Main Menu

ہيرو يا قاتل ،رياستی اعلان ابھی باقی ہے، تحرير : آر اے خاکسار

Spread the love

انسانوں سے وابسطہ ہر نقطے پر جاننا ، سمجھنا، لکھنا اور بہتری کے لئے سوالات اٹھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے شہر پشاور ميں ايک شخص جس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا کو کمرہِ عدالت ميں ايک نوجوان نے قتل کر ديا۔ اُس دن سے اب تک سوشل ميڈيا پر مختلف طرح کی گرما گرم بحثوں کو ديکھا جا رہا ہے ۔ کوئ اُس نوجوان کے اقدام کی مخالفت کر رہا ہے تو کوئ اُس نوجوان کو اپنا ہيرو قرار دے رہا ہے۔ معاملے کی نزاکت کو ديکھتے ہوۓ سنجيدگی سے اسکا جائزہ لينا ازحد ضروری ہے۔
اولاً تو يہ پاکستان ميں توہينِ مذہب کا پہلا کيس نہيں اور اندازہ يہی ہے کہ آخری بھی نہيں۔
اب نقطے پہ آتے ہيں۔ لاکھوں افراد کے ايک شہر ميں پوليس کو اطلاع ملتی ہے کہ فلاں شخص نے توئينِ مذہب کا ارتکاب کيا ہے۔ پوليس قانونی لوازمات پورے کرتے ہوۓ کسی کی مُدعيت ميں ايف آئ آر درج کرتی ہے اور اُسکے بعد مزيد چھان بين و عدالتی کاروائ کا دور چلتا ہے۔ دورانِ کيس عدالت سچ جاننے کو تمام قانونی حربے استعمال کرتے ہوۓ بيانات، دلائل گواہوں و ديگر کو بارہا پرکھ کر اس بات کی تشفی کرتی ہے کہ جُرم اسی شخص نے سرزد کيا اور پھر قانون کے مطابق مجرم کی سزا کا تعين ہوتا ہے۔
کسی کی خواہشات پر عدالت اپنا فيصلہ سُنانے کی قُدرت نہيں رکھتی۔ عدالت قانون ميں وضع کردہ اصول و ضوابط کی ہی پيروی کرنے کی پابند ہے۔
عدالت ايک معتبر رياستی ادارہ ہے جو اپنے مخصوص اور طے شُدہ دائرے ميں رہ کر اپنے فرائض سرانجام ديتا ہے۔ رياست کی بنيادی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکے جُملہ ادارے بناۓ گۓ قوانين و ضابطوں کے تحت اپنے کام سرانجام دے رہے ہيں۔

يہ بھی دُرست ہے کہ پاکستان جيسا سماج جہاں ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہو وہاں کسی کو انصاف کہاں ملتا ہے، ملے بھی تو آسانی سے نہيں ملتا۔ جج کرپشن کر سکتا ہے، گواہ بِک سکتے ہيں پوليس خريدی جا سکتی ہے۔ يہ سارے حقائق اپنی جگہ پہ مگر کسی شخص کو قانون ہاتھ ميں لينے کی اجازت ہو سکتی ہے؟؟ کوئ ايک شہری کسی جُرم کا ارتکاب کرے تو کسی دوسرے شہری کو کونسا قانون يا مذہب يہ اجازت ديتا ہے کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ، مرضی و خواہشات کے مطابق فيصلے کرتا پھرے؟؟ ايک عام شہری خود کو جج اور حاکمِ اعلی بلکہ ايسے موقعوں پر خدا سمجھ لينے سے مذہب کی محبت کی کونسی سيڑھی پر ہو سکتا ہے، آئيں تصوير کا تھوڑا دوسرا رُخ بھی ديکھ ليتے ہيں۔

سُود اسلام ميں حرام اور قُرآنِ حکيم کے اعلان کے مطابق اللہ سُبحان و تعالی اور اُسکے رسول صلم کے خلاف کُھلا اعلانِ جنگ ہے۔ يہاں مذہب کی محبت کو کيا ہو جاتا ہے؟ اس سُودی نظام کے خلاف جدوجہد ميں کتنے لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ ديتے نظر آتے ہيں
؟
حديثِ مبارکہ کے مطابق مومن کبھی جھوٹا نہيں ہو سکتا، آپکے اطراف ميں سماج ميں سچ کتنا ہے؟

حضورِ اکرم صلم کا فرمان ہے کہ ملاوٹ کرنے والا ہم ميں سے نہيں۔آپکے اطراف ميں کم تولنے والے اور ملاوٹ کرنے والوں کی تعداد صفر ہے؟؟
َاللہ تعالی نے انسان کو مخصوص وقت تک دُنيا پر بھیجا اور اُسکی رہنمائ کے معاملات بھی کئے۔ اب انسان کی نيکی و بدی کے بارے ميں روزِ محشر ميں پوچھنا اللہ تعالی نے طے فرمايا ہے تو کيا مجھے اپنے اعمال کی بجاۓ تمام شہر کے اعمال کا جوابدہ ہونا لازم قرار ديا گيا ہے؟
ظلم و رشوت اللہ تعالی کو کب پسند ہے ؟ کيا آپکے ارد گرد ظُلم کی کوئ شکل موجود نہيں؟ تمام معاشرہ ظلم سے پاک ہے؟

اور بھی بے حساب ايسے بنيادی موضوعات اس ضمن ميں زيرِ بحث لاۓ جا سکتے ہيں جنہيں اسلام کرنے کی تاکيد کرتا ہے، مگر کوئ اُس پہ تو محبت نہيں دکھاتا۔
رياست موجود ہے، قوانين موجود ہيں ادارے موجود ہيں تو ايسے ميں قانون ہاتھ ميں لينا ازخود ايک جُرم اور غلط يا صحيح کسی کی جان لينا تو ظاہر ہے قتل ہوا۔
اب اگر کسی کو تشفی نہيں تو وہ اپنے معاملے کو ليکر قانون کے پاس جاۓ، ثبوت مہيا کرے۔ کوئ بھی شخص قانون سے بالاتر نہيں چاہے وہ جج ہی کيوں نہيں۔ اگر قانون پہ ہی اعتراض ہے تو اُسکے لئے بھی حل موجود ہے، اکثريتی عوام کی راۓ ہموار کرے اور نيا قانون بنا دے۔ مگر يہ کسی طور بھی کسی بھی رياست کے لئے قابلِ قبول نہيں کہ عام شہری قوانين کی پاسداری کی بجاۓ قانون کو ہاتھ ميں لے کر فساد برپا کريں۔ رياستی اداروں و قوانين کی موجودگی ميں غير قانونی طور پر بغير کسی جدوجہد و چارہ جوئ کے اپنی مرضی مسلط کرنا فساد ہے کسی بھی عقيدے يا مذہب کی حفاظت و محبت نہيں۔ آپ لوگوں کو ياد ہو گا ممتاز قادری کی موت کس طرح ہوئ؟ اُسے سليمان ثاثير کے قتل کے جُرم ميں عدالت نے پھانسی کی سزا دی اور ايسے جرائم کی يقنيا عدالت ايسی ہی سزائېں دے گی۔ اب سوچنا يہ ہے کہ رياستی قوانين کی موجودگی ميں قانونی چارہ جوئ کی بجاۓ اگر ہم اپنی سمجھ ، خواہشات اور عقيدے کے اعتبار سے فيصلے صادر فرمانا شُروع ہو گۓ تو اُس سے عقيدے کی کيا خدمت ہو گی اور سماج ميں کيسا امن قائم رہے گا؟ صرف تصور کيجيے !






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *