Main Menu

گلگت بلتستان الیکشن ، مسائل اور حل ؛ تحرير: قمر عزیز

Spread the love

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان الیکشن تمام تر پرجوشیوں ، وعدوں ، دعووں الزامات ، خوشی و ماتم کے ساتھ اختتام کو پہنچے ۔ یہ الیکشن کئ حوالوں سے انتہائی اہم تھے تقریبا تین ماہ الیکشن مہم رہی ، پورے دورانیے میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس ہوئی وہ مقامی پارٹی یا شخصیت کی تھی ۔ مقامی پارٹی کا وجود تک نہیں دیکھا گیا نہ ہی نواز خان ناجی کے علاوہ کوئی بہتر موقف رکھنے والی پراثر شخصیت نظر آئی ۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہی مقابلہ رہا اور فیصلہ بھی گلگت کے بجائے اسلام آباد میں ہوا ۔ فیصلہ کن مرحلے تک پاکستانی پارٹیوں کا متبادل نظر نہیں آیا بلکہ اسلام آباد کا بیانیہ بھاری دیکھائی دیا 2008 کے بعد کسی حد تک مزاخمت نظر آئی لیکن وہ اس قدر طاقت ور نہ تھی کے قومی بیانیے پہ لوگوں کو یکجا کر سکے ۔ گلگت بلتستان کی محرومیاں وہاں کے حقوق پہ ڈاکہ عشروں سے ہے اس کا حل نہیں تراشہ گیا بلکہ انہی لوگوں کو پھر نامزد کر دیا گیا جو انسانی حقوق انسانی و آزادیوں پہ قدغن ، سیاسی و معاشی مسائل کی وجہ ہیں ۔

گلگت بلتستان کے لوگوں نے شاید کسی مثبت تبدیلی کے لیے ووٹ کا استعمال کیا ہو لیکن ماضی کے تجربات سے پتا چلتا ہے یہاں مسائل لوٹنےوالے ہی مسلط ہوئے ہیں ۔ ریاست پاکستان خود مسائلستان ہے ۔سیاست معیشت تعلیم روزگار آخری حدوں کو چھو رہے ہیں غریب دن بدن روٹی سے دور ہو رہا ہے ، تعلیم زوال پزیری کا شکار ہے ، معشیت آئی ایم ایف کی سمتوں پہ چلتے ہوئے ہر حد پار کر چکی تو سیاست چند منظورنظر طاقتور حلقوں کے ہاتھوں یرغمال ہے ۔ ایسے میں گلگت کے مسائل کا حل ناممکن ہے بلکہ خدشہ ہے جو حقوق ہیں وہ بھی نہ چھین لیے جائیں ۔ الیکشن کے دورانیے میں اسیر بابا جان و دیگر کے لیے عوامی سطح پہ مہم نہ ہو سکی جو وہاں کی قیادت کے لیے سوالیہ نشان ہے ۔ 23 میں سے نواز خان ناجی کی صورت میں ایک مزاخمتی آواز موجود ہے لیکن اس آواز میں شاید وہ طاقت نہ ہو جو سمجھی جاتی ہے ۔

پاکستان کے مسلط کردہ کالے قوانین کے تحت ہونے والے الیکشن کی شفافیت پہ سوالات ہیں لیکن یہ سوالات بھی گلگت میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہیں ۔ اقتدار کا راستہ طاقتور حلقوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں گلگت کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں کا اسٹیس قرار دیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی ستر سالہ تاریخ بتاتی ہے صوبہ مسئلے کا حل نہیں ۔ اگر اسٹیس مسائل کا حل ہوتا تو بلوچستان کی نسلیں قربان نہ ہوتی ، پشتون مر مر کے نہ جی رہے ہوتے ، سندھی آج بھوک پیاس ننگ کا شکار نہ ہوتے ، پنجاب کی سڑکیں بھیگ مانگنے والوں سے بھری نہ ہوتی ۔

بلوچستان میں حق مانگنے والوں کو عبرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے گلگت بلتستان پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے ۔ گلگت بلتستان الیکشن کا مقبول نعرہ صوبائی اسٹیس رہا۔ کیا صوبائی اسٹیس سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے ؟ وہاں چار ممالک کے خفیہ ادارے ختم ہو جائینگے ؟ مسائل حل ہو سکیں گے ؟انسانیت پہ مبنی سماج بن جائے گا ؟ جس نظام کے تحت پاکستان چل رہا ہے اس نظام میں مسائل کا حل ناممکن ہے محض نظام میں اصطلاحات سے عشروں سے پستی عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے بلکہ مسائل بڑھتے جاتے ہیں ۔ ایک ایسا ملک جو خود بیساکھیوں پہ چل رہا ہو وہ کس طرح گلگت بلتستان کے مسائل حل کر سکتا ہے ؟ جہاں نہ سیاست آزاد نہ معاشی پالیسی بااختیار نہ کوئی نظام ریاست واضع ایسے میں ان الیکشن کا حاصل کل بھی وہی جو آزاد کشمیر کے ستر سالہ محرومیاں ہیں ۔

نواز خان ناجی امید کی کرن ہے اگر کچھ بھی نہ کر سکا ایک شعوری لڑائی ضرور لڑے گا گلگت بلتستان یا آزاد کشمیر یہاں اقتدار اسلام آباد کی دین ہوتی ہے ۔ پالیسی ساز حلقے ووٹ سے مدتوں سے کھلواڑ کرتے اور یہاں قبضے کو طوالت بخشنے عام آدمی کا استعمال کرتے آئے ہیں ۔ مسائل کے نام پہ یہاں ہر بار چہرہ بدلنے کی رسم ہوتی ہے ستر سالہ تاریخ میں اگر کچھ بدلہ ہے وہ چہرے ہی بدلے ہیں ۔ گلگت بلتستان آزاد کشمیر میں اگر مسائل ہیں تو اس کی وجہ مقامی قیادت مقامی پارٹی کا فقدان ہے جب تک یہ فقدان رہے گا سیاہ رات یونہی طویل رہے گی ۔ اقتدار کی لڑائی اسلام آباد میں ہوتی رہے گی مسائل مزید پیچدہ ہوتے رہیں گے وقت اور حالات کا تقاضہ ہے گلگت بلتستان کے الیکشن سے سبق سیکھا جائے ، غیر ملکی افراد یا سہولتکاروں کا راستہ روکا جائے عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے عوامی سیاست کو ترجیخ دی جائے ۔

اگر کالے قوانین تلے عوام سے دور رہ کر جدوجہد ہوتی رہی تو نتائج بھیانک ہونگے مسائل بڑھیں گے پالیسی ساز انہی مسائل پہ شناخت چھینيں گے ۔ آج وقت بھی ہے حالات بھی کہ سمتوں کے تعین کے لیے جدوجہد کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ایک ایسی لڑائی کے لیے تیار ہوا جائے جو تین کروڈ انسانوں کی آزادیوں کے لیے ہو ۔ ایک ایسی جدوجہد جہاں عام آدمی اعتماد میں ہو ۔ یہی وقت کا تقاضا ہے یہی قوم کی امید ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *