جموں کشمیر پیپلز نیشنل الائنس امید کی کرن ؛تحریر : محمّد پرویز اعوان
پانچ اگست 2019 کو بھارتی سرکار نے جموں کشمیر کے خصوصی سٹیٹس پر شب خون مار کر پورے علاقے کو جیل میں تبدیل کر دیا تھا اور جبر کی انتہا کر دی تھی اس فاشسٹ اقدام کے بعد پاکستان کے زیر انتظام نام نہاد آزاد کشمیر میں آزادی پسند تنظیموں پر مشتمل ایک اتحاد وجود میں آیا اور پہلی احتجاجی کال پر ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آے اور بھارت کے ظالمانہ اقدام کے خلاف تمام اضلاع بھرپور مظاہرہ کیے اور پی این اے کے موقف کو پزیرائی بخشی۔ اس کے بعد مظفر آباد قانون ساز اسمبلی کے باہر جمووں کشمیر چھوڑ دو تحریک کا دوسرا بڑا مظاہرہ کیا جہاں انتظامیہ نے پر آمن احتجاج پر تشدد کیا اور ایک شخص شہید ہوا قائدین سمیت درجنوں افراد زخمی ہوے اور گرفتار ہوے آل پارٹیز كانفرانس بھی کی پی این آے کا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان آزاد کشمیر کی مشترکہ نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے اور پاکستان اس حکومت کو تسلیم کر کے اسلام آباد میں سفارت خانہ قائم کرنے دے اور دیگر ممالک سے بھی تسلیم کروانے میں مدد اور تعاون کرے۔
اور اس نمائندہ حکومت کو اختیار دے کہ وہ اقوام متحدہ میں ركنيت کی درخواست دے اور فلسطین کی طرز پر کم از کم مبصر کا سٹیٹس حاصل کر لے ۔
اور وہ نمائندہ حکومت اپنا کیس خود لڑے جہاں اقوام عالم کی حمایت کر کے بھارت کے جبر سے نجات کی راہ ہموار هو دو کروڑ انسانوں کے کسی آئینی قانونی مستقبل کا فیصلہ هو جو 74 سال ہونے کو ہیں ظلم جبر کا شکار ہیں انسانی آزادی سے محروم ہیں بنیادی حقوق سے محروم ہیں سیاسی سماجی معاشی ثقافتی ہر طرح کے استحصال کا شکار ہیں اپنے وسائل پر ان کا اختیار نہیں سٹیٹ سبجیکٹ ختم کر کے غیر رياستی لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے جو غیر قانونی اقدامات ہیں نہ پاکستان اور بھارت کے آئین ان اقدامات کی اجازت دیتے ہیں نہ بین الاقوامی قوانین اجازت دیتے ہیں ۔
مگر ماوراے آئین یہ سب هو رہا ہے ؟
5 اگست 2020 کو بھارتی جبر کو ایک سال مکمل ہونے پر آزادی پسند اتحاد پی این آے نے ایک بار پھر یوم سیاہ بنایا اور احتجاجی جلسے ریلياں منعقد کی اور عوام نے بھر پور شرکت کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی امید پی این اے سے ہی ہے
اب پی این اے کے ذمہ داران کیلئے یقیناً امتحان ہے کہ وہ اندرونی اختلاف کو کمزور یوں کو کس طرح دور کر کے حقیقی مزاحمتی رول دیتے ہیں ۔
پی این اے کی جو آزادی پسند تنظیمیں حصہ نہیں ان کے ساتھ بھی بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہیے اور پی این آے میں شامل جن ذمہ داران کے تحفظات ہیں ان پر بھی غور کیا جائے جمووں کشمیر چھوڑ دو تحریک کو زیادہ منظم کرنا ضروری ہے گاؤں گاؤں شہر شہر جمووں کشمیر کی وحدت کی بحالی اور اس کے مستقبل کا فیصلے کا حق صرف رياستی عوام کا ہے اس حق کے حصول کیلئے ذاتی آناوں سے نکل کر اجتماعی جدو جہد کو ترجیع دی جائے ۔
پاکستانی حکمرانوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ایک طرف وہ وکیل کہتے ہیں خود کو دوسری طرف متنازعہ ریاست جمووں کشمیر کو اپنے نقشوں میں شامل کرنے جیسے بلنڈر کر کے کھسیانی بلی کھمبا نوچے جیسی مثال بن رھے ہیں ۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ارباب اختیار کو سنجیدہ ہونا پڑھے گا مگر ان سے توقع عبث ہے کیوں کہ وہ لولے لنگڑے اقتدار اور مراعات کے غلام هو چکے ہیں ۔
پیپلز نیشنل الائنس کو جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کو قومی ایجنڈا بنانے کیلئے ہر طبقہ کے پاس جانا ہو گا اور کنوینس کرنا ہو گا جرات مندانہ قدم اٹھانا ہو گا ورنہ عام آدمی مزید مایوسی کا شکار ہو گا پاکستان کے زیر تسلط جموں کشمیر گلگت بلتستان کی مشترکہ آئین ساز اسمبلی کا قیام نا گزیر ہے ورنہ ریاست جموں کشمیر لداخ کو تقسیم مزید گہری ہو گی
یہ تو طے ہے جموں کشمیر ایک آزاد ملک ہی ہو گا تب ہی جنوبی ایشیا میں پائیدار آمن ہو گا اور پونے دو ارب محنت کش عوام کو حقیقی آزادی نصیب ہو گی۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More