سیاسی کارکن یا منشی؛ تحریر: راشد باغی
سیاسی کارکن کسی پارٹی میں موتیوں کے مالے کی مانند ہوتے ہیں سیاسی کارکن کسی ملک خطے کے اثاثہ ہوتے ہیں سیاسی کارکن ہی وہ پرت ہے جو سماج کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں کسی سیاستدان تک عام آدمی کی رسائی اور تعمیر ترقی کے لیے سیاستدان اور سیاسی کارکن کا رشتہ سیڑھی کی حثیت رکھتا ہے جس سیڑھی کے زینہ طے کرتے ایک عام آدمی اپنی مشکلات اپنے سیاستدان جو انھوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچائے ہوتے ہیں اُن تک پہنچاتا ہے سیاسی کارکن وہ ہوتا ہے جو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی ضروریات سے باخبر ہوتا ہے سیاسی کارکن اپنی پارٹی اور رہنما کے جائز موقف کے لیے نہ صرف لڑتا ہے بلکہ سچے آدرشوں کے لیے جان تک کا نظرانہ پیش کرنے سے گریز نہیں کرتا سیاسی کارکن وہ ہوتا ہے جو اپنے رہنما کی کسی غلط بیانی نا انصافی کے خلاف وہ جرت رکھتا ہو جو اُس کے خلاف کھڑا ہو سکے اور رہنما کی طرف سے کی گئی زیادتی کا ازالہ کر سکے ۔
لیکن آج سماج کا جہاں ہر رشتہ ،ناتا ،اخلاقیات اور ثقافت ٹوٹ کے بکھر چکے ہیں وہاں سیاستدانوں کا کسی واضح نظریے کا ہونا اور سیاسی کارکنوں میں کوئی سیاسی عملیت کا ہونا گدھے کے سر پر سینگھ ڈھونڈے کے مترادف ہے جہاں سیاستدان اپنے ارد گرد چاپلوس خوشامدیوں سے خوش رہیتے ہیں وہاں سیاسی کارکنوں کے نام پر منشی نما موقعہ پرست سوائے اپنی پیٹ پوچا کرنے کے علاوہ انھیں سماج میں دوسرے لوگ نظر ہی نہیں آتے ہیں اگر نظر آتے بھی ہیں تو کمتر حقیر ہی نظر آتے ہیں۔
آج کی نسبت اگر ایک دو دہائی پہلے کی سیاست اور سیاسی کارکنوں کی زندگیوں پر بھی اگر نظر دوڑائی جائے تو اکثریتی سیاسی ورکر بے لوث رہنماؤں کے پیچھے چلتے سماج کی نچلی پرتوں میں اپنے کردار کے باعث ایک مقام رکھتے تھے کیونکہ وہ سیاسی ورکر اُس نچلی پرت کے ساتھ ایک برادرانہ تعلق رکھتے اُن کی ہر خوشی غمی کو اپنی خوشی غمی سمجھ کر شریک ہونے کے ساتھ ارد گرد کے لوگوں کے تمام ضروری مطالبات پورا کروانے کی کوشش کرتے تھے۔
اور ایسے سیاسی کارکن سڑک ، پانی کی ٹینکی اور دوسرے چھوٹے چھوٹے ٹھیکے بھی نہیں لیتے تھے اگر لیتے تھے تو متعلقہ عوام کو اُس ٹھیکے کے کام میں ضرور شریک رکھتے تھے لیکن آج سیاسی کارکنوں کے نام پر ہیں ہی ٹھیکے دار اور سیکم چور ہیں جنہیں اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ دوسرے کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے۔
کچھ سیکم چور اور کچھ روزگار کی خاطر دھکے کھاتےان سیاستدانوں کی خوشامد میں اپنی عزت نفس کو اِس قدر مجروح کرتے چل رہے ہیں شائد وہ بھول چکے ہیں عزت نفس اور ظرف وغیرہ بھی انسان کے اندر خصوصیات ہوتی ہیں جو انسان کے اندر باقی رہا جائیں تو زندگی کی خوبصورت رمق ہیں۔
سرمایہ داری کے بحران نے جہاں روزگار اور دیگر انسان کی بنیادی ضرورتوں کا اس نظام میں نہ ختم ہونے والے بحران پیدا کر دیا ہے وہاں اِس عہد کی مطابقت سے عوام پر ایسے سیاستدان رہنما مسلط ہو رہے ہیں جو طوائف الملکوکی ،ہلڑ بازی ، جھوٹ ، فریب اور چرب زبانی میں ایک سے ایک بڑھ کر مثال بن رہے ہیں۔
اِس طوائف الملکوکی اور چرب زبانی کو آج کے عہد میں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے ہر مخالف پارٹی سے کارکن اور مزدور دوست سیاست کرنے والے جو اِس مین سٹریم پر رہینے والے سیاستدانوں میں دلچسپی نہیں رکھتے اور دیگر ایسے لوگ بھی جو بظاہر خود کو صرف سوشل ایکٹوسٹ کہتے ہیں اور اکثر کہا کرتے ہیں ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں وہ سب سیاستدانوں کی بے ہودگی کی شدید مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی موقعہ پرست منشی سیاسی کارکنوں کے نام پر دھبہ نما چلتی پھر رجعت مقابلہ بازی پر اُتر آتی ہے اور اپنے رہنما کے گُن گانا شروع کرنے کے ساتھ مخالف سیاسی رہنماؤں کی نازیبا الفاظ کی ویڈیوکلپ کا تبادلہ جاری ہو جاتا ہے تمہارے لیڈر نے یہ کہا تھا تو میرے لیڈر نے یہ کہا تھا تمہیں تب کیوں نہیں یاد رہا مذمت کرنا اب کیوں کر رہے ہو اِس طرح گالم گلوچ چند ہی گھنٹوں میں سمٹ کر انہی چاپلوس منشیوں میں کوئی ایک ہمت کرتے معذرت کرتا ہے اور کہتا ہے ہمارے لیڈر ہماری پہچان ہیں ہماری عزت ہیں بس کی جائے یہ گالم گلوچ تنقید ضرور کرو پر اخلاقیات کے دائرے میں رہا کر لیڈر ہیں فرشتے تو نہیں زبان پھسل جاتی ہے اور پھر ایک کی دیکھا دیکھی سارے منشی اِسی کام پر لگ جاتے ہیں۔
یوں کسی اگلے ایشو تک اپنے اپنے رہنما کو لے کر ہی اُن کے وصف کی تسبیح جاری رہیتی ہے۔
سیاست میں یہ دشنام طرازی ،ہلڑ بازی اور بے ہودگی ایک سیاسی خلا کے باعث پیدا ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ جو سیاسی تربیت کی نرسری طلباء یونینز تھی اُن پر پابندی لگا دی گئی تھی اور سیاستدان نوجوانوں کی نظریاتی تربیت کرنے کے بجائے انھیں ذاتی مفادات کے لیے اپنی تشہیر کے لیے اپنی نعرہ بازی تک محدود کر گے جس باعث کسی نظریاتی سیاست کے بجائے شخصیت پرستی نے جنم لیا ہے اور شخصیت پرستی میں جہاں آج سیاستدان کسی ایک پارٹی نظریہ کے ساتھ عوام میں نہیں آتے کیونکہ انھوں نے اسمبلی تک پہنچا ہوتا ہے اور جو حکومت بن رہی ہو انہوں نے اپنا قبلہ تبدیل کرنا ہوتا ہے اِس لیے انھیں منشی چاپلوس خوش آمدی کارکن کی ضرورت ہے لیکن اِس باعث دوسری طرف سیاسی کارکنوں اور نظریاتی سیاست کی عدم موجودگی میں سماج کی اکثریت ہی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو چکی اور چند کی دولت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
ایسے میں نوجوانوں کو سوچنا ہو گا وہ منشنی نما سیاسی کارکنوں بن کر سماج کا مزید بلادکار کریں گے یا نظریاتی طور پر متحرک ہو کر اس سماجی غلاظت کو اکھاڑ کر پھینکیں گے اور سیاست کو اصل معنوں میں سمجھتے نسل انسان کے لیے درست سمتوں کو تعین کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More