Main Menu

سوال | ڈاکٹر جلال بلوچ

Spread the love

سیاسی عمل مختلف غذاﺅں کا متمنی ہوتا ہے اور اگر یہ غذائیں اسے میسر نہ ہوں تو وہ ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتی۔
جس طرح کسی انسان یا ذی روح کی نشوو نما کے لیے مختلف غذاﺅں کا مقدار کے مطابق ہونا ضروری ہوتاہے اسی طرح کسی بھی سیاسی عمل کی ترقی کے لیے مختلف عوامل کا ہونا ضروری ہے جنہیں اگر سیاسی غذاکہاجائے تو بےجا نہیں ہوگا۔ جیسے تنقید ، اختلاف رائے، تحقیق و تخلیق وغیرہ ۔ اگر ان عوامل کو یکسرنظر انداز کیا جائے تو ترقی کا عمل یکدم سے رک جاتا ہے۔ انہی عوامل کی طرح ”سوال “ کرنا اور اس عمل کو پروان چڑھانا بھی ازحد ضروری ہے بلکہ تنقید ، اختلاف رائے، تحقیق اور تخلیق کے لیے اسی عمل کی توسط سے ہی درکھلتے ہیں اور مزید سوالوں کو جنم دیتاہے جس سے ترقی کا پہیہ چلتا رہتاہے۔ اور اگر یہ شعبہ(سوال) ہی ختم کیا جائے تو پھر نہ تنقید ہوسکتی ہے ، نہ اختلاف رائے کی گنجائش باقی رہتی ہے جس سے تحقیق و تخلیق کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور عمل دھڑام سے زمین بوس ہوجاتا ہے۔
عمومی طور پہ سوال کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے اس کی آسان سی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ بچہ جب بات کرنا شروع کرتا ہے تو وہ ہر دیکھنے والی شئے کے بارے میں سوال کرتا ہے یہی انسان کی جستجو ہے کہ وہ جاننا چاہتا ہے ۔ ۔۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کامیاب انسانوں کی صف میں جگہ بنائیں یا اپنے شعبہ میں مہارت حاصل کریں یا اپنے عمل کی پہچان بنائیں تو ضروری کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سوال کریں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ آئے روز آپ کی صلاحیتیں نکھرتی جاتی ہیں اور جس عمل سے آپ کی وابستگی ہے اسے آئے روز آکسیجن ملتی رہتی ہے۔
زندگی انتہائی آسان ہوجاتی ہے اگر آپ ان سوالوں کا حل تلاش کریں جیسے: کیا ، کیوں یا کس کے لیے ، کیسے، کب اورکہاں ؟
جب ہم عمل کرنے سے قبل درج بالا پانچ سوالوں کا کھوج لگائیں گے تو اس سے ارتقا کا عمل وقت و حالات کی رفتار سے چلتا رہیگا اور تعمیر و ترقی کے نت نئے دریچے کھلتے رہیں گے۔ اگر عمل کرنے سے پہلے ہم سوال کرنے کے عمل سے نہیں گزریں گے تو دورانِ عمل مسائل کا دیو عمل کو دبوچنے کے لیے اپنے بازو پھیلاتا رہیگا اور ہم منزل پہ پہنچنے سے قبل مسائل استان کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹتے رہیں گے۔یہ دراصل احمقانہ پن ہے اور چند افراد جن کے ہاتھوں ایک بڑی اجتماع کی تقدیر ہوتی ہے وہ انہیں شعوری یا لاشعوری طور پہ ڈبونے کا پورا انتظام کرچکے ہوتے ہیں۔ کامیابی کا اصول آسان ہے یعنی عمل سے قبل سوچو! دراصل یہی سوچ طلوع صبح کی نوید ہوتی ہے۔
ہم اکثر اوقات سوال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں یا ایسے افراد بھی ہمیں ملیں گے جو سوال اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں میراقد چھوٹا نہ ہو۔ آسان سی بات یہ ہے کہ ایسے افراد انسانی فطرت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں جیسے ذکر ہوچکا ہے کہ سوال کرناانسانی فطرت کا حصہ ہے اور یہی تجسس اس کے لیے کامیابی کے راستے متعین کرتی ہیں، جوں ہی ہم فطرت کے خلاف کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ناکامی مقدر بنتی ہے اسی لیے اس طرز کے انسان زندگی میں کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دے نہیں سکتے، چاہے وہ اپنی ذات میں خود کوکتنا بڑا ترم خان تصور کرے۔ لہذا کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ ہم سوال کرنے کی اہمیت و افادیت سے مکمل جانکاری حاصل کریں ۔ تب جاکے اس ہنر میں کامران ہوسکتے ہیں کہ سوال کیسے کیا جاتا ہے یا سوال پوچھنے کے اصول کیا ہیں۔ جیسے :سوال کرنے کے لیے مناسب وقت کونسا ہے؟ اور سوال کرنے کے لیے مناسب جگہ کونسی ہے۔؟ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم سوال کرنے کے بعد مایوسی کا شکار ہوتے ہیں یہ مایوسی بسا اوقات کسی فرد سے بھی ہوسکتا ہے یعنی اگر ہم کسی میڈیکل کے طالبعلم سے پُل بنانے کا فارمولہ پوچھیں گے یا کسی انجینئر سے پینسلین کا فارمولہ تو جواب مایوسانہ ہی ہوگا لہذا مناسب جگہ کا خیال اسی لیے رکھا جاتا ہے جب مناسب فرد یا مناسب جگہ پہ سوال کیا جائے تو مدلل جواب کی امیدہوتی ہے جس سے علم میں اضافہ اور سامنے والی کی قدرت و منزلت بڑھ جاتی ہے۔ سیاسی عمل جو بذاتِ خود ایک پیشہ ورانہ عمل ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ سیاسی کارکن سیاست کے تمام داﺅ پیچ پہ عبور حاصل کریں۔ نہیں تو کم علمی کی وجہ سے پورا عمل متاثر ہوگا۔
سوال نہ کرنے کے عمل میں بنیادی بات علم کی کمی اور عمل میں غیر متحرک کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے جو غیر سیاسی رویوں کو ظاہر کرتی ہے یعنی جب ہم نظریہ اور عقیدے میں فرق ختم کریں گے یا نظریہ کو عقیدے کی عینک لگا کر دیکھیں گے تو کبھی بھی سوال کرنے کی جرات نہیں کرسکتے ۔ عقیدہ اندھی اعتماد کا نام ہے، اس میں یہ یقین کامل ہوتا ہے کہ پیدا کرنے والے کا نعم البدل نہیں، وہ ہے تو جہاں ہے ، وہی ہے مالک ، وہی خالق، وہی اول ، وہی آخر۔۔۔
لہذا الفاظ کا ذخیرہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے کیوں کہ مزید تحقیق و تخلیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی اس لیے سوال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔البتہ یہاں بات ہر انسان کی اس کے عقیدے کے مطابق ہورہی ہے اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ اپنے عقیدے کو کامل تصور کرتا ہے اورعیسائی، یہودی، ہندو، سکھ وغیرہ الغرض ہر عقیدہ پرست اپنے عقیدے کو کامل تصور کرتا ہے اور اس میں مزید ترمیم وغیرہ کی گنجائش یا اس پہ تنقید، اختلاف رائے وغیرہ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ لیکن سیاست نظریات کی بنیاد پہ پروان چڑھتا ہے نہ کہ عقیدے کی ۔ لہذا سیاسی عمل کو مزید توانا کرنے کے لیے طریقہ کار سے لے کر قیادت تک سب سوالات کے جکڑ میں رہتے ہیں۔ اگر سیاست یا سیاسی عمل کے متعلق سوالات نہیں ہوتے تو ہم آج تک ارسطو کے سیاسی نظریے پہ ہی اکتفا کرتے اور کوئی سکندر آج بھی دنیا پہ حکمرانی کا اہل قرار دیا جاتا، آج بھی عورتوں کو سیاسی و سماجی حقوق حاصل نہیں ہوتے ، آج بھی غلاموں کو انسان تصور نہیں کیا جاتا وہ آج بھی شہری(سیاسی) حقوق کا اہل نہیں ہوتے، اگر ارسطو کا نظریہ سیاست حرف آخر ٹہرتا تو آج دنیا میں سینکڑوں ریاستوں کا وجود ہی ممکن نہیں ہوتا، اگر ہم سیاست کے اولین دور کو کامل تصور کرتے تو سوشلزم ، کمیونزم اورنیشنل ازم وغیرہ کا دوام ممکن ہی نہیں ہوتا۔اگر ہم اسی دور میں پرورش پارہے ہوتے تو معاشی اور سماجی ترقی ہی ممکن نہیں ہوتی اور چیزیں ایک مخصوص سوچ تک محدود ہوکے اسی دائرے (سرکل) میں گردش کرتے رہتے۔
یہ سوال ہی تو ہے جس سے زندگی خوبصورت رنگوں کا امتزاج بن جاتا ہے اگر سب انسان ایک ہی زاویے سے سوچتے تو کیا تخلیق ممکن ہوتی یا افلاطون، سقراط، نیوٹن، گلیلو، مارکس اور روسو تاریخ رقم کرتے ۔ اگر سوال کا تصور نہیں ہوتا تو کیا نت نئی چیزوں کی دریافت ممکن ہوتی ، اگر سوال ہی نہیں ہوتا تو کبھی ہم چاند پہ قدم رکھنے والوں میں شمار ہوتے اور اگر سوال ہماری فطری میراث نہیں ہوتی توکیا ہم سماج اور ریاست سے بلد ہوتے۔ سوال ہی تو ہے جو تعمیر و ترقی کی نت نئی راہیں متعین کررہی ہیں۔۔۔
سوالات ابتدائی مرحلے سے لے کرموضوع کے انجام تک استعمال کیے جاتے ہیں۔جس سے مزید نت نئی موضوعات جنم لیتے رہتے ہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ اگر کوئی سیاسی کارکن کوئی سوال اٹھائے یا سوال پوچھے تو اسے حقائق کی روشنی میں اس کا جواب دیا جائے یہ دراصل جواب دینے کا فطری اصول ہے جیسے کہتے کہ ” بچہ جب کسی شئے کے بارے میں پوچھے تو اسے اس چیز کی حقیقت بتادینی چاہیے، یہاں ٹالنے اور غیر فطری جواب نہ صرف بچے کی شخصیت پہ اثرات انداز ہوگی بلکہ وہ حقائق جاننے کے لیے کھوج لگانے کی کوشش کرتا رہیگا اور جہاں سے اسے کوئی تسلی بخش جواب مل گیا وہ اسی پہ اکتفا کرے گا چاہے وہ جواب حقائق کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا ضروری ہے کہ سیاسی بچوں(کارکنان) کو بھی سچائی کا آئینہ دکھایا جائے جسے سقراطی طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف سیاسی کارکنان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا بلکہ وہ اسی عمل یعنی سقراطی طریقہ کے مطابق آگے بڑھتا رہیگا اور سوال کرنے کا کلچر پروان چڑھتا رہیگا جس سے ترقی برق رفتاری سے جاری رہے گا۔
توآئیے سوال کرنے کے عمل کو پروان چڑھائیں تاکہ سیاسی ترقی کا عمل تیز تر ہو، جس میں منزلِ مقصود کا راز پوشیدہ ہے۔

(یہ تحریر سنگر میں پہلے چھپ چکی ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *