Main Menu

عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد

Spread the love


انسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہی اہمیت کی حامل رجحان ہے۔ لیکن اس سے کئی زیادہ انسان کی عملی رجحان مفید و کارمند ہوتی آئی ہے۔ انسان ہمیشہ سے عملی اور نظریاتی رجحان میں سے آخرالذکر رجحان میں زیادہ سرگرم و فعال رہی ہے۔ جبکہ انسان کی ارتقاء اور زوال میں عملی ہونے کی زیادہ ضرورت و تقاضا تھی اور ہے۔ اگرچہ نظریاتی ہونا انسان کی ارتقاء میں بڑے پیمانے پر مفید تو رہی ہے لیکن اگر ہم انسانی زوال کی صورتحال دیکھیں تو بہت ہی کم عملی ہونے کی وجہ سے انسانی ارتقاء سے کئی زیادہ انسان کی زوال ہوتی آئی ہے، اور یہ اس لیے کہ انسان ہمیشہ نظریاتی ہونے میں زیادہ فعال رہا ہے اور یہی صورتحال اپنے اصل مقصد اور تقاضوں کے تکمیل کیے بغیر جو عملی ہونے سے ممکن تھے رائیگاں گزرتی آئی ہے، اور گزرتی جائے گی اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو۔ چنانچہ، اگر انسان نے نظریاتی ہونے سے ذیادہ عمل کیا ہوتا تو آج نہ صرف انسانی زوال کا تناسب یقینا اتنی بڑی پیمانے پر نہ ہوتی بلکہ انسانی یا معاشرتی ارتقاء میں اور زیادہ بہتری اور خوبصورتی آتی۔
مذکورہ نقطہ نظر سے میرا یہ مطلب ہے کہ خواہ ماضی کے یا حال کے فلسفی، دانشور ادیب جیسے شخصیات ہمیشہ صرف نظریاتی ہوتے آئے ہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی سرگرمیوں، مطالعے و تحقیق میں وہ صرف نظریے پیدا کرنے یا سوچ و فکر کرنے کے عمل و رجحان میں ملتی ہیں، یعنی کہ انہوں نے اپنی زندگی و وقت اپنے توانائیاں سوچنے اور نظریے پیدا کرنے میں ضائع کی ہیں اور کرتے آئے ہیں جو کہ بری بات تو نہیں ہے لیکن اگر ہم توڑا غور وفکر کر کہ دیکھیں تو وہ صرف اور صرف اسی رجحان و کیفیت میں مصروف عمل ہوتے آئے ہیں جو انسانی ارتقاء میں بہت کم مفید رہا ہے جبکہ انسانی زوال میں، یہ نہیں کہ انسان کی نظریاتی رجحان کی وجہ سے بہت محرک کار رہی ہے بلکہ صرف نظریاتی انداز و فکر کے اپنانے کے سبب رہی ہے کیونکہ صرف سوچنے یا نظریاتی ہونے سے انسانی یا معاشرتی ارتقاء و تبدیلی ممکن نہیں ہوتی بلکہ آج اگر اتنا انسانی یا معاشرتی ارتقاء و تبدیلی ہوئی ہے تو وہ انسان کی عملی ہونے کے سبب یعنی کہ وہ نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی صورت میں بھی بہت سرگرم اور فعال رہا ہے۔
در حقیقت عملی رجحان نے ہی انسانی و معاشرتی ارتقاء و تبدیلی ممکن بنائی ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو بغیر عمل کے نظریہ یا صرف سوچنے کا فعل انسانی و معاشرتی ارتقاء کے میدان میں کوئی معائنے نہیں رکھتی۔ مثلا، اگر آپ ایک گاڑی بنانے کا سوچ رہے یا منصوبہ بنا رہے ہیں تو اس گاڑی کو تخلیق کرنے کیلئے آپ نے بہت سے عملی کام انجام دینا ہوگا، تب جاکے آپ اس گاڑی کی تخلیق کے عمل کو پورا کر سکتے ہو اور اسے دوڑا سکتے ہو۔ اس طرح اس پہ صرف سوچنا یا منصوبہ بنانا اور عمل نہ کرنا یہ آپ کا نظریاتی رجحان ہوتا ہے۔ جبکہ اس پر عمل کر کے آپ نے قدم بہ قدم ہر وہ اوزار و مواد لگانا یا ڈالنا ہوگا جو اس کے تخلیق کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ یہ آپ کا اس سوچ و نظریہ کے اوپر عملی رجحان ہوتا ہے۔ چنانچہ، اپنے مقصد یا منصوبہ کیلئے نظریہ ضروری تو ہوتا ہے لیکن اس سے کئی زیادہ عمل کرنا ضروری ہوتی ہے۔ برزکوہی اپنے ایک آرٹیکل میں چند مثال پیش کرکے کہتا ہے کہ “بغیر عمل کے علم اس پانی کی مانند ہوتا ہے جو ضرور گہرا اور پھیلا ہوتا ہے لیکن ایک جگہ پر رکا ہوا اور بدبودار ہوتا ہے۔ یا بغیر عمل کے علم وہ گاڑی ہے جس میں شروع سے پٹرول کی ٹینکی کی کوئی جگہ نہیں۔ یا بغیر عمل کے علم وہ کرسی ہے جس کی چاروں ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔” برزکوہی کے ان مثالوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وہ علم نظریے کی ہی ترجمانی کر رہا ہے۔ انسان نظریہ علمی بنیاد پر ہی رکھ سکتا ہے یا پیدا کر سکتا ہے۔
یقینا عمل سے آپ چیزوں کو تبدیل کر سکتے ہو۔ عمل سے آپ اپنے مقصد کی تکمیل کر سکتے ہو۔ عمل سے آپ انسانی و معاشرتی ارتقاء کر سکتے ہو۔ بغیر عمل کے نظریہ اس گاڑی جیسا ہے جس کو تخلیق کرنے کے بارے میں آپ نے سوچا تو ہے لیکن عمل نہ کر کے اس کی بنیاد تک نہیں رکھی ہے۔ لہذا، آپ جتنا بھی اس گاڑی کے تخلیق پہ نظریاتی رہو، جتنا بھی سوچو یا منصوبہ بناو، جب تک آپ نے عمل نہیں کیا ہے گاڑی کے تخلیق کا مقصد پورا نہیں کر سکتے۔ اور اگر ان ضروری وسائل و اوزاروں میں سے ایک بھی کم ہو یا نہ ڈالا یا لگایا جائے تو گاڑی کے تخلیق کا مقصد اپنے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا جس سے گاڑی اپنے رسمی طور پر نہیں چل سکے گی۔ اسلیئے، اگرچہ، عمل کرنا شروع کر بھی لو لیکن اگر اس عمل میں کوئی کمی یا کمزوری ہو تو وہ اپنے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا یا آپ کے نظریے و منصوبے سے سازگار نہیں ہوگا، یعنی کہ گاڑی نہیں چل سکے گی اگر اس میں ایک بھی ضروری اوزار یا مواد کی کمی ہو۔ اسلیئے نظریے کے ساتھ ساتھ عمل انتہائی ضروری ہے لیکن ایک مکمل اور بہترین عمل جب تک نہ ہو تو مقصد ادھورا رہے اور نظریاتی صورحال تو ویسے بھی لاحاصل ہوگا۔
چنانچہ، انسانی ارتقاء یا معاشرتی ترقی و تبدیلی میں ہمیشہ انسان کی عملی رجحان کار آمد رہی ہے نہ کہ نظریاتی۔ نظریہ و سوچ کے بغیر عمل مفید رہا ہے لیکن عمل کے بغیر نظریہ کسی بھی صورتحال کیلئے کار آمد ثابت نہیں ہوا، بلکہ نظریے بغیر عمل کے ہمیشہ انسانوں کے مطالعاتی یا تحقیقی سرگرمیوں میں کوئی مثبت یا فائدہ مند نتیجے و اثرات پیدا کئے بغیر رائیگاں گئی ہیں۔ اگر کل سے آج تک انسان نظریاتی ہونے سے زیادہ عملی ہونے کو ترجیح دیتا یعنی کہ عملی رجحان میں زیادہ سرگرم و فعال ہوتا تو آج انسانی ارتقاء اور بھی خوبصورت بہتر قابل قبول اور پسندیدہ ہوتا، انسان کی معاشرتی نظام اور حالات و رجحانات ایک بہترین انداز و صورت میں ہوتے۔ انسان کی زندگی کے تقاضوں کیلئے جتنا عملی رجحان کی ضرورت رہی ہے اور ابھی بھی ہے اتنا نظریے کی نہیں تھیں اور نہ ہے۔ مگر پھر بھی انسان ہمیشہ نظریاتی رجحان میں زیادہ، بلکہ ضرورت سے زیادہ رہتا آرہا ہے۔
اگر ہم مغربی تہذیب اور مشرقی تہذیب کو موازنہ کر کے دیکھیں تو مغرب مشرق سے کئی زیادہ ہر اعتبار سے آگے ہے۔ ترقی، امن، خوشحالی، انصاف، صنفی مساوات، حقوق کے تحفظ اور دہشتگردی، قتل و غارتگری نہ ہونے کے برابر جیسے رجحانات وہاں مشرق کے مقابلے میں کئی زیادہ پائے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا بہت پہلے کہ صرف نظریاتی ہونے سے انسانی و معاشرتی ارتقاء و تبدیلی ممکن نہیں بلکہ اس سے کئی زیادہ عملی ہونا ضروری ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے فلسفی، دانشور اور ادیبوں کے نظریے کو عملی جامہ پہنا کر اپنی ارتقاء ایسے کر چکے کہ اگر دیکھا جائے تو نہ صرف انہوں نے دنیا کے ستر فیصد کو مسخر کرتے آئے ہیں بلکہ ترقی و ارتقاء کے اعتبار سے مشرق سے کئی زیادہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ اگر مشرق نے بھی اپنی ارتقاء و معاشرتی نظام اور حالات کے تبدیلی کیلئے نظریے سے زیادہ عمل کیا ہوتا تو آج مشرق کی صورتحال بھی مغرب جیسا خوشحال، پرامن اور آذاد ہوتا۔ یہ نقطہ نظر بالکل قابل تردید و تنقید نہیں کہ مشرق کیسے آذاد خوشحال اور پرامن نہیں ہے۔ ان تینوں جیسے اور بھی مثبت رجحانات کے مشرق میں عدم موجودگی روز روشن کی طرح عیاں ہے جن کے متعلق وضاحت دینے کی ضرورت بھی نہیں۔
انصاف، آذادی، خوشحالی، امن، صنفی مساوات اور آذادی اظہار جیسے مثبت رجحانات و صورتحال کی مشرقی تہذیب میں عدم موجودگی اور دہشتگردی، قتل و غارت، اغواء برائے تاوان، لوگوں کو اغواء و لاپتہ کرنے کا تسلسل، انسانی حقوق کے خلاف ورزی و پامالی جیسے منفی رجحانات و صورتحال کا مشرقی تہذیب کو درپیش ہونا یہ سب مشرق کی عدم عملی اور ضرورت سے زیادہ نظریاتی ہونے کے سبب ہیں۔ انسان، خاص طور پر مشرقی تہذیب اپنے مسائل و مصیبتوں یا منفی و برے حالات اور مشکلات سے بچنے کیلئے یا ان کا خاتمہ کرنے کیلئے ہمیشہ نظریاتی رجحان میں زیادہ سرگرم رہتی آئی ہے یا صرف نظریاتی انداز و فکر اپناتا آرہا ہے جبکہ مذکورہ جیسے تسلسل یا حالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے عملی اقدامات یا انداز و فکر جیسے رجحانات نہ ہونے کے برابر رہی ہیں جو کہ ابھی تک یہی صورتحال نظر آتا ہے۔
ہمیں ہمیشہ سے دیکھنے کو ملتا آیا ہے کہ جب بھی انفرادی یا اجتماعی طور پر کوئی مسئلہ و مصیبت یا ناگزیر حالات رونما ہوتے ہیں تو وہ فرد یا اجتماع ان سے نجات پانے یا چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے عملی طور پر کبھی تیار نہیں ہوتا، البتہ نظریاتی طور پر بے حساب تیار ہوتے ہیں۔ حالانکہ، ہزاروں نظیر استدلال اور منطق مذکورہ جیسے صورتحال کے متعلق ملیں گی کہ ان سے بچنا یا چھٹکارا حاصل کرنا عملی رجحان و انداز سے ممکن رہی ہیں اور ممکن ہیں نہ کہ نظریاتی انداز و صورت میں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عملی رجحان نے ہی انسانی و معاشرتی ارتقاء و تبدیلی کو ممکن بنایا ہے اور ممکن بنا سکتا ہے۔ بغیر عمل کے نظریہ کچھ بھی نہیں ہے چاہے وہ آپ کا اپنا نظریہ ہو یا کسی دوسرے کا، جب تک اس کو آپ نے عملی صورت و انداز میں آزمایا نہیں ہے یا عملی جامہ پہنایا نہیں ہے تو یقینا وہ بے کار ہے۔ بے معنی ہے۔ اس کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں۔ بقول برزکوہی “بغیر عمل کے نظریہ اس گاڑی جیسا ہے جو گاڑی تو ہے لیکن اس میں انجن نہیں ہے۔” یا نظریہ بغیر عمل کے کوئی گاڑی یا جہاز کی موجودگی میں اس میں انجن یا اہم و ضروری حصہ نہ ہونے کے مترادف ہے جو خود وجود تو رکھتی ہے لیکن بے کار و بے مقصد ہے۔
مزید براں، ہر سوچ و نظریہ کیلئے ضروری ہے کہ اس پر اگر سو فیصد نہیں تو دس سے بیس فیصد کم سے کم حکمت عملی ہو جس پر انسان عمل کر کے اپنے یقینی نظریے و منصوبے کو کسی حد تک عملی شکل میں پورا کر سکے۔ چنانچہ، انسان، فرد یا کوئی قوم جن کو اگر کسی بھی طرح کے منفی و برے حالات اور مشکلات، نظام یا کوئی بری صورتحال درپیش ہوں تو اسے چاہیے کہ ہرحال میں عملی طور پر ان سے نپٹنے کےلئے تیار ہو۔ انسان غور و فکر کرے کہ اگر اس کے اوپر کوئی ایسی حالت و صورتحال ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا یا نجات و آذادی حاصل کرنا ضروری ہے، یا اس کیلئے کسی چیز کو تخلیق کرنا یا حرکت میں لانا ضروری ہے تو وہ انتظار نہ کرے کہ کب وہ اپنے آپ ہونگے۔ اس کےلئے یقینا انسان کی عملی محنت کوشش اور لگن ضروری ہے۔
مندرجہ بالا نقطہ نظر کے تناظر میں اگر بلوچ قوم کی بات کریں تو ان پہ جو حالات اور نظام مسلط کیا گیا ہے ان سے چھٹکارا، نجات یا آذادی حاصل کرنے کیلئے صرف اور صرف بلوچ قوم کو عملی ہونے کی انتہائی ضرورت ہے۔ لیکن دکھ و افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ وہ مذکورہ صورتحال سے بچنے یا اپنے قومی مقصد کے حصول کیلئے عملی طور پر تیار ہیں اور نہ ہی نظریاتی طور پر۔ اگر جن افراد یا لوگوں میں کسی حد تک نظریاتی رجحان نظر آتا ہے بھی ہے تو وہ عملی صورت میں قطعا تیار نہیں، اور نہ ہی عملی رجحان میں سرگرم عناصر کی کسی طرح کی حمایت کرنے میں تیار ہے۔
اگر آپ فرض کریں کہ وہ فرد جو اس اپاہج کی خدمت میں ہے اگر ظالم ہو، بےرحم ہو، استعمار ہو, استحصال کرنے والا ہو، بےایمان ہو تو وہ اس اپاہج کے مطالبات اس کے مرضی و مطابق پورا کر سکتا ہے؟ مثلا، اگر کوئی یرغمالی قیدی ہے، تو وہ اگر کچھ بھی چاہے یا اپنی مرضی سے کرنا چاہے تو اسے یرغمال کرنے والا اس کی مطالبات مانے گا؟ جی بالکل نہیں۔ چنانچہ، بلوچ قوم کی حالت و کیفیت یا اس کی مثال اس اپاہج کی حالت جیسی ہے جس کا خدمت گار اگر ایماندار، رحیم اور عادل ہوتا تو بھی ٹھیک لیکن بدقسمتی سے وہ ایک ظالم، بےرحم، بےایمان، استعمار و استحصال کرنے والا ہے، یا اس یرغمالی قیدی جیسی ہے جس کے ساتھ یرغمال کرنے والے کی کیسے سلوک ہوتی ہیں یہ ہر کوئی خوب جانتا ہے۔ لہذا، ایسا نہیں ہے کہ بلوچ قوم اپاہج کے مرض سے یا یرغمالی حالت سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کےلئے جیسے بھی نظام و حالات ہیں ان سے چھٹکارا و نجات حاصل کرنے کیلئے کئی راستے و ذرائع ہیں جو عملی صورت میں ممکن ہیں، بشرطیکہ بلوچ قوم عملی صورت میں تیار ہو۔ کسی دوسرے پر انحصار کرنے سے بہتر ہے کہ بلوچ قوم ہر چیز اپنی مرضی، اپنی آذادی، اپنی بساط و قوت سے کرے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *