Main Menu

کیا کشمیری ایک قوم ہیں ؟ تحریر: رضوان کرامت

Spread the love

بیسویں صدی میں قوموں کی آزادی کا سوال بہت اہمیت کا حامل رہا ہے اور بے شمار قوموں نے سرمایہ دارانہ قومی آزادیاں حاصل کیں ہیں. ریاست جموں کشمیر کے طلباء و طالبات کو قومی سوال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ قوم کی تعریف کو جانیں اور پھر اس نتیجہ پر پہنچیں کہ کیا کشمیری ایک قوم ہیں ؟اور ریاست جموں کشمیر میں کتنی قومیں یا قومیتیں آباد ہیں. ہمارے اردگرد قوم کے لفظ کی مختلف اصطلاحیں موجود ہیں. ہمارے لوگ مختلف قبیلوں اور برادریوں کے لیے قوم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور پھر مذہب کے حوا لے سے بھی قوم کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے. سماجی سائنس کے مطابق جاٹ, راجپوت, گجر, آرائیں, بٹ, انصاری,مغل,ملک وغیرہ مختلف برادریاں یا قبیلے ہیں جبکہ مسلمان, ہندو, سکھ, عیسائی, بدھ مت وغیرہ مختلف مذاہب ہیں۔
مختلف دانشوروں نے قوم کی مختلف تعریفیں کی ہیں ان میں سٹالن کی تعریف زیادہ واضح ہے,, قوم لوگوں کا ایک ایسا مشترک گروہ ہے جس کا تاریخی طور پر ارتقاء ہوا ہے. جو مشترک زبان, خطہ زمین, اقتصادی زندگی اور نفسیاتی ساخت کی بنیاد پر تشکیل پا کر مشترک ثقافت میں ظاہر ہوتی ہے۔
قوم کی مندرجہ بالا تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے قوم میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے 1.خطہ زمین 2.آبادی 3.مشترک اقتصادی و معاشی رشتے 4.ایک یا ایک سے زائد مشترک زبان یا زبانیں 5. مشترک قومی ثقافت 6. مشترک تاریخ 7 .مشترک نفسیاتی ساخت
مندرجہ بالا صفات میں سے کوئی ایک صفت موجود ہو تو قوم نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی ایک صفت کے کم ہونی سے قوم کہلائی جا سکتی ہے ہم کہہ سکتے ہیں,, مختلف گروہ, قبیلے اور برادریاں جب ہزاروں سالوں سے کسی ایک خطہ زمین پر رہ رہے ہوتے ہیں تو ان کے آپس میں مسلسل میل جول کی وجہ سے ایک مشترک زبان کی تشکیل عمل میں آتی ہے. جس کی بنیاد پر لوگ اپنی معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو ترقی دیتے ہیں. اس طرح ان کی مشترک تاریخ سامنے آتی ہے. ان کے روز مرہ کے رہن سہن کے طریقے,کاشتکاری اور دیگر پیداواری عمل کے طریقوں کی بنیاد پر ایک مشترک ثقافت سامنے آتی ہے اور مختلف واقعات و حادثات ان کی ایک مشترک نفسیاتی ساخت کو جنم دیتے ہیں. یہ سارے عوامل کسی قوم کی تشکیل کے لیے لازم ہیں۔
مشترک خطہ زمین کسی قوم کی وہ خصوصیت ہے جس کے بغیر قوم کا تصور کرنا ہی نا ممکن ہے کیونکہ خطہ زمین ہو گا تو وہاں مختلف قبیلے اور گروہ ہزاروں سالوں سے آباد ہوں گے اور آپس میں اقتصادی و معاشی رستے قائم کریں گے. ایک دوسرے سے تجارت کریں گے اور ذرائع آمدورفت ہو گی۔
مشترک زبان قوم کی انتہائی اہم خصوصیت ہے کیونکہ اگر مشترک زبان نہ ہو گی تو آپس میں تجارت کے دوران بات چیت کیسے کریں گے زبان کسی قوم کی ایک سے زائد بھی ہو سکتی ہے سوئٹزرلینڈ کے تین مختلف علاقوں میں تین مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور وہاں تین مختلف قومیں نہیں بلکہ ایک ہی قوم آباد ہے. زبان کسی دوسری قوم سے مستعار بھی لی جا سکتی ہے. جب لوگ کسی ایک علاقے سے ہجرت کر کے کسی دوسرے علاقے میں گئے تو وہ زبان بھی ساتھ لے گئے. سامراجی تسلط کے دوران بھی مختلف مغلوب قوموں کو سامراج کی زبان اپنانا پڑی. اسپین نے صرف برازیل کو چھوڑ کر پورے جنوبی امریکہ پر اپنے سامراجی تسلط کے دوران اپنی زبان مسلط کی. مختلف قوموں کی قومی زبان ایک ہو سکتی ہے لیکن ان میں ہر قوم اپنا علیحدہ قومی تشخص بھی رکھتی ہے مثلاً عرب کے بائیس ممالک عربی بولتے ہیں لیکن یہ تمام ممالک اپنا اپنا علیحدہ قومی تشخص رکھتے ہیں. قومی تشخص کو قائم رکھنے کے لیے مشترک ثقافت انتہائی ضروری ہے. مشترک ثقافت سے مراد یکساں ثقافت نہیں ہے. تمام قومیں علاقائی لحاظ سے مخصوص ماحول میں نشو و نما پاتی ہیں. مشترک ثقافت میں کسی بھی قوم کے افراد کا پورا طرز زندگی آ جاتا ہے. جس میں ان کی موسیقی, مصوری, طرز تعمیر, کاشتکاری کے طریقے, خوراک, لباس, ادب, اور روزمرہ کی مشغولیات شامل ہیں۔
ہزاروں سالوں کے ارتقاءی سفر میں ہر قوم کی اپنی تاریخ ہوتی ہے جو تحریری شکل میں محفوظ ہوتی ہے. جو اس قوم کے پیداواری عمل, قومی بقاء, قدرتی حادثات, ثقافت کی نشوونما, مخصوص ادب سب کی تاریخ تحریری طور پر محفوظ ہوتی ہے. قوم کے ارتقاء کے سارے عرصے میں ایک مشترک نفسیاتی ساخت تشکیل پاتی ہے یعنی اس قوم کا مخصوص کردار بنتا ہے. ہر قوم مخصوص حالات سے گزرتی ہے لہذا ہر قوم کا قومی کردار دوسری قوموں سے مختلف ہوتا ہے. یہ قومی کردار ہر قوم کے اجتماعی ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے. قومیں اپنے کردار پر فخر کرتی ہیں. قومی کردار مستقل نہیں ہوتا بلکہ وقت اور حالات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
اگر کسی خطہ زمین پر بسنے والے مختلف گروہ ,قبیلے اور خاندان آباد ہوں لیکن ان کی زبان, ثقافت یا کوئی بھی صفت جو قوم کے لیے لازم ہے اگر ان میں حالات کے ساتھ ترقی نہ ہوئی ہو تو ہم اس علاقے میں آباد افراد کو قوم نہیں کہے گے بلکہ قومیت بولے گے.
ایک قوم میں کئی مذاہب کے لوگ ہو سکتے ہیں. لازمی نہیں کے ایک قوم میں ایک ہی مذہب کے لوگ آباد ہوں. مثلاً برطانیہ, بھارت, اور چین کی قوموں میں مسلمان,عیسائی, ہندو, بدھ مت سمیت دیگر مذاہب کے لوگ آباد ہیں اور ایک ملک اور ریاست میں کئی قومیں اور قومیتیں آباد ہو سکتی ہیں جیسے پاکستان میں پنجابی, سندھی, بلوچی, اور پختون قومیں آباد ہیں. بھارت میں ایک سو سے زائد قومیں اور قومیتیں آباد ہیں۔
مندرجہ بالا قوم کی وضاحت کو مد نظر رکھتے ہوئے کشمیری بھی ایک قوم ہیں. جس کا ایک مخصوص خطہ زمین موجود ہے. جہاں ہزاروں سالوں سے آبادی موجود ہے. کشمیر کے لوگوں کے ہزاروں سالوں پر مشترک اقتصادی و معاشی رشتے موجود ہیں. انکی اپنی قومی زبان کشمیری موجود ہے. ان کی مشترکہ ثقافت ہے.جو ہزاروں سالوں سے ارتقائی مراحل میں ہے. کشمیری قوم کے مخصوص پکوان مشہور ہیں, مخصوص لباس, اپنے شاعر اور شاعری یعنی مخصوص ادب, موسیقی اور مصوری موجود ہے اس طرح مخصوص طرز تعمیر ہے, کاشتکاری کے طریقے اور روز مرہ زندگی کی مخصوص مشغولیات ہیں جو کشمیری قوم کی علیحدہ ثقافت کو ظاہر کرتی ہے. غلامی کے باعث کشمیری ثقافت ترقی نہیں کر سکی اور اس پر غاصب قوتوں کے اثرات واضح طور پر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ایک مشترک ثقافت موجود ہے. پانچ ہزار سالا تحریری تاریخ موجود ہے. کشمیریوں کی مشترک نفسیاتی ساخت ہے مسلسل ظلم و جبر اور بربریت کی وجہ سے ان کا ایک مخصوص کردار سامنے آیا ہے. جس کا اظہار مختلف اوقات میں سامنے آتا رہتا ہے۔
کشمیری قوم سے جڑی ہوئی قومیتیں بھی موجود ہیں. جموں والی, گلگتی, بلتی اور لداخی جن کی اپنی مشترک زبان, تاریخ, معاشی رشتے,ثقافت اور نفسیاتی کردار جو مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ عہد تک پہنچا ہے۔
کشمیری قوم اور اس سے ملحقہ قومیتوں کا سیکٹروں سالوں سے ایک دوسرے سے میل جول موجود ہے. لیکن 15 اگست 1947 کو جب برصغیر برطانیہ سامراج نے تقسیم کیا تو اس کےفوراً بعد عالمی سامراج اور سرمایہ داروں کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاست جموں کشمیر کو بھی تقسیم کر دیا گیا اور کشمیری قوم اور ملحقہ قومیتوں کی زبانیں اور ان کی تاریخ وثقافت کو بری طرح مسخ کیا گیا یہ عمل آج بھی جاری ہے اور پاکستانی حکمرانوں اور بھارتی حکمرانوں نے اپنے مفادات کے لیے عالمی سامراج کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے کشمیری قوم اور قومیتوں کے آپس میں میل جول پر جبراً پابندی لگا دی اور ایک منظم انداز سے کشمیری قوم اور قومیتوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کی گئیں. جس کی بنیاد پر آج پاکستانی جاگیردار اور حکمران طبقات نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ہر سال کھربوں کی دولت لوٹ رہے ہیں. اس طرح جموں, کشمیر اور لداخ سے بھارتی سرمایہ دار اور حکمران طبقات ہر سال کھربوں روپے لوٹ لیتے ہیں. جبکہ کشمیری قوم اور قومیتوں کے عوام تمام بنیادی سہولیات سے محروم چلے آ رہے ہیں. یہاں کے نوجوان روزگار کی تلاش میں یورپ, امریکہ اور مڈل ایسٹ کی خاک چھان رہے ہیں. واضح کرنا ضروری ہے کہ تمام وسائل پاکستان اور بھارت کے جاگیردار, سرمایہ دار اور حکمران طبقات لوٹ کر لے جاتے ہیں لیکن اس میں پاکستان اور بھارت کی عام عوام کا نہ تو کوئی کردار ہے اور نہ ہی ان کو کوئی اس لوٹ مار سے کوئی حصہ دیا جاتا ہے۔


آج ریاست جموں کشمیر کے طلباء و طالبات اور نوجوانوں پر تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے وطن کی موجودہ حیثیت کا عمیق گہرائیوں سے تجزیہ کریں اور دنیا بھر کے محنت کشوں بالخصوص پاکستان اور بھارت کی عوام جو خود ظلم و جبر کا شکار ہیں. خود کچلے ہوئے ہیں, پسے ہوئے ہیں تمام بنیادی شہری سہولیات سے محروم چلے آ رہے ہیں ان سے کیسے جڑت پیدا کی جا سکتی ہے ریاست جموں کشمیر کے عوام اور ان کا مستقبل میں کیا رشتہ ہونا چاہئے. عالمی سامراج کے مفادات کی تکمیل کیلئے پاکستان اور بھارت کے جاگیردار, سرمایہ دار اور حکمران طبقات پچھلے 73 سالوں سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں تاکہ اپنے بنک بیلنس بھر سکے اور دولت کے پہاڑ کھڑے کر سکے دوسری طرف یہاں کے 1.5 ارب انسانوں کو تمام بنیادی حقوق اور انسانی سہولیات (جو جدید دنیا کے انسانوں کو حاصل ہیں) سے جبراً محروم رکھا ہوا ہے .آج جموں کشمیر ورکرز پارٹی اور جموں کشمیر ورکرز سٹوڈنٹس آرگنائزیشن تمام طلباء اور نوجوانوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر سمیت دنیا بھر کے انسانوں کے مساویانہ حقوق کے حصول کے لیے حقیقی سماجی, معاشی اور سیاسی علوم تک دسترس حاصل کرنے کے لیے ورکرز پارٹی اور ورکرز سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تاریخی جدوجہد کا حصہ بنیں. یقیناً آخری فتح حق و سچ کی ہو گی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *