کامریڈ ہرکیشن سرجیت سنگھ کی 12ویں برسی اور انقلابی تحريک
کامریڈ ہرکیشن سنگھ سرجیت برِصغیر پاک و ہند کی اشتراکی تحریک کی نمایاں شخصیت اور سی پی آئی (ایم) کے سرکردہ رہنما تھے۔ وہ 23 مارچ 1916 کو پیدا ہوئے. کامریڈ سرجیت یکم اگست 2008 کو 93 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ہرکیشن سنگھ سرجیت کی ساڑھے سات دہائیوں پر محیط طویل انقلابی اور سیاسی زندگی کا آغاز برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینے سے ہوا۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی طبقاتی تنظیم “آل انڈیا کسان سبھا” کے قومی رہنما کے طور پر ابھرنے سے پہلے انہوں نے پنجاب میں کسان تحریک اور کمیونسٹ پارٹی کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔
کامریڈ کے انقلابی سفر کا اختتام چار دہائیوں تک جاری رہنے والے سی پی آئی (ایم) میں ان کے قائدانہ کردار کے ساتھ ہوا۔
کامریڈ سرجیت نے اپنی انقلابی سیاست کا آغاز بھگت سنگھ کی شہادت سے متاثر ہو کر کیا تھا۔ آپ نے مارچ 1932 میں ہوشیار پور کی ضلعی عدالت میں 16 سال کی عمر میں ترنگا لہرانے کے الزام کے تحت گرفتار ہوئے اور نوعمر مجرموں کے لئے ایک اصلاحی اسکول بھیج دیے گئے۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پنجاب کے ابتدائی کمیونسٹ آدرش وادیوں کے ساتھ رابطے میں آئے اور 1934 میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی. وہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے ممبر بھی رہے ۔
کامریڈ سرجیت کو 1938 میں پنجاب کی ریاستی کسان سبھا کے سکریٹری کے طور پر منتخب کیا گیا ۔ اسی برس وہ اترپردیش کے شہر سہارنپور گئے جہاں انہوں نے ماہانہ اخبار ‘چنگاری’ شروع کیا۔ کامریڈ کو سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کے پھوٹ پڑنے کے فوراً بعد روپوش ہونا پڑا اور اسی روپوشی کے دوران 1940 میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں بدنام زمانہ لاہور لال قلعہ میں نہایت خوف ناک حالات میں تین ماہ قید تنہائی میں رکھا گیا. بعد میں انہیں دیوالی نظربندی کیمپ منتقل کردیا گیا جہاں وہ 1944 تک رہے۔ 1947 میں ہونے والی تقسیم کے دوران انہوں نے خون ریزی سے متاثرہ پنجاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے انتھک محنت کی۔
کامریڈ سرجیت دیگر انقلابیوں کی طرح کٹھن مراحل سے گزرے لیکن کہیں ان کے پاؤں نہیں ڈگمگائے۔ انہوں نے دس سال جیل میں گزارے ، جن میں سے اسیری کے آٹھ سال آزادی سے قبل کے تھے جب کہ آٹھ سال کا طویل عرصہ انہوں نے روپوشی میں بھی گزارا۔
کامریڈ سرجیت جنوری 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی تیسری کانگریس میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور پولیٹ بیورو کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1964 میں پارٹی کی تقسیم تک سی پی آئی کے قائدین میں سے تھے ۔ کامریڈ سرجیت کا شمار ان معدودِ چند پارٹی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے پارٹی میں ترمیم پسندی کے خلاف شدید جدوجہد کی اور وہ سی پی آئی (ایم) بنانے والے متحرک رہنماؤں کے گروپ میں شامل تھے. کسان تحریک اور پارٹی منظم کرنے کے گہرے تجربے کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ بائیں بازو کی فرقہ واریت کو اُس لمحہ شکست دی جب جب یہ انحراف پسندی اشتراکی تحریک میں در آئی.
کامریڈ ہرکیشن سرجیت کی کسانوں کی تحریک سے تادم مرگ رفاقت رہی، انہوں نے 1959 میں پنجاب میں کسانوں کی ” اینٹی بیٹرمنٹ لیوی” تحریک کی قیادت کی۔ وہ ایک طویل عرصہ تک آل انڈیا کسان سبھا کے صدر اور جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے.
کامریڈ سرجیت سنگھ 1964 میں ساتویں پارٹی کانگریس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، سی پی آئی (ایم) کی مرکزی کمیٹی اور پولیٹ بیورو کے رکن منتخب ہوئے اور وہ پارٹی کی انیسویں کانگریس کے انعقاد تک ان عہدوں پر منتخب ہوتے رہے۔ اپنی جدوجہد کی ان چار دہائیوں میں ،کامریڈ ہرکیشن سنگھ سرجیت نے پارٹی کے منشور اور عملی پالیسیوں میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ حکمت عملی کے ایک ایسے ماہر تھے جو پارٹی کی سیاسی و نظری لائن کو مہارت اور جدت کے ساتھ عملی طور پر نافذ کرنا جانتے تھے ۔ وہ دو بار پارٹی ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی اور ایک مدت کے لئے راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوئے۔
وہ زندگی بھر فرقہ واریت کے خلاف لڑتے رہے ۔ وہ ان اولین رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے ہندوستانی ریاست کے سیکولر اصولوں پر فرقہ پرست طاقتوں کےامنڈے خطرے کو بہت پہلے بھانپ لیا۔ اسی لیے انہوں نے 1989 ، 1996 اور 2004 میں مختلف سیاسی اتحادیوں کی تشکیل اور حکومتوں کے قیام میں فرقہ وارانہ قوتوں کو دُور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کامریڈ سرجیت نےعوام کے قومی اتحاد کے دفاع اور تفرقہ پرست قوتوں کے خطرے سے نمٹنے کے لئے پالیسیاں تشکیل دینے میں ایک قابل ذکر کردار ادا کیا۔
مشرقی پنجاب میں خالصتانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا پختہ موقف اور قیادت اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں 200 سے زیادہ کمیونسٹوں کی شہادت ایک شاندار باب ہے۔
پچاس کی دہائی کے آخر سے ، سرجیت جموں وکشمیر سے مسائل سے نمٹنے میں سرگرمِ عمل رہے، اسی کی دہائی میں آسام معاہدے کی تکمیل میں انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سامراج دشنمی اور قوم پرست اقدار کی روشنی میں کامریڈ سرجیت نے قومی اتحاد کے تمام امور کو جمہوری اور سیکولر نقطہ نظر سے دیکھا۔
سی پی آئی (ایم) میں ، سورجیت تین دہائیوں سے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ رہے۔ انہوں نے دنیا بھر کی تمام کمیونسٹ اور ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ ان کی قیادت میں ، سی پی آئی (ایم) نے سامراج مخالف جدوجہد اور قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ مستحکم یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ویتنام کی آزادی کی جدوجہد ، فلسطین کی تحریک اور کیوبا سے یکجہتی مہم کے دوران یکجہتی سرگرمیوں میں قابلِ ستائش کردار ادا کیا.
کامریڈ سرجیت نے سی پی آئی (ایم) کو ملک میں بائیں بازو کی تحریک کا سب سے بڑا دستہ بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے ذاتی مطالعہ اور تجربے کے ذریعہ مارکس ازم- لینن ازم کو سمجھنے اور جذب کرنے کو اپنایا۔ انہوں نے ہمیشہ مارکس ازم کی بنیاد پر پارٹی کی نظریاتی اور سیاسی پوزیشن پر تنقیدی جائزہ لینے کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیا۔ انیس سو نوے میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد ، انہوں نے پارٹی کو ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے صحیح نقطہ نظر تک پہنچنے میں رہنمائی کی۔
کامریڈ سرجیت کئی ایک کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں “لینڈ ریفارمز ان انڈیا” ، “ہیپنگز ان پنجاب” اور “آؤٹ لائین ہسٹری آف دی کمیونسٹ پارٹی” شامل ہیں ۔ انہوں نے سیاسی امور پر لاتعداد پمفلٹ بھی تحریر کئے.
سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ، کامریڈ ہرکشن سرجیت سنگھ ملک میں بائیں بازو اور جمہوری قوتوں کے سب سے مستند ترجمان تسلیم کیے گیے۔ انہوں نے جمہوری اور سیکولر اقدار کے دفاع اور اس مقصد کے لیے انتھک جدوجہد کی کہ ہندوستان اپنی غیر جانب داری اور آزاد خارجہ پالیسی کو برقرار رکھے۔ ان کے خیالات اور مشوروں کو سیاسی حلقے نہایت احترام کے ساتھ سنتے اور سنجیدگی سے لیتے رہے.
کامریڈ ہرکشن سرجیت کو لال سلام
(تلخیض و ترجمہ : ناصر منصور)
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More