Main Menu

میں ایک غلام ہوں (ناول: اسپارٹیکس۔ مصنف: ہاورڈ فاسٹ۔ مترجم: شاہ محمدمری)

Spread the love

’میں ایک غلام ہوں, میرا خیال ہے کہ یا تو غلام کا دِل پتھر کا ہونا چاہیے یا پھر ہونا ہی نہیں چاہیے۔‘‘ سپارٹیکس
’’پتھر روتے ہیں!‘‘ سیاہ فام نے کہا۔ ’’اور جس ریت پر ہم چلتے ہیں وہ ریت ماتمی گریہ کرتی ہے، مگر ہم نہیں روتے‘‘۔
’’ہم گلیڈئیٹر ہیں‘‘۔ سپارٹیکس نے جواب دیا۔
’’کیا تمھارا دِل پتھر کا بنا ہوا ہے؟‘‘
’’میں ایک غلام ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یا تو غلام کا دِل پتھر کا ہونا چاہیے یا پھر ہونا ہی نہیں چاہیے۔ تمھارے پاس یاد کرنے کو سہانی یادیں ہیں، مگر میں ایک کرّو ہوں اور میرے پاس ایسی کوئی یاد نہیں جسے خوب صورت کہا جا سکے‘‘۔
’’کیا یہی سبب ہے کہ یہ منظر بھی تمھیں ہلا نہ سکا؟‘‘
’’یہ منظر مجھے کیا ہلا پائے گا؟‘‘ سپارٹیکس نے سردمہری سے جواب دیا۔
’’میں تمھیں نہیں جان سکا سپارٹیکس! تم گورے ہو اور میں سیاہ فام۔ ہم مختلف ہیں۔ میرے وطن میں جب کسی کا دِل یاس اور محرومی سے بھر جائے تو وہ روتا ہے۔ مگر تم تھریشنیز کے آنسو تو جیسے سوکھ گئے ہوں۔ میری طرف دیکھو۔ تمھیں کیا نظر آ رہا ہے؟‘‘
’’میں ایک مرد کو روتا ہوا دیکھ رہا ہوں‘‘۔ سپارٹیکس نے کہا۔
’’تو کیا اِس وجہ سے میں کم تر مرد بن رہا ہوں؟ میں تمھیں بتاتا ہوں سپارٹیکس! میں تم سے نہیں لڑوں گا۔ ان پر پھٹکار ہو، لعنت ہو، ابد تک لعنت۔ میں تم سے نہیں لڑوں گا۔ میں تمھیں بتائے دیتا ہوں‘‘۔
’’اگر ہم نہیں لڑیں گے تو دونوں مارے جائیں گے‘‘۔ سپارٹیکس نے آہستگی سے جواب دیا۔
’’تو پھر تم مجھے قتل کر دو میرے دوست۔ میں زندگی سے تنگ آ گیا ہوں۔ میں زندگی سے بے زار ہو گیا ہوں‘‘۔
’’خاموش رہو‘‘۔ سپاہیوں نے کمرے کی دیوار بجا کر حکم دیا مگر سیاہ فام مڑا اور اس نے دیوار پر اِس زور کا مُکّا مارا کہ سارا کمرہ ہل کر رہ گیا۔ پھر وہ فوراً رُکا اور چہرہ ہاتھوں میں لیے بنچ پر بیٹھ گیا۔
سپارٹیکس چل کر اُس کے پاس آیا، اس کا سَر اُوپر اٹھایا اور اس کی پیشانی پر سے پسینے کے ننھے قطرے صاف کیے۔
’’گلیڈئیٹر! کسی گلیڈئیٹر کو دوست نہ بنا‘‘۔
’’سپارٹیکس! انسان پیدا کیوں ہوا؟‘‘
’’زندہ رہنے کے لیے‘‘۔
’’کیا یہ جواب مکمل ہے؟‘‘
’’مکمل جواب!‘‘۔
’’میں تمھارے جواب کو نہیں سمجھتا، تھریشین!‘‘
’’کیوں؟ میرے دوست؟‘‘ سپارٹیکس نے التجا کے انداز میں پوچھا۔ ’’ایک بچہ بھی میرا جواب سمجھ سکتا ہے۔ یہ بہت سادہ سی بات ہے‘‘۔
’’یہ جواب میرے لیے نہیں ہے‘‘۔ سیاہ فام نے کہا، ’’اورمیرا دل اِن لوگوں کے لیے دُکھ رہا ہے جو مجھ سے پیار کرتے تھے‘‘۔
’’کئی دوسرے بھی تم سے پیار کریں گے‘‘۔
’’مزید نہیں‘‘۔ سیاہ فام نے کہا۔ ’’مزید کوئی نہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ناول: اسپارٹیکس۔ مصنف: ہاورڈ فاسٹ۔ مترجم: شاہ محمدمری)
(ص90-89 باب سوم، حصہ 9)






Related News

ہمیں اسلام آبادسے دہشتگرد کہہ کر نکالا گیا،اب ہمارے وطن سے نکل جاؤ، ڈاکٹر ماہ رنگ

Spread the loveڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹیRead More

بلوچستان میں انسانی بحران بوسنیا اور ہرزیگووینا سے کہیں زیادہ سنگین ہے | ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سے خصوصی انٹرویو

Spread the loveآزادی پسند بلوچ رہنما اورمسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *