہ سامنے آ تا دکھائی دے رہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان آرمی نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر میڈیا پر اس طرح کی خبریں بریک کی ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے جا رہے ہیں. شروع میں اپوزیشن جماعتوں نے ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی لیکن راز افشا ہونے پر آئیں بائیں شائیں کرتی نظر آئیں.
اس انتہائی افسوسناک پیشرفت کے بعد ایک چیز تو بالکل واضح ہو گئی کہ پاکستان کی تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے پر متفق ہیں،اور گلگت بلتستان کے آمدہ الیکشن میں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں. ان تمام جماعتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس طرح کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل سے نہ صرف مسلہ جموں کشمیر پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے پاکستان داخلی اور اندرونی طور پر عدم استحکام اور بے امنی کا شکار ہو سکتا یے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس فیصلے کے دور رس مضمرات پر بھی ان رہنماؤں نے غور کیا ہے یا نہیں؟؟
گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے مسلہ جموں کشمیر اور ریاست جموں کشمیر کا ایک لازمی حصہ رہا ہے اور آج بھی اس مسلے کا ہی حصہ ہے، آئین پاکستان کی رو سے بھی پاکستان چار صوبوں اور ایک وفاق پر 796096 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل ہے جس میں ریاست جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کا رقبہ شامل نہیں ہے، دوسرا آئین پاکستان کی دفعہ ایک اور دفعہ دو سو ستاون بھی واضح اور واشگاف انداز میں پاکستان، اس کی سرحدوں اور ریاست جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے بارے میں رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں. لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کے فوجی طالع آزماؤں اور انکے پروردہ سیاسی رہنماؤں کی کوتاہ اندیشی، ہوس ملک گیری اور توسیع پسندانہ عزائم نہ صرف اپنے ہی ملک کی آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں، گزشتہ تہتر سالوں کے اپنے روایتی بیانیہ سے انحراف کر رہے ہیں بلکہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں. زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب کی تاریخ کا ہی مطالعہ کر لیں تو شاید آپ کو یاد آ جائے کہ 80 کی دہائی میں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں آپکی ایما اور عملی مدد سے مسلح جدوجہد شروع کی گئی جس کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے، اور پوری وادی عملاً قتل گاہ بن گئ. بھارت جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا رہا اور پاکستان اسے ایک متنازعہ ریاست کے بیانیے کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے پیش کرتا رہا.
پانچ اگست 2019 کے بھارتی اقدام پر پاکستان کا موقف زیادہ پرانی بات نہیں اور نہ ہی ریاست جموں کشمیر کے باشندے اسے بھول پاے ہیں،
باوجود اس کے، کہ انہیں بھارت کے اس فیصلے میں پاکستانی فوج اور حکومت پاکستان کے ملوث ہونے کا پورا یقین تھا مگر پھر بھی سادہ لوح کشمیریوں نے اپنے “وکیل” کی “وکالت ” پر بھروسہ کیا اور بھارتی قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی.


5 اگست 2019 کو ابھی ایک ہی سال ہوا تھا کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور ریاست کی بندر بانٹ کا جو منصوبہ واشنگٹن میں بنایا گیا تھا اس پر پاکستان کی طرف سے عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا.
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کے استحکام، ترقی اور خوشحالی کی بجائے اسے ایک نئی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے،اور اس منصوبے کی ماسٹر مائنڈ بھارتی لابی ہو سکتی ہے، ایسا کرنے سے ایک طرف بھارت کو ریاست پر قبضہ پکا کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ سکتا ہے اور دوسری طرف وہ گلگت بلتستان کو متنازعہ مانتے ہوے وہی کچھ کر سکتا ہے جو پاکستان، بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں آزادی کی تحریک کے نام پر کر چکا ہے اور جو کچھ انڈیا بلوچستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں کر رہا ہے. کیونکہ مسلہ جموں کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر پر ایک متنازعہ مسئلہ کے طور پر گزشتہ سات دہائیوں سے موجود ہے اور اس پر دونوں ممالک کے رہنماؤں کے بیانات بھی تاریخ کا لازمی حصہ ہیں جو اس کی متنازعہ حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں.
کہیں ایسا تو نہیں ہونے جا رہا کہ آک و خون کا وہ کھیل جو پاکستان اسی کی دہائی سے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں کھیل رہا ہے وہی کھیل اب کی بار گلگت بلتستان میں بھارت یا کوئی اور انٹر نیشنل پلئیر کھیلنے کی تیاری کر رہا ہے؟؟ کیا ہندوستان اپنے زیر قبضہ جموں کشمیر میں پاکستان کی طرف سے جاری پراکسی وار اور سپانسرڈ ملیٹینسی پر پرانا حساب برابر کرنے کے منصوبے پر تیزی سے کامیابی کی طرف نہیں بڑھ رہا ہے؟؟ کیا اب کی بار میدان جنگ وادی کشمیر کی بجائے گلگت بلتستان ہونے جا رہا ہے ؟؟
پاکستان کی ملٹری اور سیاسی قیادت کو ہوش کے ناخن لینا ہوںگے کیونکہ ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان ایک ناقابل تقسیم سیاسی وحدت ہے اور اس کے باشندوں نے کبھی بھی غلامی کو دل سے قبول نہیں کیا ہے، جس قوم نے اپنے ایک لاکھ سے زائد جگر گوشوں کو وطن عزیز کی سالمیت، آزادی و خود مختاری کے لیے قربان کر دیا ہو وہ کبھی بھی مادر وطن کی تقسیم کے کسی بھی ناپاک منصوبے کو ہر گز قبول نہیں کر سکتی. صرف جدوجہد کا دورانیہ مزید طوالت اختیار کر سکتا ہے اورساتھ ہی جدوجہد کا رخ بھی تبدیل ہو سکتا ہے.
ہندو فاشسٹ حکمران نریندرا مودی کی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے اقدام اور “ریاست مدینہ” کے عمران خان نیازی اور جنرل باجوہ کے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد مسئلہ جموں کشمیر گلگت بلتستان پر مدینے اور کربلا کے حکمرانوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟؟؟

مصنف جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جے کے جی بی زون کے زونل صدر ہيں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *