Main Menu

مقدمہ اور وکیل ؛ تحرير: شفقت راجہ

Spread the love


ہمارے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست کشمیر یا جموں کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ ہے لیکن اگر گزشتہ پانچ صدیوں کے ہی نقشہ جات دیکھے جائیں تو متعدد بار اس خطے میں کبھی کشمیر کی سیاسی اکائی ابھرتی ہے تو کبھی مٹ جاتی ہے۔ آخری بار اس خطے میں متحدہ ریاست جموں کشمیر و لداخ کی سیاسی اکائی 1846 میں نمودار ہوئی تھی جسے تقسیم برصغیر 1947کے دوران بھارت و پاکستان کے درمیان متنازعہ و منقسم ہو جانے کے بعد سے آج تک اقوام متحدہ کے عالمی نقشہ 2020 میں دیکھا جا سکتا ہے یعنی ریاست جموں کشمیر بھارت، پاکستان اور چین کے زیرانتظام اور تقسیم ہو جانے کے باوجود آج بھی قانونی وجود رکھتی ہے اور ایک حل طلب بین الاقوامی تنازعہ کی شکل میں محفوظ بھی ہے۔
پس منظر سے پیش منظر کچھ یوں ہے کہ ریاست جموں کشمیر و لداخ میں موجود متوقع بھارت اور پاکستان کی ہمنوا سیاسی قیادتوں نے 1947 میں اپنی ریاست کو بچانے کی بجائے اسکی تقسیم اور اقوام متحدہ میں ایک تنازعہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے بدلے بہت کم مراعات پر اپنی تسلی تشفی کر لی تھی اور وہی سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ بھارتی زیرانتظام متنازعہ ریاستی حصے جموں کشمیر کو جب دہلی سے انتظامی طور پر جوڑنے کی بات آئی تو بھارت نواز قیادت شیخ عبداللہ بھی مہاراجہ ہری سنگھ کے مشروط معاہدہ الحاق تک محدود رہے اور بھارت کیساتھ آرٹیکل 370 کے ذریعے صرف الحاق میں شامل دفاع، خارجہ، مواصلات اور ان سے جڑے امور تک ریاست میں بھارت کے آئینی و انتظامی اختیارات کا تعین ہو گیا جبکہ دیگر امور میں ریاست اپنے الگ جھنڈے، آئین اور اسمبلی سمیت بااختیار تھی۔ بعدازاں معاہدہ دہلی 1952 میں شیخ عبداللہ ہی کی معاونت سے دروازہ کھلا اور مرکز دہلی کو مزید اختیارات سونپ دیے گئے جس سے ریاست میں بھارتی صدر، قومی پرچم اور سپریم کورٹ وغیرہ کو بھی تسلیم کر لیا گیا البتہ باشندہ ریاست قانون کی ضمانت رکھی گئی جو 1954 میں آرٹیکل 35A کی آئینی شکل میں منظور ہو گئی، یہ سلسلے دراز ہوتے گئے اور ان کے ساتھ ریاست میں حکومتیں بنانا اور گرانا دہلی کا مشغلہ بن گیا۔ متنازعہ ریاست کے اس حصے میں بھارت کی آئینی و انتظامی تجاوزات میں جہاں جو کوئی کسر رہتی تھی وہ بعد کی ریاستی حکومتوں نے پوری کر دی اور نوے کی دہائی تک 47 صدارتی حکمناموں کو ریاستی حکومتوں کی منظوری کے ساتھ بھارتی آئین کی 395 دفعات میں سے 260 اور 97 یونین لسٹ کے 94 امور کا اطلاق ریاست جموں کشمیر میں بھی ہو چکا تھا اور یوں معاہدہ الحاق تک محدود آرٹیکل 370 کا صندوق باشندہ ریاست قانون کی ضمانت یعنی آرٹیکل 35A کی نشانی اور چند امور کے علاوہ ریاستی اختیارات کے معاملے میں تقریباً خالی ہو چکا تھا کیونکہ وہ اختیارات دہلی منتقل ہو چکے تھے۔
گزشتہ برس بھارتی زیرانتظام ریاست جموں کشمیر کے حکومتی اتحاد سے بی جے پی کے منصوبہ بند تخلیہ اور وہاں منتخب ریاستی حکومت کے خاتمے کے بعد اسمبلی کی بساط لپیٹتے ہوئے گورنر راج نافذ کیا گیا اور اسی دوران 5 اگست 2019 کو ریاست میں مکمل لاک ڈاؤن اور تمام سیاسی قیادت کو قید و نظربندی میں رکھتے ہوئے بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا اور پھر لوک سبھا سے منظوری کیساتھ صدارتی حکم کے مطابق آرٹیکل 370 میں ترمیم کے تحت 35A کو ریاستی اسمبلی یا حکومت کی توثیق کے بغیر ہٹایا گیا، ریاست میں بھارتی آئین کا مکمل نفاذ اور ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے جموں کشمیر اور لداخ کی دو الگ انتظامی یونین ٹیرٹریز بنا کر دہلی کے مکمل اختیار میں شامل کر لیا گیا اور اپنے ہندتوا کے سفر میں ایک سنگ میل کی تکمیل کر لی گئی۔ بھارت نے ریاست کو تو آج تک جیل بنائے رکھا ہے مگر اسکے اس اقدام کے خلاف خود بھارت کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر کافی آوازیں بلند ہوئیں اور پاکستان کے علاو چین کی طرف سےبھی بحثیت تیسرے فریق کے کافی شدید ردعمل سامنے آیا جو سلامتی کونسل میں ریاستی تنازعہ پر بحث اور لداخ میں بھارت چین سرحدی تناو کی شکل میں ابھی جاری ہے۔ اگرانسانی، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی شدید پامالیوں کے تناظر میں یہ کہا جائے کہ بھارتی زیرانتظام جموں کشمیر میں اس وقت انسانی اور جمہوری سماج سے متعلقہ کوئی قانون تو درکنار بلکہ جنگل کا قانون بھی نہیں ہے تو یہ شائد مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔
متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے پاکستانی زیرانتظام خطے آزادکشمیر و گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھی بھارت کے جابرانہ اقدامات پر پوری دنیا سے احتجاجی صدا کو بلند کیا البتہ اپنے اس خطے کے معاملے میں ہمارے لوگ کافی صابر و شاکر واقع ہوئے ہیں اور انہوں نے کبھی اپنے حال احوال کا کوئی باقاعدہ عملی شکوہ بھی نہیں کیا۔
پاکستانی زیرانتظام (آزاد) جموں کشمیر اور گلگت بلتستان تاحال کافی حد تک سیاسی و معاشی حقوق اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ انتظامی امور کو اپریل 1949 کے معاہدہ کراچی میں طے کرتے ہوئے گلگت لداخ (گلگت بلتستان) کو حکومت پاکستان کی تحویل میں رکھا گیا اور آزادکشمیر کیلئے مقامی حکومت کا ایسا ڈھانچہ ترتیب دیا گیا کہ جس کی باگ ڈور وزارت امور کشمیر اور وفاقی لینٹ افسران کے ہاتھوں میں تھما دی گئی۔اسی ضابطہ کار کے مطابق ان دونوں خطوں میں مختلف اوقات میں رولز آف بزنس، ایکٹ اور گورننس آرڈر لاگو ہوتے رہے ہیں۔ یاد رہے 1947 میں متحدہ ریاست جموں کشمیر و لداخ کی ایک اسمبلی پرجا سبھا موجود تھی اور مکمل جمہوریت کی طرف سفر جاری تھا مگر اس شخصی حکومت سے آزادی کے نام پر جدوجہد کا یہ ثمر تھا کہ نام میں بھی آزاد کشمیر کے لوگوں کو اس آزادی کے تقریباً پندرہ سال بعد اور گلگت بلتستان کو مزید کئی سال بعد بنیادی جمہوریت سے روشناس کرایا گیا اور پھر لبھی جمہوریت تو کبھی بچہ جمورایت کے امتزاج سے کچھ ایسا نظام بنایا گیا جو اسلام آباد کا منظور نظر ہو جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان بھلے مانسوں کا بھلا کیا جاتا کیونکہ ان دونوں حصوں آزادکشمیر و گلگت بلتستان کے تقریباً تمام مسلمان ریاستی شہری مملکت خداداد پاکستان کیساتھ اس ایمانی رشتے کو ہمیشہ نبھاتے رہے ہیں بلکہ ہمارے منتخب نمائندے اسے سیاسی قبلہ اور خود اندھیرے میں رہ کر اس مملکت خداداد کو روشن رکھنے جیسے جذبہ ایثار سے سرشار ہیں، کوئی ملٹری ڈیموکریسی کے سفیر اور کوئی روتے گڑگڑاتے اعتبار کے واسطے دیکر اپنے لئے اپنی وکالت کا لائسنس مانگتے ہیں تاکہ وہ اپنے مقدمہ کی خود پیروی کر سکیں مگر پھر بھی کوئی امید بھر نہیں آتی۔ دوسری طرف جذبوں سے سرشار متعدد ترقی پسند اور آزادی پسند یا قوم پرست گروہ ہیں جو تاحال اس عوامی اور انتخابی سیاست سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ان غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے بھی پاکستانی وزیراعظم کے اس وعدے پر اعتبار کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے وکیل اور سفیر کی حیثیت سے مقدمہ لڑینگے مگر درحقیقت جموں کشمیر کا رائے شماری سے مشروط یہ سیدھا سا مقدمہ 1948 سے دو ایسے متحارب وکیلوں کی مبہم وکالت کی وجہ سے الجھا ہوا ہے جو خود اس مقدمہ کے وکیل اور فریق بھی ہیں۔ اسی لئے ہمیشہ کی طرح ایک وکیل اور فریق کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں وہ پیشی بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکی اور کسی عالمی منصف کی خصوصی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر نہ سہی مگر مقامی سطح پر بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدامات، مسلسل لاک ڈاؤن اور فوجی ظلم و جبر کے خلاف مضبوط حکمت عملی کے تحت ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کے حصے میں شائدہم لوگوں کی امنگوں کے مطابق نئے گلگت بلتستان آرڈر 2020 کا نفاذ ہوا، آزادکشمیر میں آئینی ترمیم کیلئے تجاویز بھی آئیں اور اب 5 اگست 2020 کو بھارتی زیر قبضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے اختتام اور بھارت کیساتھ غیرقانونی انضمام کے ایک سال مکمل ہونے پر بھارت کے خلاف احتجاج اور کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے حکومت پاکستان نے اپنے ملک کا نیا نقشہ جاری کیا ہے کہ جس میں متنازعہ ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے یعنی کاغذ پر پوری ریاست جموں کشمیر کو بغیر کسی عدالت و وکالت اور مذاکرات و تفرقات کے پاکستان میں ایک صوبے کی حیثیت سے شامل کیا جا چکا ہے تاہم لداخ میں چینی سرحد کا حتمی تعین چین کی مرضی و منشا کیلئے فی الحال کھلا رکھا گیا ہے ۔ لگتا ہے یہی ہمارے حق خودارادیت کا وہ مقدمہ ہے جسے ہمارے دوطرفہ وکیل اور فریق کبھی تاشقند، شملہ ، لاہور تو کبھی واشنگٹن کی پیشیوں میں پختہ دلائل اور جرات مندی سے لڑتے رہے ہیں۔ شائدیہی ایٹمی قوتوں کے درمیان کشمکش میں اینٹ کا جواب پتھر اور یہی ہے وہ جذبہ ایثار و قربانی جو ہمارے ایمان کیساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام اسی کے حقدار بھی ہیں کیونکہ یہاں صدیوں سے بیرونی حکمران درآمد کئے جاتے رہے پھر ساتھ سیاسی نظریات بھی درآمد ہونے لگے جب 1947 میں برصغیر میں فرقہ وارانہ آگ لگی تو ہمارے رہبران اسکے شعلے خود اٹھا کر گھر میں لائے اور اس گھر کو آگ لگی، ریاست میں بیرونی سیاست خودجیلوں میں جا جا کر لائے، بیرونی حملہ آور جتھوں اور بلوائیوں کو ہاتھ پکڑ کر لائے اور اپنے ہی پڑوس میں صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے انسانوں کے خون بہا اور عزتوں کی پامالی میں حصہ دار بنے اور پھر انہی کو ہم القابات و خطابات سے نوازتے رہے ہیں اور آج بھی انہی کرداروں کو اپنے اپنے خطے اور عقائد کے مطابق مشعل راہ بھی مانتے ہیں جنہوں نے بظاہر ڈنڈوں، چھریوں، کلہاڑیوں اور کدال بیلچوں، کرپان، تلوار اور ترشول جیسے ہتھیاروں کے ساتھ آتشیں اسلحہ سے لیس ایک تربیت یافتہ ریاستی فوج کو عبرتناک شکست دینے اور اپنے اپنے عقائد سے جڑی مذہبی منافرت میں اپنے ہی شہریوں کے قتل عام کے بعد ریاست کے تمام حصوں میں اپنے اپنے طور پر اپنی ہی ریاست سے آرپار دونوں جانب یہ آزادی حاصل کی تھی جس کا خراج آج تک لکیر کے دونوں طرف ہر رنگ نسل اور مذہب کے باشندگان ریاست کی محرومی و محکومی، غربت و ہجرت اور دوسروں پر انحصاری اور تابعداری کی شکل میں دیا جا رہا ہے اور پھر بھی ہم زندہ، باشعور اور آزاد قوم ہیں ۔
سات دہائیوں پر محیط اس تنازعہ زمین کے مقدمہ کی تاریخ یا پیشی اور دوطرفہ وکیلوں کی مدلل بحث اور مقدمہ کی طوالت کی وجہ سے اصل مالکان زمین کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے جنھیں کبھی اس مقدمہ کا فریق ہی نہیں تسلیم کیا گیا، اس لئے مالکان زمین اب بحثیت متاثرین اور سائلین ان وکیلوں سے عرض کرتے ہیں کہ دریاؤں و ہواؤں کے رخ، مذاہب و عقائد، دفعات و ترمیمات، موسمیات و نقشہ جات جیسے شواہد اکٹھے کرنے کی بجائے اس پورے خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کیلئے اصل تنازعہ تو حل کیجئے چاہے عدالت سے باہر ہی کوئی باہمی مشورہ اور تصفیہ کیجئے، چاہے کچھ دیجئے کچھ لیجئے یا ہمیں چھوڑ دیجئے اور بس جینے دیجئے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *