Main Menu

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love

(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہ دیش اور برصغیر کی تاریخ و سیاست پر 100 سے زیادہ کتابیں اور سینکڑوں مقالے اور مضامین لکھ چکے ہیں)


1: بغاوت کے دوران

سوال: کیا آپ موجودہ طلبہ تحریک اور مجموعی صورتحال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں؟

ترقی کو غلط کاموں کو دبانے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر لوگوں پر ظلم کا معاملہ کھل کر سامنے آگیا۔ موجودہ تحریک کو سمجھنے کے لیے خطے میں گزشتہ عوامی بغاوتوں کو سمجھنا ہوگا۔ 1952ء میں زبان کی تحریک کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں پانچ بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ ہم اس وقت بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف ایک اہم اور وسیع پیمانے پر عوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس بغاوت کی اصل نوعیت، اسباب اور ممکنہ نتائج کو سمجھنے کے لیے اس خطے میں ہونے والی تاریخی بغاوتوں کو دیکھنا چاہیے۔ اس سیاق و سباق کے بغیر موجودہ بغاوت کا مکمل ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش برصغیر پاک و ہند کا واحد خطہ ہے جہاں کئی بار اس طرح کی عوامی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ پہلی 1952ء میں، دوسری 1969ء میں، تیسری جنوری 1971ء میں، اور چوتھی (آرمی چیف) حیسن محمد ارشاد کے خلاف 1990ء کی دہائی میں۔

ان میں سے ہر بغاوت حکومت میں تبدیلی کا باعث بنی۔ اگرچہ 1952ء میں حکومت براہ راست تبدیل نہیں ہوئی تھی، لیکن اس وقت کے آس پاس پاکستان میں سیاسی جماعتیں بننا شروع ہوئیں۔ 1952ء کی تحریک کے بعد، 1954ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی حکومت ٹوٹ گئی، اور مسلم لیگ کو مشرقی بنگال میں شکست دی گئی۔ 1969ء کی بغاوت کے نتیجے میں ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، حالانکہ فوجی حکومت برقرار رہی۔ جنوری 1971ء میں شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی جہاں حکومت معمول کے مطابق کام نہیں کر سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں براہ راست فوجی حکمرانی شروع ہوئی۔ 25 مارچ کو جنگ شروع ہونے کے بعد نہ صرف حکومت بلکہ ریاست پاکستان کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس وقت کی بغاوت اور عوامی تحریک اس قدر طاقتور تھیں۔ آزاد بنگلہ دیش میں ارشاد کے خلاف ایک اہم تحریک بھی چلی۔ تاہم، یہ ملک گیر تحریک نہیں تھی۔ میں نے اسے شہری بغاوت سے اس لیے تعبیر کیا ہے کیونکہ یہ ڈھاکہ اور دیگر شہری علاقوں میں مرکوز تھی۔ شہری سرمایہ دار طبقے کی یہ بغاوت ارشاد کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ واضح رہے کہ سابقہ چار بغاوتوں کے بعد حکومت میں تبدیلی آئی اور 1971ء کی بغاوت جنگ آزادی اور ریاست پاکستان کے خاتمے پر منتج ہوئی

موجودہ عوامی بغاوت نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جہاں حکومت کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بغاوت پہلے کی کسی بھی بغاوت سے زیادہ وسیع ہے۔ یہ نہ صرف ڈھاکہ اور دیگر شہری علاقوں میں بلکہ پورے دیہی علاقوں میں پھیل گئی ہے۔ کوٹہ تحریک کے دوران طلباء پر حکومتی حملے نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے بجائے اس تحریک کو عام لوگوں میں پھیلا دیا۔ لوگ اپنے اپنے مقاصد کی حمایت میں تحریک میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ طلباء کی تحریک کو صرف کوٹے کی تحریک کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں (عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم) چھاترا لیگ کی طرف سے دہشت گردی اور جبر کے خلاف عام طلبہ کی طویل شکایات نے اس تحریک کو جنم دیا۔ اسے محض کوٹے یا ملازمتوں کے حوالے سے تحریک کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یونیورسٹیوں کی صورتحال نے کوٹہ تحریک کو متاثر کیا ہے۔ حکومت کے حملوں نے کوٹہ کی تحریک کو بغاوت جیسی صورت حال میں تبدیل کر دیا ہے، جو پورے ملک میں الاؤ کی طرح پھیل رہی ہے۔

عام عوام نہ صرف طلبہ پر ظلم و ستم کی وجہ سے بغاوت میں شامل ہوئے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں اور تیل، گیس، بجلی اور ہر چیز کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں۔ حکومت نے اظہار رائے کی آزادی میں مداخلت کی ہے۔ اخبارات میں حکومت بالخصوص سربراہ حکومت (حسینہ واجد) پر تنقید ممکن نہیں۔ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ لوگوں کا حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ لوگ یہ ماننے لگے ہیں کہ جب تک یہ حکومت رہے گی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، منی لانڈرنگ اور سرکاری منصوبوں سے پیسے کی چوری کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہے گا۔ اس لیے بغاوت ابل پڑی۔

حکومت عوامی بغاوت پر قابو پانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ صورتحال کو مکمل طور پر قابو میں نہیں لا سکی کیونکہ کرفیو ابھی تک نافذ ہے۔ معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی محدود یا منقطع ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اب تک صورتحال پر پوری طرح قابو نہیں پا سکی ہے۔ حیرت ہے کہ حکومت اب بھی کوٹہ تحریک کے طلبہ رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کے نتائج ابھی دیکھنا باقی ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا احتجاج کی ایک اور لہر اٹھے گی یا نہیں۔ حکومتی جبر کے خلاف نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ڈھاکہ میں 14 ممالک کے طلباء، دانشوروں، ادیبوں اور سفارت کاروں نے اس جبر کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے لیکن اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ہسپتالوں کے باہر ہونے والی بہت سی اموات کی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔ عوام اس جنونی قتال کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ حالات جس طرح ہیں اس میں ایک اور حرکت یا جھٹکا لگنے کا پورا امکان ہے۔ حکومت پر اس طرح کے جھٹکے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ مستقبل ہی بتائے گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *