Main Menu

سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love



سامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئے ساوتھ ایشیائی ملک سری لنکا کے عوام نے اپنے
مستقبل کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ملک کے پہلے سوشلسٹ صدر کا انتخاب کر کے تاریخ رقم کر دی۔ جنتا
ویمکتی پیرومانا (جے وی پی) اور نیشنل پیپلز پاور (بائیں بازو اور ترقی پسند تنظیموں کا اتحاد) کے رہنما انورا کمارا
ڈسانائیکے نے 21 ستمبر کو سری لنکا میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی۔ انہوں نے ان
انتخابات کے پہلے مرحلے میں 5740179 ووٹ (42.3 فیصد) حاصل کیے، جو کہ

2019ء میں ان کے حاصل کیے گئے
418553 ووٹوں (3.16 فیصد) کی نسبت حیران کن اضافہ تھا۔ ان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں یہ بڑھ کر 55.89
فیصد ہو گئے، جبکہ رنر اپ نے 44.11 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سری لنکا کی عوام دوست قوتوں کے لیے یہ ایک تاریخی
فتح ہے، کیونکہ وہاں پہلی بار ایک بائیں بازو کے رہنما نے ملکی صدر کا انتخاب جیتا ہے۔ تاریخی طور پر مسلحہ جدوجہد
کرنے والے سری لنکن سوشلسٹوں (ماؤ نواز مارکسوادیوں) نے اپنے ملک اور پسی ہوئی عوام کو سامراجی تسلط اور
بالادست طبقات کے استحصال سے نجات کے لیے معروضی حلات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے بیلٹ کا راستہ اپنایا تو
عوامی حمائت سے ملک کے اعلیٰ ترین صدارتی عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نو منتخب سوشلسٹ صدر انورا
کمارا ڈسانائیکے نے 23 ستمبر 2024ء کو ملکی صدارت کا حلف اٹھایا اور ایک ‘حقیقی عوامی’ حکومت چلانے کا اعلان
کر دیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکمرانی اور اقتدار مٹھی بھر کرپٹ اشرافیہ کے خاندانوں کے کنٹرول سے عوامی جمہوری
قوتوں کو منتقل ہو گا۔ سری لنکا کی کمیونسٹ پارٹی، جس کی قیادت پی. آریانتیرن اور دلتھ جیاویرا کر رہے ہیں، نے بھی
این پی پی کے ساتھ انتخاب میں حصہ لیا تھا۔
دُنیا میں نئی ایجادات اور ذرائع آمدورفت کی ترقی کے ساتھ 15ویں صدی میں نوآبادیاتی نظام کا آغاز ہو ا، جب پرتگال اور
سپین نے امریکہ، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، ہندوستان اور مشرقی ایشیا کو دیافت کیا۔ اس طرح دنیا کے نقشے پر پرتگال اور
سپین پہلے بڑے سامراجی ممالک کے طو پر ابھر کر سامنے آئے۔ سری لنکا میں یورپی ممالک کی دلچسپی اس وقت بڑھی
جب 1505ء میں پرتگالی کولمبو پہنچے۔ بعد ازاں 1658ء میں ڈچ (نیدرلینڈ) نے پرتگالیوں کو باہر نکال دیا اور مرکزی
ریاست کینڈی کے علاوہ پورے جزیرے پر کنٹرول قائم کر لیا۔ برطانیہ نے 1796ء میں جزیرے پر قبضہ کرنا شروع کیا،
جو 1815ء میں اس وقت مکمل ہوا جب برطانیہ نے کینڈی کی بادشاہی فتح کر لی اور دُنیا کے منافع بخش کاروبار کے لیے
سری لنکا کے چائے، کافی اور ناریل کے باغات میں کام کرنے کے لیے جنوبی ہندوستان سے تامل مزدوروں کو لانا شروع
کر دیا۔ اس طرح کنڈیان جنگوں کے بعد، جزیرہ 1815 میں برطانوی راج کے تحت متحد ہو گیا۔ انگریزوں کے خلاف مسلح
بغاوتیں، 1818ء میں یووا بغاوت اور 1848ء میں متلے بغاوت کے نام سے ہوئیں۔ آخر کار 4 فروری 1948ء میں سری
لنکا کے عوام کو ڈومنینین آف سیلون کے نام سے محدود آزادی مل گئی لیکن یہ ملک 1972 تک برطانوی سلطنت کا
ڈومینین رہا۔ اس دوران برطانوی سامراج نے اپنے لڑاؤ اور راج کرو اصول کے تحت مذھبی اور لسانی تفریق کو تقویت دینا
جاری رکھا۔ اس لیے یہ آزادی اس حد تک محدود تھی کہ 1949ء میں ھندوستانی تامل باغبانی کے کارکنوں کو حق رائے
دہی سے محروم کر دیا گیا، اور ملک میں سنہالی قوم پرستی کی لہر کا آغاز ہو گیا، جس نے تامل اقلیت کو الگ کر دیا۔ اسی
قوم پرستی کی لہر کی بنیاد پر 1956ء میں سلیمان بندرانائیکے منتخب ہوئے اور انہوں نے سنہالا کو واحد سرکاری زبان بنا
دیا اور سنہالی اور بدھ مت کے جذبات کو تقویت دینے کے لیے دیگر اقدامات متعارف کرائے۔ سری لنکن عوام نے قومی
آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھا اور 22 مئی 1972ء میں سیلون ایک جمہوریہ بن گیا اور اس کا نام سیلون سے تبدیل کر
کے ”آزاد، خود مختار اور آزاد جمہوریہ سری لنکا” رکھ دیا گیا۔ بدھ مت کو ملک کے مذہب کے طور پر بنیادی مقام دیا گیا،
جو تامل اقلیت کی مزید مخالفت اور بغاوتوں کا سبب بنا۔
سری لنکا میں آزادی کے بعد خانہ جنگی کا طویل دور رہا، بالخصوص 1971ء اور 1978ء میں ماؤ نواز انقلابیوں کی
مسلحہ بغاوتیں ہوئیں۔ پھر 1976ء میں ایل ٹی ٹی ای (لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم) کی بنیاد رکھی گئی اور 1983ء میں
ملک میں خانہ جنگی کا مکمل آغاز ہو گیا۔ سری لنکا میں 1978ء میں ایک آئین متعارف کرایا گیا جس کے ذریعے ایگزیکٹو
صدر کو ریاست کا سربراہ بنا دیا گیا اور ملک میں صدارتی نظام نافظ ہو گیا۔ سرکاری فورسز نے 1987ء میں ایل ٹی ٹی ای
کو شمالی شہر جافنا میں واپس دھکیل دیا۔ حکومت نے شمال اور مشرق میں تامل علاقوں کے لیے نئی کونسل بنانے کے
معاہدوں پر دستخط کیے اور ہندوستان کے ساتھ امن قائم کرنے والی فوج کی تعیناتی پر معاہدہ کیا۔ بعد ازاں 1990ء میں
ہندوستانی فوجی شمال میں لڑائی میں پھنس جانے کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ سری لنکا کی فوج اور علیحدگی پسندوں کے
درمیان تشدد بڑھتا گیا اور ایل ٹی ٹی ای نے ہزاروں مسلمانوں کو شمالی علاقوں سے بے دخل کر دیا۔ بعد ازاں 1991ء میں
ایل ٹی ٹی ای کو جنوبی ہندوستان میں ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث کیا گیا، اور 1993ء میں سری
لنکن صدر پریماداسا ایل ٹی ٹی ای کے بم حملے میں مارے گئے۔ بعد ازاں 2001-1995ء میں شمال اور مشرق میں جنگ
چھڑ گئی۔ حکومت نے 2009ء میں تامل ٹائیگرز کو شکست دینے کا اعلان کیا جب فوج نے شمال مشرق میں باغیوں کے
زیر قبضہ علاقے کے آخری حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں تقریباً 70,000-80,000 افراد کے مارے جانے کا
تخمینہ لگایا گیا ہے، جو غیر جانبدار ذرائع کے مطابق ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
ھندوستان کے جنوب میں واقع جزیرہ نما ملک سری لنکا کا کل رقبہ 65610 مربع کلو میٹر اور آبادی 2 کروڑ 21 لاکھ ہے۔
وہاں مجموعی طور پر سنہالہ، تامل اور انگریزی زبان بولی جاتی ہے۔ تاریخی طور پر ‘سیلون’ کے نام سے پہچانے جانے
والے اس ملک کا پورا نام 7 ستمبر 1978ء سے ‘ڈیموکریٹک سوشلسٹ رپبلک آف سری لنکا’ ہے۔ وہاں شرح خواندگی 92
فیصد ہے، جو کہ ترقی پذیر ممالک کی توقع سے بہت زیادہ، اور ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ تعلیم بلا شعبہ کسی بھی ملک
کے باشندوں کی زندگی اور ثقافتی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جزیرہ نما سری لنکا نے صدیوں سے ہی اپنی
قدرتی خوبصورتی سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے، لیکن شمال اور مشرق میں اکثریتی سنہالیوں اور تامل اقلیت
کے درمیان نسلی کشیدگی سے پیدا ہونے والی ایک طویل اور تلخ خانہ جنگی کے داغ اس کی خوبصورتی پہ نمایاں طور پر
نظر آتے تھے۔ تقریباً 26 سال کے تشدد کے بعد یہ تنازع مئی 2009ء میں اختطام پزیر ہوا۔ بنیادی طور پر اس زرعی ملک
میں کپاس، چائے، کافی، ربڑ اور ناریل سے بنی اشیاء وافر مقدار میں پیدا ہوتی اور اور دُنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں۔
جنتا ویمکتی پیرومانا (جے وی پی) دراصل کیمونسٹ پارٹی (ماؤسٹ) سری لنکا ہے، جو 1964ء میں کیمونسٹ پارٹی سیلون
میں چین روس تنازعہ کی بنیاد پر تقسیم کے بعد مسلح جدوجہد سے انقلاب لانے کی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی۔ یہ پارٹی ملک
کی ابتدائی انقلابی جماعتوں میں سے ہے جِس نے جابر حکمرانوں کے خلاف دو عوامی بغاوتوں ، 1971ء اور 89-1987ء
کی قیادت کی تھی۔ ان بغاوتوں کا مقصد ملک کو سامراجی شکنجے سے آزادی اور مقامی اشرافیہ کے استحصال سے نجات
دلوانا تھا۔ ان بغاوتوں کی ناکامی کے بعد جے وی پی مرکزی دھارے کی جمہوری سیاست میں داخل ہو گئی، اور اس نے
حالات سےسیکھتے ہوئے اپنی ابتدائی (ماؤ نواز) پالیسیوں میں سے پیشتر، بالخصوص مسلحہ جدوجہد کو ترک کرتے ہوئے
معروضی حالات کے مطابق اپنے نظریے اور عمل کو اپ ڈیٹ کر لیا۔ جے وی پی نے پہلے 1977ء میں جمہوری سیاست
میں قدم رکھا، جب صدر جے آر جے وردھنے نے جے وی پی راہنما روہانا وجیویرا کو جیل سے رہا کیا۔ وجیویرا نے
1982ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 4.16 فیصد جیت کر تیسرے کامیاب امیدوار
رہے۔ انتخابات سے پہلے، انہیں فوجداری انصاف کمیشن (سی جے سی) نے ریاست کا پرتشدد طریقے سے تختہ الٹنے کی
سازش کرنے پر سزا سنائی تھی۔ بعد ازاں جے وی پی نے 1987 میں ہند-سری لنکا معاہدے پر دستخط کے بعد دوسری بار
زیادہ منظم بغاوت شروع کی، جو پھر ناکام رہی اور نظریاتی تجدید کی بنیاد بنی۔
سری لنکا میں بائیں بازو کے اتحاد نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) ملک کی ایک ابھرتی ہوئی سیاسی تحریک ہے جِس میں 21
ترقی پسند سیاسی جماعتیں، ٹریڈ یونینز ، طلباء و نوجوانوں کے گروپ، اساتذہ و دیگر پروفیشنلر کی انجمنیں، خواتین کی
تنظیمیں اور انسانی حقوق و سول سوسائیٹی کے گروپ شامل ہیں۔ یہ اتحاد 2019ء میں سری لنکا میں ایک متبادل ترقی پسند
سیاسی پلیٹ فارم کے سلسلے میں بلائے گئے اجلاس اور بحث و تمحیض کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ این پی پی کا
بنیادی مقصد معاشرے کی بنیادی سطحوں، یعنی گلی محلوں، فیکٹریوں اور کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والے عام عوام کی
سطح پر ایک مضبوط تحریک کی بنیادیں رکھنا تھا، جو ملک میں بنیادی اور ضروری سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں
کو جنم دے سکے۔ جو ایک ایسی معاشی جمہوریت کے قیام کے لیے بنیادیں فراہم کرے، جہاں معیشت میں عوامی شرکت
کے ساتھ ہر کسی کے لیے معاشی فوائد اور ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ہو، اور ملکی عوام کو مضبوط سماجی
تحفظات کے ساتھ ایک جامع اور حقیقی جمہوری سری لنکا کی شناخت بھی اُبھر کر سامنے آئے۔
انورا کمارا ڈسانائیکے کی قیادت میں بننے والے بائیں بازو کے اس اتحاد کی 73 رکنی قومی ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دی
گئی، جِس میں مذھب، رنگ، نسل اور جنس سے پاک وسیع تر نمائیندگی شامل ہے۔ اس اتحاد کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ
این پی پی کے ذریعے سری لنکا میں عوامی اتحاد اور خوشحالی کی نئی عوامی بنیادیں فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا وژن ایک
ایسا متحدہ مستقبل ہے جہاں معاشی ترقی، سماجی بہبود، اور ماحولیاتی پائیداری ساتھ ساتھ چلتی ہوں۔ اُن کا مقصد عام ملکی
افراد کو با اختیار بنانا، محنت کش و کام کار عوام کو مضبوط کرنا اور ملک میں جدت طرازی کو آگے بڑھانا ہے۔ ان کا کہنا
ہے کہ انہیں اپنے دیش کو ایک با مقصد تعلیم کی بنیادوں کو استوار کرنا ہے تا کہ پائیدار عوامی وابستگی کے ذریعے تمام
نسلوں کے لیے ایک خوشحال کل کو یقینی بنایا جا سکے، اور عوام کے مستقبل کو ایک نئی شکل دینے کے اس سفر میں وہ
ہمارے ساتھ شامل ہوں اور کوئی بھی پیچھے نہ رہ پائے۔
بائیں بازو کے اس اتحاد کی بنیادیں سماجی انصاف، معاشی جمہوریت، یکجہتی، باہمی تعاون، پائیداری اور اور کرپشن فری
گورننس پر رکھی گئی ہیں۔ اس کا مشن سماجی انصاف پر مرکوز ہے، اور وہ ایک ایسے معاشرے کا تصور رکھتے ہیں
جہاں سب کے لیے مساوی مواقع اور مساوی نتائج حاصل ہوں۔ ان کا مقصد ایک ایسا سماج اور ایسی دنیا کے قیام کے لیے
ہے جہاں طبقات، نسل، مذہب، زبان، ذات، مقام، یا جنس کے فرق لوگوں کی زندگی کی تکمیل اور مساوی شرکت میں رکاوٹ
نہ بنیں۔ ان کا مقصد مواقع، وسائل اور مراعات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے، جس سے حقیقی جامعیت اور انصاف پر
مبنی معاشرے کی تشکیل ہو۔ ان کے مقاصد میں عوامی وکالت، تعلیم اور تعاون کے ذریعے ہر قسم کی رکاوٹوں کو ختم
کرنے اور سب کے لیے ایک روشن سماج اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے انتھک محنت کرنا شامل ہے۔ تعلیم، شمولیت،
اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے وہ ایک ایسی دنیا بنانے کی کوشش کریں گے، جہاں ہر کسی کو اپنی پوری صلاحیت تک
پہنچنے کا مواقع ملیں، اور وہ ایک دوسرے کی بھلائی میں اپنا بھرپُور حصہ ڈالیں۔
جے وی پی یکے بعد دیگرے مسلحہ بغاوتوں کی ناکامی اور ریاستی جبر کے ایک سلسلے سے گزری، اور سوویت یونین
میں ردِ انقلاب کے بعد تقریباً مکمل طور پر ختم ہونے کے مقام تک پہنچ چکی تھی، لیکن 1999ء میں مارکسی راہنما

امراسنگھے نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا اور آہستہ آہستہ نظریاتی تعلیم و تربیت کے سیل قائم کر کے پارٹی کی بنیادیں نئے
سرے سے استوار کر دیں۔ اس دوران اُنہیں سماجی جمہوری خیالات اور کٹر سوشلسٹ نقطہ نظر کے درمیان بار ہا اندرونی
کشمکش کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی سری لنکا کے معاشی بحران کے دوران سرگرم رہی، اور اس کی سرگرمیوں نے بالآخر
پارٹی کو سرخرو کر دیا۔ سری لنکا کے عوام نے اسٹیبلشمنٹ پارٹیوں کو 2022 کی معاشی بدحالی اور آئی ایم ایف کے
سخت بیل آؤٹ کے ذریعے عائد کردہ مشکلات اور ناکامیوں کی سزا دی ہے۔ ملک میں خوراک، ایندھن اور ادویات کے قلت
کے بعد نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) کی مقبولیت میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ اس نے حکومتی بدعنوانی اور معاشی
بدانتظامی پر عوامی غصے کو بھڑکا دیا۔
نو منتخب صدر انورا کمارا ڈسانائیکے مزدور طبقے کے والدین کے بیٹے ہیں، جنہوں نے اپنے آبائی شہر کے عام سرکاری
اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، اور انتھک محنت کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخل ہونے والے تھمبوٹگاما کے پہلے طالب
علم بن گئے۔ یونیورسٹی میں طلباء سیاست نے انہیں سرگرم انقلابی بنا دیا اور انہوں نے 1987ء میں جے وی پی میں
شمولیت اختیار کر لی۔ اسی طلباء سیاست نے انہیں ملکی سطح کی سیاست سے متعارف کروایا اور ایک منجھے ہوئے انقلابی
بنا دیا۔ اُن کی حمایت میں 2022ء کے ملکی بحران کے وقت سے مسلسل اضافہ اور صدارتی انتخابات میں جیت ان کی
پارٹی کی عوامی جدوجہد میں زبردست شمولیت کا براہ راست نتیجہ ہے۔ سری لنکا کے عوم ادارہ جاتی و سیاسی بدعنوانیوں،
پانی، بجلی، ایندھن، گیس، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کے فقدان سے تنگ آچکے تھے۔ گذشتہ سات دہائیوں
سے مسلط کی گئی تباہ کن معاشی پالیسیاں ملکی زراعت کی تباہی، کسانوں کے استحصال، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے
روزگاری اور گرتے ہوئے معیار زندگی کا باعث بن گئی تھیں۔ وہ اس وقت کے صدر گوتابایا راجا پاکسے کی قیادت میں
چلنے والی حکومت کے خلاف احتجاج میں نکلے تھے۔ ان مظاہروں سے عوامی غصہ پھٹ گیا اور صدر راجا پاکسے کو
استعفیٰ دے کر بھاگنا پڑا۔ حکمران طبقے کی دو اہم جماعتوں کے درمیان اقتدار کا دفتر برقرار رکھنے کی کوشش میں ”رانیل
وکرمے سنگھے” نے عبوری صدر کا حلف اٹھایا، جو مکمل طور پر راجا پاکسے کی حمایت پر انحصار کرتے تھے۔
وکرما سنگھے صورتحال کو بچانے میں ناکام رہے کیونکہ وہ اُسی استحصالی نظام کے پیدا کردہ نظامی مسائل کو حل کرنے
کے لیے تیار نہ تھے۔ اس نے آئی ایم ایف سے قرض کے لیے بات چیت کی، اس کی بہت سی سخت شرائط کو قبول کیا اور
کرپشن کی لعنت سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ ان کی پالیسیوں نے حالات کو حل کرنے کے بجائے عوام پر مزید
بوجھ ڈالا۔ ملک کے 20 فیصد امیر ترین لوگوں کو نوازا گیا اور عام عوام کے ساتھ عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے
طاقت کا استعمال کرکے اپنی ناکامیوں کے خلاف کسی بھی اختلاف کو دبانے کی کوشش کی۔ اس نے آن لائن سیفٹی ایکٹ
اور انسداد دہشت گردی ایکٹ جیسے قوانین منظور کیے، جو جمہوری حقوق اور آزادی کو سلب کرتے تھے۔ اسی پس منظر
میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ان انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم معیشت کو بحال کرنے اور عوام کو
رلیف دینے کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بائیں بازو کے راہنما انورا کمارا ڈسانائیکے اور این پی پی کی مہم
مقبول تخیل کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی، کیونکہ انہوں نے لوگوں کو درپیش اہم مسائل کو حل کرنے کا واضع پروگرام
دیا تھا۔ انورا کمارا ڈسانائیکے کے انتخابی منشور میں معیشت کی اصلاح کو ترجیح دی گئی اور معاشی ناہمواری کے خاتمہ
کی پالیسی لانے کا وعدہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو دور کرکے مساوات کو فروغ دینے کے لیے
بنیادی تبدیلیاں لائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تمام شہریوں کو بنیادی خدمات اور مواقع تک رسائی حاصل ہو۔
اس میں نظام تعلیم، صحت اور عوامی دیکھ بھال کے نظام میں ان کی ساختی حدود کو درست کرتے ہوئے اصلاحات شامل
ہیں۔ انہوں نے لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو متاثر کرنے والے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کی اور انہیں حل کرنے کا
وعدہ کیا۔ ان کے انتخابی منشور میں 2009ء میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے تامل اقتدار کی منتقلی اور مفاہمت کا
مطالبہ کھل کر عوام کے سامنے رکھا گیا۔ این پی پی نے وعدہ کیا ہے کہ صوبائی انتخابات فوری طور پر کرائے جائیں گے
(آخری بار ایک دہائی قبل 2013 میں ہوئے تھے) اور یہ کہ نیا آئین ان کے تحفظات کو دور کرے گا۔
سیاسی میدان میں، ڈسانائیکے نے ایگزیکٹیو پریذیڈنسی، یعنی صدارتی نظام کو فوری طور پر ختم کرنے اور اختیارات
عوامی نمائیندوں کو منتقل کرنے کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا، جو 1978ء سے رائج ہے۔ انہوں نے صدارتی حلف اُٹھانے
کے دو روز بعد پارلیمنٹ کو فوری طور پر تحلیل کرنے اور 14 نومبر کو ملک میں نئے عام انتخابات منعقد کروانے کا
اعلان کر دیا۔ انہوں نے بدعنوانی اور نسل پرستی کے کلچر کو یکسر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ
احتساب کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات لائیں گے اور نظام سے استثنیٰ کے کلچر کو ختم کریں گے۔ ان وعدوں نے عوام
کی تائید حاصل کی ہے اور انہیں ملک کا ایک مقبول رہنما بنا دیا ہے۔
سری لنکا کے عوام نے ڈیسانائیکے اور این پی پی کو تبدیلی کی تڑپ کے ساتھ، ان کی ایمانداری اور الیکشن مہم میں عوامی
بہبود کی بنیادوں پر تازگی لانے پر ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ووٹ دیا ہے۔ اب جیتنے والوں کی باری ہے کہ وہ اپنے
وعدوں پر پورا کریں اور عوام کی امنگوں پر پورا اتریں۔ ہم ڈسانائیکے اور جے وی پی کو نیک تمنائیں دیتے ہیں اور پوری
امید رکھتے ہیں کہ وہ وعدہ کی گئی تبدیلی لائیں گے اور بائیں بازو کو مضبوط کریں گے۔ راقم کو یقین ہے کہ ڈسانائیکے
کی جیت اس یقین کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گی۔ انورا ڈیسانائیکے کے سیاسی کیرئیر کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ
ایک با عمل انقلابی راہنما ہیں اور ہو حکمران اتحاد کی جماعتوں کے خلاف انتخابی فتوحات صرف عوامی شرکت اور قائدانہ
جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ہمسایہ ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات، بحر ہند میں سری لنکا کے اسٹریٹجک محل وقوع اور ان پانیوں
میں گشت کرنے کی امریکی کوششوں کے پیش نظر یہ ایک مشکل کام ہوگا۔ اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر زور دینا، سارک
ممالک اور عالمی طور پر غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے رکن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کثیر قطبی کو
مضبوط بنانا ملکی عوام کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ انورا ڈیسانائیکے کے لیے ایک اور بڑا چیلنج حکومت کا اقلیتوں کے تئیں
رویہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈسانائیکے نے تامل ووٹوں کی صرف ایک اقلیت جیتی ہے۔ یہ اقلیتوں بالخصوص تاملوں کے
تئیں ان کی پارٹی کے رویے کے بارے میں اندیشوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جنگ اور معاشی پسماندگی نے اقلیتوں کے بڑے
طبقوں کو ملکی سیاسی دھارے سے دور کر دیا ہے اور ان زخموں پر مرہم رکھنے کی ذمہ داری انورا ڈسانائیکے اور بائیں
بازو کے اتحاد این پی پی پر عائد ہوتی ہے۔ اس میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمال اور مشرق کے تامل بولنے والے
علاقوں کو اختیارات کیسے منتقل کیے جائیں۔
راقم اپنی پارٹی اور پاکستان کے ترقی پسندوں کی جانب سے نو منتخب صدر انورا کمارا ڈسانائیکے، جے وی پی اور نیشنل
پیپلز پاور (این پی پی) کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ صدر انورا ڈسانائیکے ملک کو
سماجی راہ پر گامزن کریں گے۔ ملک میں اقتصادی ترقی، عوامی بہبود اور اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنائیں گے۔ ہم ایسی
کوششوں میں اُن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ سری لنکا میں سنہالیوں، تاملوں، مسلمانوں اور تمام سری لنکا
کا اتحاد اس نئے آغاز کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ہم جس نئی نشاۃ ثانیہ کی تلاش میں ہیں وہ اسی مشترکہ طاقت اور وژن سے
اٹھے گا۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے تمام ترقی پسند اتحادیوں کو بھرپور شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے کہیں کہ ”آئیے ہاتھ
جوڑیں اور مل کر اس مستقبل کی تشکیل کریں”۔
سری لنکا میں بائیں بازو کا نیا ابھار ساوتھ ایشیائی ممالک، بالخصوص پاکستانی ترقی پسندوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے
اور ان کے لیے جدوجہد کے نئے انداز، نئے اسلوب اور نئے طریقوں کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ راقم کو یقین ہے کہ سری
لنکا کے ترقی پسندوں کی جدوجہد مغربی مالک کی ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی فنڈنگ سے این جی اوز چلانے
والے ترقی پسندوں اور ذات کے خول میں قید انقلابی دانشوروں کے لیے بھی اپنے نظریہ اور عملی جدوجہد کے از سرِنو
تعین کا سبق دیتا ہے۔ آؤ ہم سب مل کر پاکستان میں ایک آزاد ترقی پسند جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ایک وسیع تر
انقلابی تحریک کو جنم دیں، جہاں ریاست اپنے شہریوں کی ماں جیسی ہو اور ہر کسی کو وسائل، ترقی اور سماجی انصاف
میسر ہو۔ ملک وسائل کی منصفانہ تقسیم اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی طرف بڑھے۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *