Main Menu

سور کے بچے اور مراعات یافتہ طبقہ؛ تحرير: محمد پرویز اعوان

Spread the love


محترم میر اکبر صاحب وزیر جنگلات آزاد کشمیر، سوشل میڈیا پر آپ کی کسی تقریر کا کلپ وائر ل ہے جس میں آپ جناب کی طرف سے ناقدین کو سور کے پتر قرار دیا جا رہا ہے اور باشندگان متنازعہ ریاست کو باہر ممالک میں جا کر برتن مانجھنے کا طعنہ بھی ہے۔
عرض یہ ہے کہ سات دہایوں سے اس 4 ہزار مربع میل پر آپ کی سابقہ جماعت مسلم کانفرنس کسی نہ کسی شکل میں حکومت میں رہی اور آپ بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ آپ نے اور رياستی حکمرانوں نے یہاں لوگوں کے روزگار کیلئے کون سے اقدامات کیے ہیں؟ زراعت، سیاحت، پیداواری، کوئی انڈسٹری لگائی ہو جس سے لوگ بے خبر ہوں اور وہاں کام کرنے کے بجائے برتن مانجھنے گلف، خلیج عرب اور یورپ تک زندگیاں خطرے میں ڈال کر چلے جاتے ہوں۔

آپ سیاسی رہنما کہلاتے ہیں اور اس طرح کی تذلیل ان بے بس مجبور لوگوں کی کر رھے ہیں جن کو روزگار دینا آپ کی ذمہ داری ہے جو اربوں ڈالر فارن ایکسچنج کی صورت میں زر مبادلہ بھیجتے ہیں جو ماں باپ بہن بھائیوں بیوی بچوں سے دور، دو دو سال ہر روز قسطوں میں مر رھے ہوتے ہیں جو اپنے پیاروں کے جنازوں میں شریک نہیں ھو سکتے جن کی میتیں تین تین ماہ تک سمندر پار سرد خانوں میں پڑھی ہوتی ہیں وہ جو پیسے بھیجتے ہیں ان سے جو ریونیو حکومتی خزانہ میں جاتا ہے جس سے آپ مراعات یافتہ زندگی گزارتے ہیں۔ اور اربوں کی جائیدادیں آپ نے بنا رکھی ہیں اور لوگوں کو صاف پینے کا پانی نہیں، صحت کا کوئی ڈھنگ کا مرکز نہیں، میعاری تعلیمی اداره نہیں، کوئی معیاری سڑک نہیں، گہل نما سڑکوں کے ٹوٹے اور ٹوٹی ٹینکی پر آپ دہایوں سے سیاست کرتے ہیں۔
ماچس کی ڈبیا پر بھی عوام ٹیکس بھرتی ہے۔ آپ یہ گہل نما سڑکیں، کیا اپنے دادا کی وراثت سے دیتے ہیں جن پر آپ کے بقول سور کے پتر چلتے ہیں۔
یہ عوام تعلیم، صحت، بجلی، پانی اور نوکری تک پیسے دیکر خریدتی ہے۔ مگر ان غریبوں کو تو شعور ہی نہیں کہ ان کے مال پر آپ مراعات یافتہ زندگی گزارتے ہیں۔ اور عام لوگ بیچارے زندگی جھیلتے ہیں۔
تلوے چاٹ کر لولے لنگڑے اقتدار سے مراعات حاصل کرنے سے بہتر برتن مانجھ کر عزت کی روٹی کھانا ہے اور ان خودار لوگوں کے ٹیکس کو چوری کر کے مراعات یافتہ زندگی گزارنا گھٹیا عمل ہے۔
سمندر پار مجبور معاشی مہاجر بھائیوں کو چاہیے کہ آپ جیسے رہنماوں کو اپنے شعور سے مسترد کریں اور لوٹا ہوا مال آپ سے چھین لیں۔آپ باغ سے راولپنڈی میں جا کر وکالت کر کے مراعات یافتہ زندگی گزاریں تو تب آپ کو احساس ھو۔
سمندر پار محنت بیچنے والے دوستو، مظلومو اور محکومو اب آپکو سمجھ آ جانی چاہیے اور ان مفاد پرستوں سے نجات کیلئے منظم ہو کر جدو جہد کریں اور بنیادی حقوق کیلئے اور اپنے وسائل پر اپنے حق کیلئے صف آرا ہوں ورنہ ہماری نسلیں بھی ان کی مراعات کیلئے محنت بیچتی رہیں گی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *