Main Menu

سماجی جبر سے لڑتی بھارتی عورتیں (کامریڈ مریم ڈھاولے سے مکالمہ)

Spread the love
تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز برطانیہ

عورتیں روایتی طور پر گھر چلاتی تھیں، بچوں کی پرورش کرتی تھیں، نرسیں، مائیں، بیویاں، پڑوسی، دوست اور اساتذہ تھیں۔ جنگ کے ادوار کے دوران اُنہیں لیبر مارکیٹ میں کام کرنے کے لیے بھی تیار کیا جاتا تھا، جو روایتی طور پر مردوں تک محدود تھا۔ عورتوں کے حقوق بنیادی طور پر وہ حقوق اور استحقاق ہیں جِن کا دعویٰ دُنیا بھر میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی میں عورتوں کے حقوق کی تحریک اور بیسویں اور اکیسویں صدی کے دوران حقوق نسواں کی تحریکوں کی بنیاد رکھی گئی۔ کچھ ممالک میں یہ حقوق قانون، مقامی رسم و رواج اور رویے، ادارہ جاتی ہیں یا اُن کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ دوسرے ممالک میں اُنہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وہ مردوں اور لڑکوں کے حق میں عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق کے استعمال کے خلاف موروثی تاریخ اور روایتی تعصب کے دعوؤں کے ذریعے انسانی حقوق کے وسیع تر تصورات سے مختلف ہیں۔

عورتوں کے حقوق کے تصورات سے عام طور پر جڑے مسائل میں جسمانی سالمیت اور خودمختاری کا حق، جنسی تشدد سے آزاد ہونے، ووٹ ڈالنے، عوامی عہدہ رکھنے، قانونی معاہدوں میں داخل ہونے، عائلی قوانین میں مساوی حقوق اور کام کرنے کا حق، منصفانہ اجرت یا مساوی تنخواہ، تولیدی حقوق، ملکیت، اور تعلیم شامل ہیں۔ تاریخی طور پر خواتین کو تو ووٹ ڈالنے کا بھی حق نہیں تھا۔ عورتوں کو مردوں کے بنائے ہوئے قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا تھا اور اُن کے حق میں کوئی آواز نہیں اُٹھتی تھی۔ شادی شدہ عورتوں کو جائداد کا کوئی حق نہیں ملتا تھا۔ شوہروں کے پاس اپنی بیویوں کے لیے قانونی طاقت اور ذمہ داری اس حد تک تھی کہ وہ اُنہیں قید کر سکتے تھے، یا اُنہیں معافی کے ساتھ مار سکتے تھے۔

عورتوں کے حقوق کی جدوجہد ابتدائی طور پر انفرادی شخصیات تک محدود تھی۔95-1789ء کے انقلابِ فرانس نے پہلی بار عورتوں کی اہمیت اور سماجی کردار کو اجاگر کیا۔ عورتوں نے انقلابِ فرانس میں فعال کردار ادا کیا جِس سے پورے فرانس میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انقلابی قانون سازوں نے اُنہیں ایک مناسب سماجی حیثیت، شہری حقوق اور اُن کی اپنی ایک قانونی ساخت دی۔ اُس زمانے میں وسائل کی مقابلے میں آبادی میں اضافہ اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ بنیاد پرست نظریات عروج پر تھے اور دُنیا بھر میں، بلخصوص ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی مزدور عورتوں میں افراتفری اور تنقیدی مباحثے چل رہے تھے۔ معاشرے میں جاری جبر اور عدم مساوات نے عورتوں کو زیادہ سے زیادہ متحرک اور تبدیلی کے عمل میں سرگرم ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں 1908ء میں امریکہ کی گارمنٹ کی صنعت میں کام کرنے والی 1500 عورتوں نے کام کے اوقات کار میں کمی، بہتر اور مثاوی تنخواہ اور عورتوں کے ووٹ کے حق کے مطالبے کے لیے امریکہ کے شہر نیویارک کی گلیوں میں مارچ کیا۔ یہ تحریک اس قدر مقبول ہوئی کہ بعد ازاں 1914ء میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا سبب بنی۔ جب 1917ء میں روسی عوام نے ظالم بادشاہ کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا تو اُس سے عورتوں کے سماجی رتبہ کو ایک نئی جہد ملی۔ زارِ روس کے قانون کے مطابق عورتیں مردوں کی غلاموں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھیں، اور قانوں کے مطابق مردوں کو بیویوں کی مار پیٹ کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔ ثقافتی طور پر پسماندہ دہی علاقوں میں، جہاں چرچ اور روایت کی مضبوط گرفت تھی، وہاں عورتوں پر مظالم کا سلسلہ وسیع تھا۔ انقلاب نے عورتوں اور مردوں کی قانونی مساوات قائم کی۔ لینن نے عورتوں کو محنت کی ایک قوت کے طور پر دیکھا، جِس کا پہلے مثاوی بنیادوں پر تصور موجود نہ تھا۔ 1917ء میں ہی جب ملک کے پہلے قوانین مرتب کئے گئے تو اُس وقت سوویت یونین میں عورتوں کو ووٹ کا حق دے دیا گیا، جِس سے ان کا ملک عورتوں کو ووٹ کا حق دینے والا دُنیا کا دوسرا ملک بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے طلاق اور اسقط حمل سے متعلق قوانین کو آزاد کر دیا، ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا، اور خواتین کے لیے ایک نئی اعلیٰ حیثیت کا اعلان کر دیا۔

برِصغیر متحدہ ہندوستان میں عورتوں کی تنظیمیں بیسویں صدی کے آغاز میں ہی بننا شروع ہو گئی تھیں، جنہوں نے تحریکِ آزادی میں اپنا متحرک کردار ادا کیا۔ 4 جون 1954ء کو ترقی پسند عورتوں کی پہلی ملک گیر تنظیم نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی بنیاد رکھی گئی، جِس کی سرکردہ راہنماؤں میں نامور انقلابی ارونا آصف علی شامل تھیں۔ بعد ازاں تحریک آزادی کے دور سے سرگرم عورتوں کی علاقائی تنظیموں اور گروپوں کو یکجا کر کے 1981ء میں آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی، جو جمہوریت، مساوات اور عورتوں کی آزادی کے حصول کے لیے میدان میں اُتری اور طبقے، ذات برادری کی تفریق سے پاک معاشرے کا تصور لے کر سرگرم ہوئی اور بھارت میں وسیع تر اثر رکھتی ہے۔ اُس کے ممبران کی تعداد 11 ملین سے زیادہ ہے اور بھارت کی 23 ریاستوں میں اس کی سرگرم تنظیمیں موجود ہیں۔

گذشتہ دنوں بھارت میں عورتوں کے حقوق کی نامور علمبردار اور آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری محترمہ مریم دھاولے برطانیہ تشریف لائیں تو اُن سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ کامریڈ مریم دھاولے ایک بہادر، انتھک انقلابی کارکن اور دبنگ انداز کی مقرر ہیں۔ وہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی جدوجہد پر گہری نظر رکھتی ہیں اور ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن پاکستان کی راہنماؤں محترمہ طاہرہ مظہر علی خان، محترمہ تسنیم منٹو، باجی نسیم شمیم ملک اور دیگر سرکردہ راہنماؤں سے اُن کی قریبی رفاقت رہی ہے۔ کامریڈ مریم کی گفتگو اس قدر مدلل تھی کہ راقم نے سوچا کہ اسے تحریری شکل دے کر پاکستان میں عورتوں کے خلاف پائے جانے والے سماجی جبر و استحصال کے خلاف برسرِپیکار سیاسی و سماجی کارکنوں تک پہنچایا جائے۔ کامریڈ مریم کا کہنا تھا کہ اُن کی تنظیم کی طاقت کا تقریباً دو تہائی حصہ غریب دیہی اور ملازمت پیشہ پسماندہ شہری علاقوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی اُس کی سب سے بڑی طاقت، مضبوط بنیادوں اور دیرپا جدوجہد کی علامت ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن ایک طرف آل انڈیا کسان سبھا اور سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین کے ساتھ مل کر جدوجہد کرتی ہے تو دوسری طرف کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے منسلک ہے اور اسی کے توسط سے محنت کشوں کی عالمی تحریک کا قابلِ فخر حصہ ہے۔
کامریڈ مریم نے کہا کہ بھارت کے اندر مظلوم طبقات بلخصوص عورتوں کے خلاف پائے جانے والے مظالم اب اس مقام پر آ پہنچے ہیں کہ ہمیں سرکار کی پشت پناہی میں جاری حملوں سے اپنی زندگی بچانا ہے۔ آزادی کے وقت سے آج تک کے حاصل کردہ حقوق کو بھی مودی سرکار صلب کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے ہم عورتوں کو بھارت میں حقوق کی دھری لڑائی کڑنی پڑ رہی ہے۔ ہمیں ایک طرف سرکار کی جانب سے جاری حملوں کو پیچھے دھکیلنا ہے، تاکہ اپنے حقوق کا تحفظ اور معاشرے میں عزت و وقار کا مقام حاصل کر سکیں، تو دوسری طرف ہم نے گذشتہ 76 برسوں میں جو مقام حاصل کیا ہے اُس کو بچانا ہے۔ مودی سرکار جو اقتدار پر براجماں ہوئے دھلی میں بیٹھی ہے، وہ ایک مخصوص ایجنڈا لے کر آئی ہے۔ بظاہر تو یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار ہے، لیکن اسے چلانے والی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہے، جسے عرف عام میں آر۔ایس۔ایس کہتے ہیں، جو بھارت کو ایک تھیوکریٹک، انتہا پسند مذھبی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ وہ عوام کے آئینی حقوق کو غصب کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ تو عوام کے حق حکمرانی اور جمہوری حقوق پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ میرا تعلق چونکہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد سے ہے، اِس لیے میں اپنی گفتگو کو اُسی پر مرکوز رکھوں گی۔ مودی سرکار جو بھی قدم اٹھاتی ہے وہ دن بدن عورتوں کی سماجی حیثیت کو محدود اور اُن کی زندگی کو نرگ بنانے کے طرف جا رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کی 21-2020ء میں بھارت میں منعقد ہونے والے تاریخی کسان مورچے میں اتنی بڑی تعداد میں عورتوں نے شرکت کر کے سماجی برابری اور مساوی حقوق کا علم بلند کیا۔ اس مشترکہ جدوجہد کا مقصد تھا کہ اگر محنت کش غریب کسانوں کی زمین چلی گئی تو اُن کے لیے زندہ رہنے کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے کسان مردوں اور عورتوں کا مشترکہ مشن تھا کہ اگر وہ اپنی جدی پُشتی زمین ارب پتی کارپوریشنوں اور سرکار کے ہڑپ کرنے سے بچائیں گے تو اپنا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کر پائیں گے۔ جب کسان اپنے جتھے لے کر دھلی کے بارڈر پر آئے تو اُن کی عورتوں نے اُنہیں کہا کہ آپ فصلوں کی بجائی اور کٹائی کی فکر چھوڑ کر ڈٹ جائیں، کیونکہ کاشتکاری کو پیچھے ہم دیکھیں گیں۔ گھروں کی عورتیں دودہ، آٹا، دالیں پیک کر کے مورچے میں شامل کسانوں کو پہنچاتی تھیں اور خود کھیتوں میں ہی کسان مورچے کے بینر لگا کر فصلوں کی کاشت اور دیکھ بھال کرتی تھیں۔ رات کو عورتیں ٹولیاں بنا کر اپنے اپنے دیہاتوں میں پہرہ دیتی تھیں، تا کہ بی۔جے۔پی اور آر ایس ایس کے غنڈؤں کے حملوں سے اپنے دیہاتوں اور بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ اِس طرح بھارتی عورتیں اپنے کھیت کھلیانوں کو سرسبز رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے دیہاتوں، عمر رسیدہ افراد اور بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے سپہ پلائی دیوار بن گئیں اور بی۔جے۔پی کے غنڈؤں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ باری باری دھلی بارڈر پر پہنچ کر کسانوں کے مورچے میں شرکت کر کے ایک برابر کے انسان ہونے کی مثال بنتی گئیں۔
مودی سرکار نے جو چار لیبر کورٹس قائم کی تھیں، ان میں کام کرنے والوں کے تحفظ کے لیے نافظ 24 لیبر لاز کو ختم کر دیا گیا۔ پھر بڑے ہی منظم انداز میں ایسی عورتوں کو نشانہ بنایا گیا جو اپنی تنظیمیں بنا کر اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کرتی تھیں۔ ان حالات میں عورتوں کے جو حقوق ہیں ان میں سے ان کا یونین بنانے کا حق ختم کر دیا جائے گا، یعنی یونین نہیں تو کوئی ایگریمنٹ بھی نہیں۔ جِس کا مطلب یہ ہوا کہ ایگریمنٹ نہیں ہو گا تو مالکان و صنعت کاروں کی من مانی چلے گی اور مزدور عورتوں کے لیے 8 گھنٹے کام کی حد بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ لیبر لاز میں لکھا ہوا ہے، لیکن سرکار اور اشرافیہ کی سازش سے تحفظ دینے والے قوانین کو روندا جا ریا ہے۔ اس طرح عورتوں کے لیے 12 سے 14 گھنٹے کام کے اوقات کار ہوں گے، جِس کا مطلب واضع ہے کہ عورتوں کو واپس گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا جائے گا، کیونگہ 12 گھنٹے کام کرنے کے بعد واپس گھر پہنچ کر اُن کی جو گھریلو ذمہ داری ھے، وہ پوری کرنے کی ان میں ہمت باقی نہ ہو گی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے سماج میں گھر کی ذمہ داری تو کسی شمار میں بھی نہیں آتی اور نہ ہی اُسے ملکی جی ڈی پی میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن اُسی کی وجہ سے ہی تو ہمارا دیش چلتا ہے۔ اس لیے 12 گھنٹے ملازمت اور اُس کے بعد فل ٹائم گھر کا کام کاج، چولہا روٹی، دھلائی صفائی وہ نہیں کر پائیں گیں۔ پرانے وقتوں میں ہوتا تھا نہ جب 18 گھنٹے یا 16 گھنٹے کام کے اوقات کار ہوتے تھے تو لوگ جلدی مر جاتے تھے۔ وہ یہ سب کچھ نہیں کر پاتے تھے اور ان کے لیے زیادہ عرصہ زندہ رہنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اب نئے قونین کے اطلاق سے ویسی ہی صورتِ حال پیدا کی جا رہی ہے۔
عورتوں کے لیے میٹرنٹی لیو، یعنی زچگی کے وقت چھٹی کا دُنیا میں کہیں بھی تصور نہ ہوتا تھا، ماسوائے سوشلسٹ ممالک کے جنہوں نے عورتوں کو سماج میں برابری کا درجہ دیا۔ پھر دُنیا بھر میں اسے حق کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا، لیکن انڈیا میں اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب ہمارے دیش میں میٹرنٹی لیو کا تحفظ لیبر کورٹ سے بھی صرف پہلے بچے کی پیدائش پر دیا جا رہا ہے، جبکہ بھارت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جِن کا ایک بچہ ہو، کم از کم 2 یا 3 ہیں۔ اگر لڑکی ہی ہوئی تو لڑکے کے سپنے میں تعداد پتہ نہیں کہاں تک جا پہنچے۔ یہ واضع ہے اس سب کا کیا نتیجہ نکلے گا، وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گیں اور انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔
اس وقت بھارت میں صورتِ حال اس قدر خراب ہوتی جا رہی ہے اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے کہ کام ملتا بھی ہے تو غیر منظم اداروں میں، جہاں ملازمت کے تحفظ اور کام کے اوقات کار جیسے کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ وہاں کم از کم تنخواہ کا قانون بھی لاگو نہیں ہوتا، اور وہاں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں میں آپ کو دو مثالیں دوں گی تا کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے۔ مہاراشٹرا میں شوگر بنانے کے لیے گنے کی کٹائی میں اور تامل ناڈوو میں گارمنٹس انڈسٹری میں بہت بڑی تعداد میں خواتین کام کرتی ہیں اور سب کی سب کنٹریکٹ لیبر یعنی ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتی ہیں۔ ان دو طرح کی صنعتوں میں خواتین اِس قدر خوف ذدہ ہیں کہ اُن کی نوکری چلی جائے گی اور یہ خوف کہ جب وہ پریگنینٹ ہو جائیں گی اور مشکلات کی وجہ سے کام پر نہ جا سکیں گی تو اُن نوکری چلی جائے گی۔ ان دو صنعتوں میں کم عمر جوان لڑکیاں اپنی ماہواری کو روکنے کے لیے ہسٹریکٹومی کا علاج کرواتی ہیں، تا کہ وہ حاملہ نہ ہو پائیں اور اپنے گھر کا چولہ گرم رکھنے اور گھر والوں کی بقا کے لیے اُن کی نوکری بچ سکے۔ یہ ہمارے ملک میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کی حقیقت ہے۔ دُنیا میں کون ایسا کرتا ہے کہ حالات سے مجبور ہو کر خود ہی اپنے اوپر ظلم کرے۔ اپنے اوپر ایسا ظلم کرنے کے بعد بھی اسے جب بچہ نہیں ہوتا تو خاوند بھی چھوڑ دیتا ہے اور اس طرح ہمارے سماج کی عورت تو چاروں طرف سے ماری جاتی ہے۔
غریب طبقات کے گھرانوں میں جب کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کے کیا نتائج برآمد ہونگے۔ میں آپ کو بھارت کی ایک ریاست اڑیسہ اور اُس کی معاون ریاستوں کی مثال دوں گی، جنہیں گڑھجات اور اڑیسہ فیوڑٹری ریاستوں کے نام سے جانا جاتا ہے، وہاں کے 30 فیصد لوگوں کو روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ ہماری آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن نے یہ خود سروے کیا ہے اور میں اس کی گواہ ہوں۔ جب وسائل کم اور مزدوری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے تو لوگ بھوکے پیٹ سونے پو مجبور ہو جاتے ہیں۔ عورتوں کو تو بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ سیوا کرنا، اور اسے تو قربانی دینے کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ ہم جب کسی دوُر دراز گاؤں میں یا بستیوں میں اجلاس کرتی ہیں تو عورتیں خود بتاتی ہیں کہ کیا کریں بی بی جی، اگر بچے نے کھا لیا، پتی نے کھا لیا تو ہمارا بھی پیٹ بھر گیا۔ وہ اپنے آپ کو اس طرح سے سمجھا لیتی ہیں۔ یہ ہمارے دیش کی حقیقت ہے اور گلابل ھنگر رپورٹ، یا پھر بھوک سے متعلق عالمی سروےکے مطابق اس وقت دینا میں تاریخ کے سب سے زیادہ لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ 21-2020ء میں کرونا کے تباہ کن دور میں ہماری سرکار کے وزیروں نے پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی تھی کہ بھارت میں 400 ملین راشن کارڈ کینسل کئے گئے ہیں۔ مطلب یہ کہ اُس تباہ کن دور میں، جب عوام مزدوری بھی نہیں کر سکتے تھے، سرکار کی طرف سے مزید کھانا فراہم کرنا تو درکنار، جو تھا وہ بھی چھین لیا گیا اور لوگوں کو قدرتی بیماری کے ساتھ ساتھ بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
اس وقت ایک طرف ملک میں خوراک اور ملازمت کا بحران ہے تو دوسری طرف بھارت میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے اقتدار میں ہونے سے ملک میں ماحول ہی ایسا خوفناک بن رہا ہے، کیونکہ وہ نفرت کی سیاست کر رہے ہیں۔ اگر ہمسایے کا تعلق مختلف کاسٹ سے ہے، یا مختلف کمیونٹی سے ہے، یا پھر مسلم ہے، سکھ ہے، عیسائی ہے، براہمن ہے تو وہ ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں، اور موقع ملے تو انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ شرم کا مقام تو یہ ہے کہ انسانیت کی اس تذلیل اور نسل کشی کو اقتدار پر قابض بی جے پی اور آر ایس ایس سرکار کی مکمل اشیرباد حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف، عیسائیوں کے خلاف اور دیگر مذاھب کے عوام کے خلاف ماورائے عدالت تشدد اور قتل عام پر اکساتے ہیں اور مجرموں کو ریاستی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ایسے وحشیانہ کام سرانجام دینے والوں کو نوکری ملتی ہے، ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے، اور بعض مواقعوں پر تو اُن کو ایوارڈز سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اس طرح مودی سرکار بذاتِ خود ملک میں ماروائے عدالت قتلِ عام اور تشدد کا ماحول پیدا کر رہی ہے۔
کوویڈ کے جان لیوا حالات میں چوبیس گھنٹے سب لوگ گھر میں ہوتے تھے تو دُنیا بھر میں گھریلو تشدد کے واقعات کو بہت تقویت ملی تھی۔ کمپنیوں نے اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے بڑا عجیب طریقہ نکالا کہ “ورک فرام ہوم”۔ تو وہ عورت ورک فرام ہوم کے تحت گھر سے کام کر رہی ہے، آن لائن کام کر رہی ہے تو عین اُسی وقت خاوند پیچھے سے آواز لگاتا ہے کہ مجھے چائے چاہیے اور اٹھو چائے بنا کر دے جاؤ۔ وہ بھی کام کر رہی ہے، اگر وہ نہیں اُٹھتی تو شوہر مار پیٹ کرتا ہے۔ پچے گھر پر ہیں، سُسر گھر پر ہے، دیور گھر پر ہے اور عورت کام کے دوران بھی سب کی خدمت اور ڈبل ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہے۔ ایسا اس وقت دُنیا بھر میں کسی نہ کسی لیول پر ہو رہا ہے، جِس سے گھریلو تشدد بہت بڑھ گیا ہے۔ اس میں سرکار نے طریقہ کیا نکالا کہ شراب خانوں پر لاگو ھونے والے قوانین کو اور بھی نرم کر دیا اور کہا کہ جو شراب نوش ہیں ان کو شراب نہیں مل رہی اور وہ گھروں میں عورتوں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔ سرکار کی اس حرکت سے ایک طرف شراب خانوں کے باہر لائنیں لگنے لگیں تو دوسری طرف اس سے گھریلو تشدد میں اور بھی اضافہ ہو گیا، کیونکہ ملازمتیں نہیں رہیں اور گھر میں پیسے نہیں اور مرد حضرات گھر کی اشیاء بیچ کر شراب خریدنے پر اسرار کرتے تھے۔ صنعتیں بند تھیں، شاپس بند تھیں، نہ کہیں کام ملتا تھا اور نہ کوئی آمدن رہی تھی۔ ایسے میں وہ اپنی بیویوں کو مارتے تھےکہ اُسے پیسے دے تا کہ وہ شراب خرید سکے۔
موجودہ حکومت بھارت کے آئین پر نہ تو یقین رکھتی ہے اور نہ ہی عمل کرتی ہے۔ بھارت کا قانون برابری کی ضمانت دیتا ہے، اور بلا لحاظ نسل، رنگ، مذھب کے عزت اور وقار کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ضمانت دیتا ہے، اور خود کی مرضی سے زندگی جینے کا حق بھی دیتا ہے۔ ہمیں اس بات کی مکمل آزادی دیتا ہے کہ ہم کیا پہنیں، کیا کھائیں اور کس کے ساتھ دوستی کریں۔ لیکن یہ سرکار ایسا کوئی حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کیونکہ آر ایس ایس بھارت کے آئین اور قوانین کو نہیں مانتی۔ وہ تو بیک ڈور سے مانوسمرتی جیسے انتہا پسند قوانین کو لاگو کرنا چاہتے ہیں، جو کہ بالکل غیر انسانی ہے۔ اس قانون کے مطابق عورتیں انسان نہیں بلکہ ذیلی انسان یا پھر دوسرے درجے کی انسان ہیں۔ وہ برابر کی انسان نہیں بلکہ مرد کے ماتحت سمجھی جاتی ہیں۔ جب وزیرِاعظم اور وزرا سرِعام ملکی آئین کے خلاف قوانین بنانے کا پرچار کر رہے ہوں تو ملک میں کیا ماحول بنے گا۔ جب اُن کے ممبران پارلیمنٹ یہ کہہ رہے ہوں کہ عورت گھر سے نکلے گی تو اس پر جنسی حملہ ہوگا، تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے ہمارے سماج پر کیا اثرات ہوں گے اور عورتیں کس قدر غیر محفوظ ہو جائیں گیں۔ عورت کی عزت پر حملے اس سے پہلے تو گِنی چُنی ریاستوں میں ہوتے تھے، اب تو پورے بھارت میں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کو ہی دیکھ لیں، جو اپنی ذات سے باہر، طبقے سے باہر یا پھر اپنے مذھب سے باہر شادیاں ھوتی ہیں، لڑکا لڑکی جو بالغ ہیں، ان میں پیار ھو گیا تو طاقتور ذات یا مذھب کی فیملیز لڑکے اور لڑکی دونوں کو قتل کر دیتی ہیں، حتیٰ کہ کمزور ذات کی فیملی کے دیگر افراد کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت بھارت بھر میں ھو رہا ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن، جِس کی میں رکن ہوں، ملک بھر میں ان معاملات کی جھانچ پڑتال کرتی ہے اور ایسے سانحات کا شکار ہونے والے خاندانوں کو مناسب مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں کہیں بھی ایسا حادثہ ہوتا ہے ہم وہاں فوراً پہنچتی ہیں اور ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتلِ عام پر ہمارے دیش میں کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس پر تحقیق کر کے ایک پورا لیگل ڈاکومنٹ بنایا اور 15 برس قبل پارلیمنٹ کو دیا کہ براہِ مہربانی اس کے خلاف قانون سازی کریں۔ یہ ایک عام سا قتل نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کا قتل ہے، اور یہ ملکی آئین کی روح اور بنیادی اصولوں کے منافی بھی ہے۔ صرف ایس لیے کہ ایک ھندو اور مسلم لڑکا لڑکی نے شادی کر لی، انہیں قتل کر دینا انسانیت کی تذلیل ہے۔ دیش کی عورتیں ہر جگہ غیر محفوظ ہیں، خواہ وہ گھر میں ہوں، آشرم میں ہوں، سڑک پر ہوں، دفتر یا فیکٹری میں کام پر ہوں، ان پر جنسی ہراسگی و تشدد کے واقعات خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ تازہ ترین مثال ملک کی قابلِ ناز اولمپین ونیش پھوگاٹ پر فیڈریشن کے صدر کی جنسی زیادتی اور اس الزام پر وزیراعظم کی تکلیف دہ خاموشی کی ہے۔ اُس نے اولمپک گولڈ میڈل جیتا، ایشین اور کامن ویلتھ سپورٹس میں گولڈ میڈل جیتے اور ملک کا نام روشن کیا، اور یہ کس قدر شرم ناک ہے کہ ہمارے دیش کی سرکار کہہ رہی ہے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ وہ جھوٹ بول رہی ہوتی تو اپنا قابلِ رشک مستقبل داؤ پر نہ لگاتی۔ اُس کی جانب سے دائر کی گئی ایف آئی آر میں 7 دیگر ویمن ریسلرز نے بھی گواہی دی تھی۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ ہی ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر ہیں، جنہیں ہمارے ہی دیش کے وزیراعظم بچا رہے ہیں۔ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف 38 کریمنل یعنی فوجداری مقدمات ہیں جن میں قتل کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ وہ بابری مسجد شہید کرنے کے مقدمے اور داؤد ابراہیم گینگ کے شوٹرز کو پناہ دینے پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت قائم ہونے والے مقدمے میں بھی رہے۔ 28 مئی کو جب نئی پارلیمنٹ کھلی تو وہ وزیراعظم کے ساتھ کھڑے تھے اور اُسی روز ان ریسلرز پر احتجاج کے دوران پولیس نے تشدد کیا۔ یہ نیا بھارت ہے، جِسے بی جے لی اور آر ایس ایس نے تشکیل دیا ہے۔
بھارت میں ریپ کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو ریا ہے۔ ملک میں 2018ء تک نیشنل کرایمز بیورو ایسے اعدادوشمار جاری کؕرتا تھا، لیکن مودی سرکار نے ان بڑہتے ہوئے جرائم پر کہا کہ ایسے اعدادوشمار دینا بند کر دیں، نہ اعداد و شمار آئیں گے اور نہ شور مچے گا۔ آپ نے بلقیس بانو والے واقع کا تو سنا ہو گا، زرہ دیکھیں کہ بلقیس بانو کون ہے، وہ صرف مسلم خاتوں ہی نہیں بلکہ ایک 22 سالہ بھارتی شہری ہے، جسے گینگ ریپ کیا گیا اور اس کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اس کو بھی مرا ہو سمجھ کر چھوڑ دیا، کیونکہ اس کے اوپر بھی وار ہوئے تھے اور اُنہیں لگا کہ یہ مر گئی ہے۔ جب 11 لوگوں نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا تو وہ اس وقت حاملہ تھی۔ اُس کے اوپر قیامت ڈھانے والے نامی گرامی لوگ تھے، جِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک میں سیاست کو کِس قدر گندا کھیل بنا دیا گیا ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہیں وہ قریب سے جانتی تھی۔ وہ اسی کے گاؤں سے تھے اور وہ چلا رہی تھی کہ بھائی آپ کیا کر رہے ہو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نفرت کی سیاست کس قدر مکروہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ نفرت اس قدر دماغ میں گھس جاتا ہے کہ دماغ معاؤف ہو جاتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ جب یہ وحشت ناک نسل کشی کا واقع ہوا تو اس کے تین روز بعد ہم وہاں گجرات پہنچی تھیں اور ہم بلقیس بانو سے ملے، ہم اُن لوگوں سے بھی ملے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس درندگی کو دیکھا کہ ایک حاملہ عورت کا ابھی دُنیا میں نہ آنے والا بچا کس طرح پیٹ کاٹ کر نکالا اور ان دحشی درندوں نے اُسے تلوار کی نوک پر اُٹھایا ہوا تھا۔ یہ وحشت دیش کے چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی، اور جن بچوں نے یہ منظر دیکھا وہ سین اُن کے آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہو پائیں گے۔ ہم نے ان کے خاندان کے جلے ہوئے بچے دیکھے، جو اسوقت کھڑکیوں سے کود کر اپنی جان بچا رہے تھے۔ یہ بنا ہوا ہے ہمارے پردھان منتری کا راج۔ آپ سوچیے یہ ہمارے دیش کا وزیرِ اعظم ہے جِس نے گجرات میں اس درندگی کی راہنمائی کی۔ اسی لیے اُس نے بی بی سی کی ڈاکومنٹری پر پابندی لگائی، جِس میں اس کے کچھ مناظر موجود تھے۔ بلقیس بانو کی تین سال کی بیٹی کو اُس کے ہاتھ سے چھین لیا اور اُس آدمی نے اسی وقت ماں کے سامنے 3 سال کی بچی کو اُٹھا کر پٹخ کر زمین پر اس زور سے مارا کی اُس کا سر پھٹ گیا اور وہ موقع پر ہی انتقال کر گئی۔
بھارت میں صرف ھندو مسلم مذھب کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ دیش بھر کی عورتیں انتہائی مشکل حالات سے گذر رہی ہیں اور ہر عورت کو اپنے آپ کو بلقیس بانو کی جگہ رکھ کر دیکھنا ہو گا۔ آپ ذرا بلقیس بانو کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر دیکھیں کہ کیا بیتی ہو گی اُس عورت کے اوپر، جِس کے سبھی پریوار والے دائیں بائیں کٹے پڑے تھے، تین سال کی بچی خون سے لت پت پڑی ہوئی تھی، اور وہ رینگتے اینگتے پولیس اسٹیشن تک گئی کیونکہ وہ چل نہیں پا رہی تھی۔ اُس کے 11 گناہ گاروں کو بی جے پی کی حکومت نے 15 اگست کو رہا کر دیا۔ اس طرح ملک کے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر بی جے پی سرکار نے ملکی خواتین کو یومِ آزادی کا یہ تحفہ دیا۔ ان 11 مجرموں کو رہائی کے وقت جیل کے باہر بی جے پی کے راہنماؤں نے ہار پہنائے اور ہیرو بنا کر پیش کیا۔ اس سے بلقیس بانو کے دل پر کیا گزری ہو گی، آپ اور ہم تو شائد اندازہ بھی نہ کر پائیں۔ اس لیے عورتوں کے حقوق کی یہ جدوجہد ایک عام سیاسی تحریک کی طرح نہیں ہے۔ ملک پر مسلط وزیرِ اعظم مودی ہٹلر کی پرچھائی ہے، اور وہ ایسی ہی ذھنیت کا مالک ہے اور نسل کشی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اور اس کے ہمنوا اپنے ہی دیش میں ظلم، جبر اور وحشت پھیلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ہماری جدوجہد آسان نہیں، لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ ایک سیاسی جنگ ہے اور بی جے پی کے پاس صرف 37 فیصد ووٹرز کی حمائیت ہے، جبکہ مختلف ریاستوں میں نئے ہونے والے انتخابات میں وہ ہار رہے ہیں۔ جہاں سے یہ برج بھوشن شرن سنگھ آتا ہے، اُتر پردیش کے اس پورے علاقے میں لوکل باڈی الیکشن میں بی جے پی کا کوئی رکن کامیاب نہ ہو پایا ہے۔
یہ جو انہوں نے مذھب اور ذات پات کے نام پر تقسیم اور نفرت پھلا رکھی ہے، یہی اس وقت ہماری جدوجہد کی بنیاد ہے، جس کا ہم سب نے مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت ایک سیکولر ڈیموکریٹک قوم ہے اور ہم اپنے دیش کی اس حیثیت کو ہر صورت برقرار رکھیں گے۔ ہم ملک میں سیکولر ڈیموکریسی پر یقین رکھنے والی تمام جماعتوں، گروپوں اور شخصیات کو متحد کر رہے ہیں، تا کہ ملک کی اس حیثیت کو بچایا اور محفوظ کیا جا سکے۔ اس وقت ملک جِس نہج پر پہنچ چکا ہی، اس میں بھارت کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا جِس پر چل کر وہ زندہ اور متحد رہ سکے۔ ہمیں یہ جنگ ہر حالت میں جیتنی ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس کے لیے عالمی سالیڈیریٹی کی بہت اہمیت ہے۔ جیسے کسانوں کی تاریخی تحریک کے دوران جب مودی برطانیہ آیا تھا تو اس تحریک کی حمائیت میں بینرز لگے تھے کہ مودی واپس جاؤ۔ اس سے بھارت میں تحریک کو تقویت ملتی تھی کہ برطانیہ میں بھی لوگ مودی کو کہتے ہیں کہ واپس جاو پہلے ملک میں انصاف فراہم کرو۔
میں سمجھتی ہوں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے پاس ملک کو چلانے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ انہوں نے ملکی آئین کی دھجیاں اُڑا دی ہیں اور ملکی عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ آر ایس ایس نے تحریک آزادی میں برطانوی سامراج کی حمائیت کی تھی۔ اُنہوں نے اپنے دیش اور عوام سے اُس وقت بھی غداری کی تھی اور اب بھی غداری کر رہے اور دیش کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ وہ صرف ملکی اشرافیہ، ارب پتی سرمایہ داروں اور غیر ملکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور دیش کے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ جنگ انصاف کے لیے ہے، سماجی برابری کے لیے ہے، اور فتح اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب بھارت کی سیکولر جمہوری حیثیت برقرار رہے۔ اس لیے یہی وقت ہے کہ ملک کو تباہی کے جانب بڑھنے سے بچایا جائے اور ملک میں عورتوں سمیت ہر شہری کو برابری کی بنیاد پر حقوق میسر ہوں۔ یہ ایک متحدہ جدوجہد ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ تحریک آگے بڑھے گی اور بھارتی عورتیں اس میں بھرپُور کردار ادا کریں گیں۔ اُنہوں نے اپنی گفتگو ان اشعار پر ختم کی:

ہم سوکھے جھاڑ کی پتیاں نہیں، جو جھڑ کر گِر جائیں
ان آندھیوں سے کہہ دو، اپنی اوقات میں رہیں
ہواؤں کا رُخ بالنا ہمیں آتا ہے۔۔۔۔
۔






Related News

ہمیں اسلام آبادسے دہشتگرد کہہ کر نکالا گیا،اب ہمارے وطن سے نکل جاؤ، ڈاکٹر ماہ رنگ

Spread the loveڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹیRead More

بلوچستان میں انسانی بحران بوسنیا اور ہرزیگووینا سے کہیں زیادہ سنگین ہے | ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سے خصوصی انٹرویو

Spread the loveآزادی پسند بلوچ رہنما اورمسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *