Main Menu

علم ِسیاسیات کا مختصر تجزیہ ؛ تحرير: امتیازفہیم

Spread the love


علم سیاسیات ایک پرسپل مضمون ہے اسے ہم طبقاتی تناظر میں سمجھنے کی سعی کریں تو وہ زیادہ بہتر ھوگا ۔
ایک عام سیاسی کارکن بنیادی طور پہ روایتی سیاسی پارٹیوں کیساتھ جڑ جاتا ہے، چونکہ وہ اپنے مسائل کا فوری حل چاہتا ہے جس کے بعد روایتی سیاسی فکر کی حامل سیاسی قوتیں اسے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی رہتی ہيں ۔
ان کا اپنا کوئی عوامی پروگرام نہیں ہوتا جس کے باعث وہ سیاسی کارکنوں کیساتھ، ان کی ضرورتوں اور امنگوں کیساتھ کھلواڑ کرتی رہتی ہیں ۔
ان سے اوپر موقع پرست سیاسی کارکن ھوتے ھیں یہ انہی سیاسی قوتوں سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہ کسی سیاسی فکر و تربیت کے عمل میں خود کو ڈالنا اچھا نہیں سمجھتے پیٹی بورژوا رحجانات کے حامل ہوتے ہیں۔اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے چاپ لوسی جھوٹ فریب اور دھوکہ و منافقت کو اپنا وطیرہ اعلیٰ سمجھتے ہیں ۔
ورکئنگ کلاس کا سیاسی کارکن ایک وہ جو اپنی کلاس کی فکری اساس کیساتھ جڑ جاتے ہیں جو نڈر اور لڑاکا ہوتے ہیں ، صبرآزما جہدوجہد کے عمل سے خود کو گزارتے ہیں ۔
اور اپنے ذاتی مفادات سے بلندتر ہو کر دیانت داری سے اپنے فکری و عملی و علمی محاز پہ ڈٹے رہتے ہیں۔ وہ عوام کے معاشی سیاسی و نفسیاتی معروض کا گہرا مطالعہ کرتے ہيں اور رائج الوقت سیاسی فکر و افکار و ثقافت کو دھیرے دھیرے اکھاڑ پھیکنے کے عمل کو اپنے تنظیمی علم و عمل کیساتھ ادارے بنا کر بتدریج آگے بڑھتے ہیں ۔
اب وہ جو عام سیاسی ورکر جس کااول سطور میں ذکر کیا گیا تھا کو بھی یہ اپنے فکر و عمل سے متاثر کرتے ھوئے اپنے سیاسی حصار میں لینے کی جہدوجہد کرتے ھیں۔

ایک سرمایہ دارانہ سماج کی اپنی اخلاقیات و سیاسی افکار ہوتے ہيں
نیم جاگیر دارانہ اور گماشتہ سرمایہ دارانہ سماج کی اپنی سوچ و فکر ہوتی ہے،ان کی اپنی سیاسی ضرورتیں و مفادات ہوتے ہیں۔
اس لئے اس حساس موزوں کو محض ایک چھوٹے سے چند جملوں پہ مشتمل تحریر کے زریعے سے منافقت قرا دیکر اسے سمجھنا یا سمجھانا بہت مشکل ہے ۔
ضروری ھے کہ اس موزوں پہ جامع و مختصر روشنی ڈالی جائے چونکہ اگر جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستانی سیاسی کارکن کو دیکھا جائے تو صورتِ حال بہت بھیانک شکل دیکھاتی ہے کہ فکری و نظریاتی سیاسی کارکن تو دور کی بات ہے
وہاں عام سیاسی کارکن ناپید ھوتا جا رھا ھے اور جو خود کو سیاسی کارکن کہتے ھیں وہ سارے بیچارے عقیدت مند ھیں سیاسی کارکن نہیں ۔

جموں کشمیر پاکستانی کنٹرول میں اب ایک تربیت یافتہ سیاسی کارکن جو محنت کشوں کی فکری اساس و نظرئیے کیساتھ جڑا ھو یا وہ اپنے پچھڑے ھوئے سماج کے قومی و طبقاتی سوال کیساتھ کھڑا ھو
ھمارا خیال یہ ھے کہ وہ علم سیاسیات کو ایک عظیم فن کے طور پہ اپنی جہدوجہد میں بروئے کار لا کر اپنے علم ،عمل اور اپنی تنظیم کو اپنے ساتھیوں کو مزید منظم اور فعال بنانے کی تگ دو کرتا ھے ۔
چونکہ وہ اپنے عمل کے زریعے اور اپنے علم کی جانکاری سے ان گنت سیاسی معاشی و سماجی فکری مغالطوں کا گہرا ادراک حاصل کر لیتا ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ کہ ذلتوں، رسوائیوں سے جبر تشدد سے ستم و استحصال سے اور غلامی کی ساری شکلوں سے نجات کا ایک ہی راستہ ھے کہ اپنے طبقے کومنظم و متحد کیا جائے ۔اپنے طبقے کی پارٹی کو منظم و متحد کیا جائے پھر ایک پرامن جہدوجہد کو تیزکیا جائے
جو بہت زیادہ کھٹن صبر آزما اور مشکلات کا راستہ ھوتا ھے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ھوتے ھیں جو انقلابی سیاسی کارکن ھونے کے باوجود جو ایک طویل فکری ونظری تربیت کے باوجود دامن صبر سے ہاتھ دھو بیھٹتے ھیں اور کسی نہ کسی طور ایک طرح سے فکری مغالطوں کے اسیر ھو جاتے ھیں اور بھاگنا شروع ھو جاتے ھیں ۔

بہرحال باشعور انقلابی سیاسی کارکنوں کو ایسے عناصر پہ نظر رکھنی چاہیے ۔ اپنی جہدوجہد کے عمل و علم پہ مزید ادراک حاصل کرنا چاہئے ۔ کچھ لوگوں کے منفی رویوں سے انقلابی سیاسی پارٹیئاں نہ ختم ہوتی ہیں نہ ہی بکھرتی ہيں ۔
دیانت دار باشعور نڈر اور بے لوث نظرئیاتی کارکن صبر آزما کھٹن حالات کا سامنا کرتے ھیں وہ پارٹی کے اندر ادارے فعال بنانے کی جہدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹتے ۔ نہ وہ یہ سمجھتے ھیں کہ پارٹی سے بھاگ جائیں گے تو پارٹی کہیں دھڑام سے گر جائے گی، ایسا کچھ نہیں ھوتا ۔
انقلاب ایک کچلے ھوئے پسماندہ غلام سماج میں باشعور قوتوں کا سب سے عظیم فریضہ ھوتا ھے جو بھاگنے سے یا راہِ فرار سے حاصل نہیں ھوتا، بلکہ عظیم جہدوجہد کے فکری علمی و عملی اقدامات سے حاصل کیا جاسکتا ھے ۔ اور اس پیغام کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ سب کو دعوت دی جائے کہ

انقلاب جموں کشمیر کے عوام کی میراث ہے
اٹھو تم سب جو غلام نہیں ہو گئے ہو!!






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *