Main Menu

احمد سلیم، ترقی پسند ادب کا خزانہ تھے تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love

ہماری دھرتی کے ایک انتہائی قابلِ قدر شاعر، محقق، مفکر، آرکائیوسٹ، ترقی پسند ادیب، مارکسی دانشور اور انسانی حقوق کے علم بردار ہمارے پیارے ساتھی، کامریڈ احمد سلیم اتوار 10 دسمبر کو سماجی استحصال سے پاک معاشرے کے سپنے بُنتے اور ایک نئے سویرے کی امید جگاتے، اپنے جگر کے عارضے سے ہار کر ہم سے جدا ہو گئے۔ اُنہوں نے اپنی ساری زندگی ملک کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں، عورتوں، مذہبی اقلیتوں اور غیر منصفانہ سماج کے ہاتھوں پستی ہوئی وفاقی اکائیوں کے حقوق و تحفظ کے لیے اپنے قلم کو ہتھیار بنائے رکھا۔ اُن کا اصلی نام محمد سلیم خواجہ تھا اور وہ 26 جنوری 1945ء کو منڈی بہاؤالدین کے ایک چھوٹے سے قصبے میانہ گوندل کے ایک چھوٹے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ احمد سلیم جی اپنے عہدِ جوانی میں ہی ایک جفاکش، سچے اور بےباک انقلابی کارکن کے طور پر نمودار ہوئے۔ وہ ایک منجھے ہوئے ترقی پسند ادیب، محقق اور صحافی تھے اور ترقی پسند ادبی تحریک کے انتہائی فعال اور مخلص کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ترقی پسند ادب پرانی وضع، پرانے انداز، دقیانوسی خیالات، رویوں اور طریقوں کو رد کر کے نئے اصول، قاعدے، اسلوب، طرز اور رجحانات کو ترتیب دیتا، اختیار کرتا اور قبول کرتا ہے۔ یہ ادب تہذیب و ثقافت کے نظریہ ارتقاء، فہم و ادراک اور معاشرے کے اثرات سے نشوونما پاتا ہے۔ ترقی پسند شاعری تصوراتی، فرضی اور غیر حقیقی نہیں ہوتی، بلکہ یہ ادب کے ذریعے عوامی خدمت کرتی اور حقائق بیان کرتی ہے، لوگوں کا حوصلہ بلند کرتی ہے اور زندگی کا مقصد قابل بیان تصورات اور تذکروں سے کرتی ہے۔ ترقی پسند ادب اور شاعری معاشرے میں تشدد، دنگا فساد، آمرانہ سوچ، جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کے رد عمل کے نتیجے میں لکھی جاتی ہے۔ یہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے جذبے کو ابھارتی ہے اور انسانوں میں ان کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے یہی ترقی پسندی احمد سلیم جی کی زندگی

کا اوڑھنا بچھونا بنیی اور آنے والی نسلوں کے لیے علم و ادب کا وسیع ذخیرہ مرتب ہونے کا سبب بن گئی۔
میری احمد سلیم جی سے میری پہلی ملاقات 1987ء میں لاہور میں ہوئی جب وہ قومی انقلابی پارٹی بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے اور مال روڈ کے قریب ایک دفتر سے “ماہنامہ راستہ” شائع کرتے تھے۔ چونکہ وہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایسی مضبوط اور متحریک جماعت بنانے کے قائل تھے، جو ملکی سیاسی منظرنامے میں نمایاں کردار ادا کر سکے اور معاشی ڈھانچے کو توڑ کر وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر تشکیل نو کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایک ایسی جماعت جو ملک پر مسلط قبائیلی، جاگیردارنہ، سرمایہ دارانہ، اشرافیہ اور بیوروکریسی کی لوٹ گھسوٹ پر مبنی فرسودہ نظام کو توڑ کر ایک سوشلسٹ معاشرے کے قیام کے لیے قائدانہ کردار ادا کر سکے۔ میں اُن دنوں انجنیرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم اور طلباء سیاست میں سرگرم تھا۔ میں سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا جنرل سیکرٹری اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا ممبر تھا۔ اُن دنوں پروفیسر عزیزالدین گروپ نے، جو پرولتاری گروپ کے نام سے کام کرتا تھا، مزنگ روڈ لاہور پر مکتبہ فکرودانش کھول رکھا تھا، جو بظاہر ترقی پسند کتب کا مرکز اور پبلشنگ کا کام کرنے کا سینٹر تھا، لیکن وہیں سے پروفیسر جمیل عمر ماہنامہ نیا پاکستان شائع کرتے تھے اور وہ دفتر رانا عبدالرحمان اور ظہور خان کی مدد سے سیاسی بحث مباحثے کا مرکز بن گیا تھا۔ جمیل عمر سے میری گہری دوستی تھی اور ہم دونوں سیاسی حلقوں میں بائیں بازو کی متحدہ جماعت بنانے کی بحث کا آغاز کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اسی سلسلے میں ایک روز ہم ریگل چوک کے قریب احمد سلیم جی سے ملنے ماہنامہ راستہ کے دفتر پہنچ گئے۔ ایک لمبی بحث کے بعد ہم نے طے کیا کہ “آج پاکستان کی ترقی پسند سیاست، پروگرام اور طریقہٗ کار” کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا جائے، جِس کے لیے ‘جمیل عمر، احمد سلیم اور مجھ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو پاکستان کی بائیں بازو کی تمام جماعتوں کے راہناؤں سے ملاقات کرے اور اُنہیں اپنا تحریری مقالہ سیمینار میں پڑھنے کی درخواست کرے۔ ہم نے یہ بھی طے کیا کہ اس سیمینار کے بعد تمام مقالوں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے، جو بعد ازاں بائیں بازو کو اکٹھا کرنے کے ڈاکومنٹ کا کردار ادا کرے گا۔ ہم تینوں مل کر ملک کے مختلف شہروں میں ترقی پسند پارٹیوں کے راہنماؤں سے ملنے گئے۔ کامریڈ نعیم شاکر ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ کا کراچی ہال ہمیں مل گیا۔ ہم نے بھرپوُر سیمینار بھی منعقد کیا اور مکتبہ فِکرودانش نے تمام مقالوں پر مشتمل ایک کتابچہ بھی شائع کر دیا۔ آج ایسے فکری اجتماعات کا ثمر ہمارے سامنے ہے اور متعدد مرجرز کے بعد عوامی ورکرز پارٹی کی شکل میں بائیں بازو کی ایک باعمل جماعت سیاسی دہارے میں موجود ہے۔
میں 1996ء میں برطانیہ منتقل ہو گیا تو ان سے رابطہ نہ رہا۔ پھر اچانک اپریل 2017ء کی ایک خوشگوار شام کامریڈ نذھت عباس جی کا فون آیا کہ احمد سلیم برطانیہ آئے ہوئے ہیں اور اکسفورڈ میں ان کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ جب وہ کامریڈ محمد عباس اور نذھت عباس کے ساتھ ہمارے پاس لیڈز بریڈفورڈ تشریف لائے تو ہم نے ساوتھ ایشین پیپلز فورم کے پلیٹ فارم سے ان کے اعزاز میں ایک تقریب بھی منعقد کی۔ اُنہوں نے ایک رات بائیں بازو کی نامور شخصیت اور ہم سب کی راہنما باجی نسیم شمیم ملک کے ہاں قیام بھی کیا۔ احمد سلیم جی کا میرے والد محترم سے بھی نظریاتی اور محبت کا رشتہ تھا اور جب بھی وہ انہیں ملنے ٹوبہ ٹیک سنگھ تشریف لاتے تو اپنی علمی پیاس بھجانے اور آرکائیو کے لیے کتابوں کی ایک دو بوریاں بھر کر ساتھ لے جاتے۔
احمد سلیم جی کی ملک کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر تھی۔ انہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں اور پاکستانی اخبارات سے ملکی تاریخ کے اہم واقعات کو چار جلدوں میں اکٹھا کیا۔ وہ اک بیباک، بہادر، ثابت قدم اور جہدِ مسلسل کرنے والے انقلابی راہنما کے ساتھ ساتھ پنجابی اور اردو زبان کے شاعر، نثر نگار، کالم نویس اور محقق بھی تھے۔ ان کی زندگی کے ہماجہت پہلو تھے جن کی وجہ سے اُنہوں نے تحقیقی مضامین اور کتب کی تصانیف و ترتیب میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پنجابی اور اردو کی 175 سے زائد کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف ہیں۔ اُن کے شاعری مجموعوں میں نور منارے، کونجاں موئیاں، گھڑی دی ٹک ٹک، جب دوست نہیں ہوتا اور اک ادھوری کتاب دے بے ترتیب ورق شامل ہیں۔ وہ ملک میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کے ادب کا پنجابی میں ترجمہ کر کے شائع کرتے رہے۔ نامور ترقی پسند ادیب شیخ ایاز کی شاعری کا ‘جو بیجل نے آکھیا’ کے نام سے پنجابی میں ترجمہ بھی کیا، جِسے وہ ہمیشہ فخر سے پیش کرتے تھے۔ ‘نال میرے کوئی چلے’ اور ‘تتلیاں تے ٹینک’ کے نام سے دو ناول بھی تخلیق کئے۔ سیاست کے موضع پر جو کتابیں تحریر کیں ان میں ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں، سیاست دانوں کی جبری نا اہلیاں، پاکستان اور اقلیتیں، محمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اور پاکستان کے سیاسی قتل کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے فیض احمد فیض، حمید اختر، مسعود کھدرپوش، احمد راہی اور کئی دوسرے اہلِ قلم پر کتابیں بھی قلم بند کیں۔ اُنہیں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جن میں 14 اگست 2010ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور حکومتِ بنگلہ دیش کی جانب سے 1971ء میں بنگلہ دیشی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے پر بنگلہ دیش فریڈم ایوارڈ شامل ہیں۔ وہ ساوتھ ایشین ریسورس اینڈ ریسرچ سینٹر اسلام آباد کے شریک بانی تھے، جسے پاکستان میں سب سے بڑا پرائیویٹ ریسرچ آرکائیو ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
احمد سلیم جی نظریاتی اور سیاسی طور پر ہمیشہ درست راستے کی نشاندہی کرتے رہے اور انہوں نے سیاسی کارکنوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے محنت کش عوام اور ملک کے پسے ہوئے طبقات سے وابستگی کی قیمت ادا کرتے ہوئے ڈکٹیٹر یحییٰ کے دور میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ میں آج فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم سب کے احمد سلیم ایک منجھے ہوئے باعمل سوشلسٹ تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کو آنے والی نسلوں کے لیے وقف کر دیا۔ اُنہوں نے اپنے نظریات کی ترویج و ترقی کے لیے قلم کا انتخاب کیا اور ترقی پسند ادب کا وسیع زخیرہ مرتب کیا۔ اُن کی تحقیقی کتب، تنقیدی مضامین، تراجم اور شاعری ہمیشہ آنے والی نسلوں کی راہنمائی کرتی رہے گیں اور اُن کی ادبی میدان میں گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آج پاکستان تنزلی کے جِس مقام پر پہنچ چکا ہے اُس میں احمد سلیم جیسے باشعور اور ہمہ جہت نقاد، مفکر اور انقلابی راہنما کی کمی کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں ایک سوشلسٹ کارکن کی حیثیت سے میں اس بات کا عزم کرتا ہوں کہ ہم سب مل کر احمد سلیم کے مشن کو جاری رکھنے اور ملک کے مظلوم، محکوم اور پچھڑے ہوئےطبقات، کسانوں، مزدوروں اور محنت کار عوام کے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور ملک کو بالادست طبقات، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، اشرافیہ اور کرپٹ بیوروکریسی کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے اپنا کردار جانفشانی سے ادا کرتے رہیں گے۔








Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *