Main Menu

عرب اسرائیل تعلقات اور حقائق؛ تحرير: بيرسٹر حميد بھاشانی

Spread the love

عرب اسرائیل تعلق پر کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ کالم لکھا تھا۔ اسرائیلی اور سعودی رہنماوں کی ملاقات اور پاکستان میں اس پر ہونے والے ردعمل کی روشنی میں یہ کالم پہلے سے زیادہ دلچسبی کا باعث ہو سکتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ
متحدہ عرب امارات نےاسرائیل کوتسلیم کرلیا۔ کچھ لوگوں نے یہ خبر حیرت وافسوس سےسنی۔ کچھ لوگوں نےاسےفلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپنے کےمترادف قراردیا ۔ کئی ایک نے اس عمل کوامت مسلمہ اورفلسطین سےدھوکاکہا ہے۔ مگراگرجذبات اورتعصبات سےاوپراٹھ کردیکھاجاسکےتوجوحقائق سامنےآتےہیں وہ بڑے تلخ ہیں، اوردنیا میں ہونے والی نئی صف بندیوں اورسٹریٹیجک مفادات کیطرف اشارہ کرتے ہیں۔
اگرعرب اسرائیل تعلقات کی تاریخ پرنظرڈالی جائے توکچھ چشم کشا حقائق سامنےآتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں اس بات میں شک کی کوئی گجائش نہیں رہ جاتی کہ عربوں کی فلسطین کےسوال پرپالیسی میں بےشمارنقائص رہے ہیں۔ یہ تضادات سے بھرپورایسی پالیسی رہی ہے، جس کی بنیادیں جذبات پرکھڑی ہیں۔ چنانچہ حقائق کی دنیامیں یہ بنیادی طورپرایک ناکام پالیسی ثابت ہوئی۔ اس پراتنا وقت اورپیسہ برباد کرنے کے باوجود اس سےکوئی مثبت نتائج نہیں برآمد ہوسکے۔ اس کے برعکس اس پالیسی سے گاہےعربوں کےمفادات اورفلسطینی کازدونوں کو نقصان ہوا۔
عرب اسرائیل تعلقات کےباب میں عرب اقوام نے تین شرائط رکھ کر اعلان کر دیا کہ ان شرائط کے پوراکیےبغیراسرائیل کوتسلیم نہیں کیاجا سکتا، اورنہ ہی اس کےساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کیاجا سکتا ہے۔ ان شرائط میں پہلی شرط یہ تھی کہ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقےواپس کرے۔ فلسطین کی الگ ریاست قائم کرے۔ اورتمام فلسطینی مہاجرین اورپناہ گزینوں کی واپسی کےحق کو تسلیم کرے۔ اسرائیل پہلےدن سے ہی یہ تین شرائط ماننےسےانکارکرتا رہا۔
عرب اوراسلامی ریاستوں نے اسرائیل کے سامنےجوتین مطالبات رکھے وہ بالکل جائزتھے۔ مگراسرائیل سے وہ یہ مطالبات منوانےمیں نا کام رہے، جس کی بڑی وجہ خودمسلمان ریاستوں کےاندرعدم اتفاق، باہمی دشمنی، اوراپنے اپنے طورپراسرائیل کے ساتھ معملات کرنے کی کوششیں تھیں۔ یہ کوششیں کبھی خفیہ اورکھبی کھلےعام ہوتی رہی۔
امارات کے اس تازہ ترین عمل کوفلسطین کی پیٹھ میں خنجرقراردینے والاترکی وہ پہلا اسلامی ملک تھا، جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا، اوراس کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ ترکی کےساتھ یہ تعلقات اسرائیل کے قیام کے فورابعد سن انیس سوانچاس میں شروع ہوئے، جب فلسطین خون میں ڈوبا تھا، ان کے لاکھوں لوگوں کو ان کی زمینوں سےنکال دیا گیا تھا۔ ان کے جسم و روح پرلگنے والےزخم ابھی تازہ تھے۔ ان تعلقات میں بڑے نشیب و فرازآئے، مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات بہت گہرے ہو چکے تھے۔ حالیہ عشروں کے دوران ان تعلقات میں فرق آیا، مگرناخوشگواریت کے باوجود تعلقات قائم رہے۔ کورونا بحران سے پہلےترکی کی اسرائیل کے ساتھ تین بلین ڈالرکی تجارت تھی ۔ سالانہ تقریبا ایک اعشارہ نوملین اسرائیلی ترکی کی سیاحت پرآتےتھے۔
متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کومسلمانوں سے دھوکہ قراردینے والا ایران دوسرااسلامی ملک تھا، جس نےترکی کے بعدانیس سوپچاس میں ایران اسرائیل سےتعلقات قائم کیےتھے۔
ایران اس وقت اسرائیل کوتیل فروخت کرتا رہا، جب اس خطے میں کوئی اورملک ایسا کرنے کے لیے تیارنہیں تھا۔ یہ تجارت کے باب میں ایران اسرائیلی برامدات کا اہم مرکزرہا ہے۔ اوراسرائیلی انٹلیجنس ایجنسیوں نے ایرانی خفیہ اداروں کو تربیت بھی فراہم کی۔ اسلامی انقلاب سےصرف دوبرس قبل ایران اوراسرائیل ایک مشترکہ میزائیل بنا رہے تھے، جونیوکلئیروارہیڈ لےجانےکی صلاحیت رکھتا تھا۔ آیت اللہ خمینی نےانیس سواکہترمیں کہا تھا کہ اسرائیل ایران کے سیاسی، معاشی اورفوجی معاملات میں اس قدرگھس چکا ہے کہ ایران عملی طورپراس کا فوجی اڈاہے۔ سن انیس سواناسی کےاسلامی انقلاب کے تین ہفتے بعد اسرائیل سے تعلق ختم کر نے کا اعلان کر دیا گیا۔ مگردرپردہ بہت سارے معاملات چلتے رہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیل سےاسلح خریداجاتارہا۔ اس جنگ کےدوران ایران نے اسرائیل سے پانچ سوملین ڈالرکے ہتھیارخریدے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل اسرائیل کے راستے یورپ پہچتا رہا۔ اس بات کا اعتراف سوئٹزرلینڈ میں مقیم ایک ایک بین القوامی تاجرمارسل ڈیوڈ رائیچ نےخود کیا۔ امریکی پابندیوں کےباوجود مارسل پندرہ سال تک ایرانی تیل اسرائیل کوفروخت کرتا رہا۔ امریکہ میں اس بات پراس کے خلاف امریکی پابندی کی خلاف ورزی میں ایرانی تیل کی خرید و فروخت کا مقدمہ چلا، جس میں عدالت نے اسے مجرم قراردیا ۔ عراق کی شکست اورسویت یونین کےٹوٹنے کےبعدایران نے سب سے بڑاخطرہ امریکہ کوقراردیا۔ اس کےبعد امریکہ ایک بڑا شیطان اوراسرائیل چھوٹا شیطان قرارپایا۔ چنانچہ چھوٹے شیطان کا مقابلہ کرنے کےلیےغزہ میں حماس اورلبنان میں جذب اللہ جیسی قوتوں کی حمایت شروع کردی گئی۔

ترکی اورایران کی طرح خفیہ تعلقات اورجنگ وجدل کےبعد مصرنے بھی انیس سواسی میں اسرائیل کوباقاعدہ تسلیم کیا۔ آج مصراوراسرائیل کے درمیان فوجی اورسیکورٹی تعاون جاری ہے۔ غزہ سٹرپ کی آمد رفت کوکنٹرول کرنے کے لیےدونوں کی سیکورٹی فورسزکا تعاون ہے۔ اوردونوں ممالک کی انٹیلیجس ایجنسیاں ایک دوسرے کی مددگارہیں
فلسطینیوں کی جہدوجہد کے باب میں اسلامی دنیا میں اہم ترین ملک اردن ہے۔ اس کی وجہ صرف اردن میں فلسطین کی بہت بڑی آبادی ہی نہیں، کئی دوسرے عناصربھی ہیں۔ دسمبرانیس سواڑتالیس میں فلسطینی رہنماوں کی ایک اہم کانفرنس ہوئی تھی، جوجریکوکانفرنس کے نام سےمشہور ہوئی۔ اس کانفرنس میں اردن کےشاہ عبداللہ اول کوفلسطین اور اردن کا بادشاہ تسلیم کرنے کا حلف اٹھایا گیا تھا اوریروشلم میں تمام مقدس مقامات کوشاہ کی تحویل میں دیا گیا تھا۔ یہ سپردداری انیس سوسڑسٹھ میں ختم ہوئی، جب اسرائیل نے ویسٹ بینک پرقبضہ کیا۔ مگر فلسطینی اتھارٹی قائم ہونے تک فلسطینی اردن کے شہری رہے۔ اس قربت، انحصاراوراعتماد کے باوجود دوسری طرف اردن کے شاہوں اوراسرائیلی رہنماوں کے درمیاں ملاقاتیں اسرائیل کے قیام سے پہلے شروع ہو چکی تھِیں۔ اردن کے شاہ کے ساتھ ان خفیہ ملاقاتوں کا احوال گولڈا مئیرنے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ ایک بارپوریم کے تہوارکے موقع پرسابق اسرائیلی وزیراعظم ازحاک رابن نے بھنیس بدل کراپنی تصاویرسوشل میڈیا پرڈالیں۔ ان تصاویرکےساتھ انہوں نے لکھا کہ وہ کئی مرتبہ اس طرح کا بھینس بدل چکا ہے، جب وہ سترکی دھائی میں اردن کے شاہ حسین سے ملنے کے لیےجایا کرتا تھا۔ اردن کے شاہ عبداللہ، ان کے بیٹے اورپوتے کے بارے میں بھی کئی مستند دستاویزات موجود ہیں کہ وہ کئی باراسرائیلی لیڈروں کوخفیہ طریقے اسرائیل کےاندرجاکرملے۔

آج اسرائیل اوراردن کے درمیان گہراتعلق ہے۔ اسرائیل اردن کو سیکورٹی بفرکے طورپراستعمال کرتا ہے۔ اوراردن پانی اورمعاشی استحکام کے لیے اسرائیل پرانحصار کرتا ہے۔ اسرائیلی بڑے اعتماد سے اردن کوایک سٹرٹیجک پارٹنرکہتے ہیں، جس کی وہ امداد وتعاون کے لیے تیار ہیں۔ اوریہ سب اس حقیقت کے باوجود کہ آج اردن میں تقریبا تین ملین فلسطینی پناہ گزین رہتے ہیں، جو کسی عرب ملک میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔
اس بات میں کوئی رازنہیں ہے کہ بحرین اوراسرائیل کےدرمیان انیس سونوے سےخوشگوارتلعقات ہیں۔ اگرچہ بحرین نے رسمی طورپر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اگست دوہزارانیس میں عراق، شام اورلبنان پراسرائیلی فوجی حملوں کےبعدبحرین اوراسرائیل کا تعلق کھل کر سامنے آیا۔ اس موقع پربحرین نے وزیرخارجہ خالد بن احمدالخلیفہ نے اسرائیلی کا دفاع کرتے ہوئےایران کوجارح قراردیا۔
اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کےدرمیان خفیہ مزاکرات مدت سے جاری ہیں۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں ہی امارات نےاسرائیل کوتسلیم کیا۔ یہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا، بلکہ اس کا ایک طویل پس منظرہے۔ اگست انیس سواٹھارہ میں زرائع ابلاغ نےایک خبردی، جس پربہت سارے لوگ یقین کرنے کے لیےتیارنہیں تھے۔ اس خبرکےمطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے نیشنل سیکورٹی گروپ کوعرب امارات کے شہریوں کی جاسوسی کرنے کا ٹھیکہ دیا ہے۔ اس ٹھیکے کےتحت اسرائیلی گروپ نے سپاہی وئیرکے زریعےعرب امارات کے شہریوں کےفون سنے ۔ یہی اسرائیل ساختہ سپاہی وئیراستعمال کرنے کا الزام سعودی عرب پربھی لگتا رہا ہے۔ دوہزاراٹھارہ میں ہی اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے دورہ اومان کےفورابعد اسرائیل کی وزیرثقافت میری ریگیو نے ابوظبہی کا دورہ کیا۔ یہ خاتون ایک انتہاپسند قدامت پرست ہے۔ وہ اسرئیل میں نسل پرستانہ اشتعال انگیززبان استعمال کرنےکی شہرت رکھتی ہے۔ مگراس کا گرم جوشی سےاستقبال ہوا، اوراسےشیخ زائد مسجد کا دورہ کرایا گیا۔ فلسطین کا مقدمہ قومی آزادی کی تحریکوں کی تاریخ کا سب سے مضبوط ترین مقدمہ رہا ہے۔ یہ مقدمہ لڑتے ہوئے انہوں نے قربانی کی قابل رشک مثالیں قائم کی ہیں۔ سیاسی، سفارتی اورمسلح محاذ پرانہوں نے بےمثال جہدوجہد کی۔ ایک وقت میں ایک سپرپاورسویت یونین سمیت آدھی سے زیادہ دنیا ان کے ساتھ کھڑی تھی۔ مگرفلسطینی اس وقت تک اپنی منزل حاصل کرنےمیں ناکام رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ اچھے یا برے تعلقات کبھی بھی فلسطینیوں کےمفاد کےتابع نہیں رہے، بلکہ عرب حکمرانوں کے اپنے زاتی مفادات کےتابع رہے ہیں، جن کووہ قومی مفادات کا نام دیتے رہے۔ اگرامارات کا عمل فلسطین کی پیٹھ میں خنجر ہے تو یہ کوئی پہلا خنجرنہیں ہے، اس سے پہلے ان کی پشت پراندر اورباہرسے کئی حملے ہو چکے ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *